سرکاری افسران کی آر ایس ایس سے وابستگی پر عائد پابندی ختم کرنے کا کوئی سوال نہیں تھا کیونکہ کوئی روک ٹوک تھی بھی نہیں، اس پر بحث کرنے سے بہتر ہے کہ سیکولر ذہن کے لوگ اصل نظریۂ ہندوستان کی فکر کریں۔
EPAPER
Updated: August 12, 2024, 1:39 PM IST | Suhas Palshikar | Mumbai
سرکاری افسران کی آر ایس ایس سے وابستگی پر عائد پابندی ختم کرنے کا کوئی سوال نہیں تھا کیونکہ کوئی روک ٹوک تھی بھی نہیں، اس پر بحث کرنے سے بہتر ہے کہ سیکولر ذہن کے لوگ اصل نظریۂ ہندوستان کی فکر کریں۔
حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسی حکومت کو، جس کے کئی لیڈران آر ایس ایس سے وابستہ رہنے پر فخر کااظہار کرتے ہیں ، سرکاری ملازمین کے آر ایس ایس میں شامل ہونے پر عائد پابندی ہٹانے میں دس سال کا عرصہ درکار ہوا۔ ہ کام تو اس کے اقتدار کے پہلے ہی سال میں ہوسکتا تھا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اس فیصلہ سے کوئی غیر معمولی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس تنظیم سے ہمدردی جتانے والے نوکر شاہوں کی کمی نہیں ہے۔ اب وہ عہدہ پر برقرار رہتے ہوئے کھلے عام اس کے گن گائینگے۔ اس فیصلہ کے ساتھ ہی مودی حکومت نے ہندو راشٹر کی طرف ایک اور قدم بڑھادیا ہے۔ اب کوئی امید ہی کرسکتا ہے کہ ڈپارٹمنٹ آف پرسونل ٹریننگ، سرکاری ملازمین کو گرو پورنیما کی تقریب میں شرکت کیلئے تنظیم کی شاکھا میں جانے یا دسہرہ ریلی میں شریک ہوکر سیلفی اپلوڈ کرنے کا حکم نہ جاری کردے۔
آر ایس ایس کا اثر زندگی کے مختلف شعبوں میں ہے، بعض جج حضرات بھی اس سے وابستگی کا کھلا اقرار کرچکے ہیں ۔ وہ باشعور افراد ہوں یا بے شعور تماشائی، بہتوں کے خیالات سے اس تنظیم کے نظریات جھلکتےہیں ۔ ان حالات میں کسی حکمنامے کے ذریعے نوکر شاہوں اور سرکاری ملازمین کو روکنا بے معنی تھا، لہٰذا اس پابندی کو ہٹا لینے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑیگا۔ یہ فیصلہ قانونی یا انتظامی نوعیت کا نہیں ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ، یہ ملک کے بدلتے عوامی سیاسی منظرنامہ کا بے داغ عکس ہے۔
پابندی ہٹانے کے فیصلہ سے آر ایس ایس اور آئین ِ ہند کے نظریات کے درمیان تفاوت کی فہم کے تعلق پر سوال کھڑا ہوتا ہے۔ سنگھ اور دستور کے نظریات کا موازنہ کریں تو دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں اس لئے چاہے حقیقتاً ہو یا رسماً، سرکاری ملازمین یعنی نوکر شاہوں کی آر ایس ایس سے وابستگی، ان کے آئین کے مطابق کام کرنے کے عزم یا عہد کو خطرے میں ڈال دیگی۔
آر ایس ایس جو ایک مخصوص سماج کو منظم کرنے کی خواہاں ہے، اُن سرکاری ملازمین کی حمایت کے لائق نہیں ہو سکتی جن کا فرض پورے ہندوستانی سماج کی خدمت کرنا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے بعد ملک کی جس طرح تشکیل نو کی گئی، آر ایس ایس اسے منظور نہیں کرتا۔ اس کا ماننا ہے کہ ’’۱۹۴۷ء کے بعد، اگر ہمارے حکمراں ، قومی زندگی کی تشکیل نو ہندوستانی ثقافت کے مطابق کرتے تو یہ عمل زیادہ منطقی ہوتا۔ افسوس کی بات ہے کہ اُنہوں نے ایک سنہرا موقع گنوا دیا۔‘‘ (بحوالہ: آر ایس ایس کی ویب سائٹ)۔
اس کے برخلاف، ہمارے آئین کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ہندوستان مختلف فرقوں ، مذاہب اور روایات پر مشتمل ایک قوم ہے۔ آر ایس ایس ایسا نہیں ہے۔ وہ ایک مخصوص مذہبی فرقہ کو قوم کا بنیادی ستون مانتا ہے۔ ایک مذہب کو حد درجہ اہمیت دینے کے بعد تمام قوم پرستانہ نظریات، خارجی قوم پرستی کی حمایت کرتے ہیں جسے ہندوستانی آئین نے شعوری طور پر مسترد کیا ہے۔ اس تنازع کو رسمی اعلانات سے پرے ہوکر سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوامی حلقے میں آر ایس ایس نے چند مخصوص نظریات کے سبب مقبولیت حاصل کی ہے اور جمہوریت میں ملنے والی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شکوک و شبہات، اضطراب اور دشمنی پر مبنی سیاست کی آبیاری کی ہے۔
گزشتہ تقریباً ایک صدی میں ، ہندوستان میں دو نظریات کے تحت دو اقسام کی سیاست کا متوازی ارتقاء ہوا ہے۔ اول، ہندوتوا کی سیاست جو فکری طور پر گولوالکر اور ساورکر کے نقطہ نظر پر مبنی ہے اور دوئم، جمہوری سیاست جو گاندھی اور نہرو کے نقطہ نظر کی رہنمائی میں پروان چڑھی۔ گولوالکر نے ماضی کے ایک ہزار سال پر تنقید کئے بغیر انہیں بنیاد بنانے کا رجحان شروع کیا جبکہ ساورکر نے بظاہر خود کو روایت پرستی سے دور رکھا لیکن تاریخ کو ہندوتوا کا ثبوت اور جواز تسلیم کیا اور اسے ہندو قوم پرستی کی حفاظتی دیوار کے طور پر استعمال کیا۔ ساورکر نے طاقت کی تلاش کو اعلیٰ مقاصد کے حصول کیلئے اخلاقی لحاظ سے قابل قبول راستہ قرار دیا، جو عصری ہندوتوا کی پہچان ہے۔ اس لئے آج کا ہندوتوا بظاہر الگ الگ طریقوں کا مجموعہ ہے جس میں اکثریت پسندی، غیر تنقیدی روایت پرستی اور قدامت پسندی کے نظریات، جدیدیت کے ساتھ فروغ پاتے ہیں ۔
اس کے برعکس، گاندھی اور نہرو کے نقطہ نظر نے ماضی کو باریک بینی سے سمجھنے کی کوشش کی اور روایات کی ایسی تشریح کی جو خود تنقیدی جدیدیت سے متاثر ہے جس نے اس کو یقینی بنایا کہ ’’عوام‘‘کی تعریف میں ذات اور عقیدے سے قطع نظر سبھی عوام شامل ہوں ۔ خوش قسمتی سے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے مداخلت کرکے، روایت کے بارے میں اس رومانوی خیال سے، کہ جمہوریت خود بخود تمام برائیوں کو حل کرلے گی، اس نقطہ نظر کو محفوظ رکھا۔ امبیڈکر کی مداخلت نے یقینی بنایا کہ آئین، آنکھیں موند کر’’اقدارِ رفتہ کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل نو‘‘ کی حمایت نہ کرے بلکہ سماج میں جمہوری (اور سائنسی) تبدیلی کیلئے کوشاں رہے۔ اسے آئینی اخلاقیات کا فریم ورک کہا جاتا ہے۔
جمہوریت کے سامنے دائمی چیلنج رہتا ہے کہ وہ غیر جمہوری، نیم جمہوری اور خارجی نظریات اور سیاست کے وجود کو قبول کرے۔ ہندوستانی جمہوریت گزشتہ سات دہائیوں سے اس چیلنج سے نبرد آزما ہے۔ آئینی اخلاقیات سے متصادم تنظیمیں اور جماعتیں اقتدار کیلئے مقابلہ کر سکتی ہیں اور باضابطہ حکومتی طاقت حاصل کر سکتی ہیں ۔ آئینی اخلاقیات سے متصادم سیاست، شہریوں کو متاثر کر سکتی ہے اور مقبولیت حاصل کر سکتی ہے نیزفکری کشش کی حامل بن سکتی ہے۔ نیم جمہوری نظریات اور اس طرز کی سیاست سے فکری اُنس رکھنے والے افراد مسلح افواج، بیوروکریسی اور عدلیہ میں اعلیٰ مناصب پر فائز ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ مذکورہ بالا دو انداز فکر کی لڑائی میں جمہوری نقطہ نظر کو ہی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ سرکاری ملازمین پر آر ایس ایس میں شامل ہونے پر پابندی ہو یا نہ ہو، ہندوتوا موجود رہے گا اور جب تک آئینی جمہوریت کے نظریہ کو زندہ نہیں کیا جاتا اور اس کی تشہیر نہیں کی جاتی، کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔اس لئے، یہ وقت آئینی جمہوریت کیلئے جی جان سے جدوجہد کا ہے۔