تاریخ، سائنس اور آثار قدیمہ کے علم میں بھی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے مگر ادب خاص طور سے اُردو ادب، ادبی تہذیبی اداروں اور روایتوں میں وہی زوال آمادہ طریقہ اب بھی جاری ہے۔
EPAPER
Updated: January 10, 2025, 1:31 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
تاریخ، سائنس اور آثار قدیمہ کے علم میں بھی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے مگر ادب خاص طور سے اُردو ادب، ادبی تہذیبی اداروں اور روایتوں میں وہی زوال آمادہ طریقہ اب بھی جاری ہے۔
سال گزر گیا اور زندگی کے علاوہ علم کے مختلف شعبوں میں بھی تبدیلیاں چھوڑ گیا مثلاً تعلیم، صحت اور معیشت میں کئی نئے تجربے اور اقدام کئے گئے ہیں ۔ تاریخ، سائنس اور آثار قدیمہ کے علم میں بھی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے مگر ادب خاص طور سے اُردو ادب، ادبی تہذیبی اداروں اور روایتوں میں وہی زوال آمادہ طریقہ اب بھی جاری ہے جس سے بہتر نتیجے کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ مثال یہ ہے کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسیز میں سال میں ۲؍ بار (جنوری فروری اور جولائی اگست) داخلے کی تجویز پیش کی ہے۔ پہلی سے آٹھویں جماعت تک کے طلبہ کو پاس کرنے کی پالیسی میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اب پانچویں اور آٹھویں میں ناکام ہونے والے طلبہ اگر رزلٹ کے بعد سپلیمنٹری امتحان میں بھی ناکام ہوتے ہیں تو ان کو ترقی نہیں دی جائے گی۔ صحت کے سلسلے میں جو اطلاعات ملی ہیں ان کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ:
lاب نیورو کی پریشانیوں کا علاج پہلے جیسا مشکل نہیں ہوگا۔ بغیر سرجری کے بھی علاج کیا جاسکے گا۔
lاب بلڈ پریشر بے قابو نہیں ہوگا۔ آپریشن کے بغیر والو بھی تبدیل کیا جاسکے گا۔
lایسی دوائیں اور تکنیک استعمال کی جا رہی ہیں جن سے شوگر کا آنکھوں پر کم سے کم اثر ہوگا اور وہ دیکھتی رہیں گی۔
lشوگر اور وزن دونوں کم کرنے والی دوائیں ایجاد کر لی گئی ہیں ۔
lمینٹل یعنی ذہنی امراض کا علاج بھی آسان ہوا ہے۔
lکینسر کا بھی اب پہلے کے مقابلے زیادہ بہتر اور کم خرچ علاج کیا جاسکے گا۔
lکینسر سے بچنے کی ویکسین کی تیاری بھی مکمل ہورہی ہے۔
lوزن گھٹانے کی دوا سے اچھی نیند بھی آئے گی۔
lدانتوں کا علاج پہلے سے بہتر اور آسان کیا جاسکے گا۔
lدور دراز کے علاقوں کے مریضوں کے علاج کے لئے ٹیلی پیتھی کی تکنیک بھی ایجاد کی گئی ہے۔ ڈاکٹر اپنے کیبن (کمرے) میں بیٹھ کر دور دراز کے مریض کو دیکھ بھی سکے گا اور اس کا علاج بھی کرسکے گا۔
lپتھری نکالنے کیلئے اب گردے کے آپریشن کی ضرورت نہیں پیش آئیگی۔ ٹی سی این ایل یعنی مڑنے والی دوربین کی مدد سے کڈنی اسٹون کی صحیح جگہ کا پتہ لگا کر لیزر کی مدد سے اس کو توڑا جاسکتا ہے وغیرہ۔
معیشت میں ہندوستان کے وسائل اور مسائل دونوں میں اضافہ ہوا ہے اس کے باوجود ہندوستان کی معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ یہاں ارب پتیوں کی تعداد کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی دولت کا ۷؍ فیصد ہندوستانی ارب پتیوں کے پاس ہے۔ سونے کے ذخائر کے سلسلے میں ہندوستان ۸؍ ویں نمبر پر ہے۔ یہاں زر مبادلہ ۶۰۰؍ بلین ڈالر کے قریب ہے جو روپیہ کی قیمت بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔
مگر روپے کی قیمت میں جس تیزی سے کمی آرہی ہے وہ تشویشناک ہے۔ یہ بھی تشویشناک ہے کہ گزشتہ ۱۳؍ برسوں میں جن لوگوں نے ہندوستان کی شہریت ترک کی ہے ان کی تعداد ۱۸؍ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بھی مضحکہ خیز ہے کہ ہندوستان کی شہریت چھوڑنے والوں نے پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار، فجی، تھائی لینڈ، نیپال، سری لنکا اور نامیبیا جیسے ممالک کی شہریت اختیار کی ہے جو ترقی اور عالمی اثر و رسوخ میں ہندوستان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ کئی منافع بخش اسکیموں کے نفاذ اور کافی لوگوں کو مفت علاج دیئے جانے کے باوجود عام لوگوں کی مالی حالت اچھی نہیں ہے۔ ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ مالی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔
محکمۂ آثار قدیمہ کو موہن جوداڑو اور ہڑپا میں کھدائی کے دوران کئی چیزیں ملی تھیں ۔ دہلی سے تقریباً ۷۰؍ کلومیٹر دور جمنا کے کنارے باغپت کے ’سنولی‘ میں ہوئی کھدائی نے کچھ دوسری دریافتوں اور رجحانات کو ظاہر کیا ہے جن سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا اور نئے حقائق سامنے آتے ہیں ۔ تاریخ فہمی میں کھدائی سے دریافت باقیات کے علاوہ کاربن ڈیٹنگ سے بھی کام لیا جا رہا ہے جو سائنس ہے۔ سائنسدانوں نے ہی خبردار کیا ہے کہ ’مرر بیکٹیریا‘ بے قابو ہوسکتے ہیں ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ڈی این اے، پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹ میں ایک خاص بات ہوتی ہے اور یہی بات قدرت کی مختلف تخلیقات میں تفریق پیدا کرتی ہے اس کا مطلب ہے کہ ڈی این اے، پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹ جیسے ’مالیکیولس‘ کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ پہلا حصہ یا اڈیشن اصل ہوتا ہے اور دوسرا حصہ یا اڈیشن اس کا عکس۔ اسی کو ’مرر امیج‘ کہتے ہیں جیسے دائیں اور بائیں ہاتھ کا عکس۔ ’مرر بیکٹیریا‘ بھی یہی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس بیکٹیریا کے جنگل میں کھسکنے اور اس کی افرائش کو روکنے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔
مثالیں بہت ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ زندگی اور علم کے مختلف شعبوں میں کچھ نہ کچھ نیا ہورہا ہے مگر ہمارے مشاعروں ، ادبی تہذیبی اداروں اور ادبی پروگراموں کے آج بھی پرانی ڈگر پر چلنے اور سازشوں کا شکار ہونے کی اتنی مثالیں ہیں کہ سب کو ایک مضمون میں پیش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ غور کیجئے تو فہرستوں میں گلیمر، تفریح فراہم کرنے یا پھکڑ پن کرنے، لیڈروں اور مذہبی طبقے کو گالم گلوج اور پیروڈی کرنے والوں کے علاوہ چوری کرنے والوں کو بھی ترجیح دی جارہی ہے۔ ہر طرف متشاعروں کا غلبہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:محکمۂ افواج کی ملازمت اور ہماری ترجیحات
ادبی تہذیبی اداروں کے ذمہ داروں کے فیصلے لگائی بجھائی، خوشامد اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ اُردو کو فروغ دینے کے بیشتر ادارے سیاست کی نذر ہو کر اپنی افادیت کھوتے جا رہے ہیں ۔ کئی مثالیں تو ایسی ہیں کہ وزراء اور تہذیبی اداروں کے سربراہوں نے وضع قطع دیکھ کر کسی کو نامزد کر دیا۔ ابھی ۲۴؍ دسمبر کو آئی پی ایس افسر اور ممتاز شاعر قیصر خالد کے ’پاسبان ادب‘ کے زیر اہتمام ’میراث‘ کی کئی تقریبات ہوئیں ۔ ایک صاحب نے قیصر خالد اور اُن کے معاون دانش کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو اچھے پروگرام منعقد کرتے ہیں ان کو مزید اچھا بنائیں جس کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ سفارش و گزارش والوں کو طاق پر رکھتے ہوئے ایسے موضوعات پر گفتگو ہو جس سے سامعین کچھ سیکھ سکیں مثلاً گفتگو کا موضوع ’’سائنسی سماجی علوم اور ادبیات‘‘ ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے اس پر جواب دینے اور سوال کرنے والے یعنی دونوں کا ذی علم ہونا ضروری ہے۔ ایک بات اور، مشاعروں کی فہرست سے ان لوگوں کو دور رکھنا بھی بہت ضروری ہے جو دس بیس غزلوں میں عمر گزار دیتے ہیں ۔