Updated: December 12, 2024, 12:27 PM IST
| Mumbai
ہماری عبادت گاہوں کو جس طرح متنازع بنایا جا رہاہے وہ تو جگ ظاہر ہے ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔ جمہوریت میں عدلیہ کو آخری امید کی کرن سمجھا جاتاہے کہ تمام تر ناانصافیوں کے خلاف ہم اسی سے رجوع کرتے ہیں لیکن اب وہاں بھی ایسے منصفوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے جو ایک خاص نظریے کی وکالت کرنے لگے ہیں ۔
انسانی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ دنیا کی ہر قوم عروج وزوال کی شکار رہی ہے اور تغیرِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی بقا وبہبود کے راستے بھی خود تلاش کئے ہیں ۔اگر کوئی قوم اس آزمائش میں ناکام رہی ہے تو پھر وہ بدلتے وقت کے ساتھ مزید مصائب وآلام میں گرفتار ہوتی گئی ہے۔ اس وقت ہندوستان میں جس طرح کے حالات پیدا ہوئے ہیں وہ کوئی ایک دن میں نہیں ہواہے بلکہ امن وآشتی کے اس گہوارے کی فضا کو مکدر بنانے کے لئے ایک صدی سے جہد مسلسل جاری ہے۔اس تلخ حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اس طرح کے حالات پیدا کرنے کے لئے کسی ایک نظریے کے علمبردار یا ایک سیاسی جماعت کے پیروکار کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اب اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کہیں لباس کی بنیاد پر تو کہیں اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے تشدد کا شکار ہو رہی ہے۔فرقہ وارانہ نفرت انگیزی کا حال یہ ہے کہ اکثریت طبقے کی آبادی میں کوئی اقلیت طبقے کا شخص کرایہ دار بھی نہیں رہ سکتا اور مکان خریدنے کی حماقت کرتا ہے تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں مرادآباد کے ایک علاقے میں ایک مسلم ڈاکٹر کے ذریعہ اکثریت طبقے کے محلے میں مکان خریدنے کو لے کر جس طرح کا ہنگامہ برپا ہواہے وہ صرف ایک جگہ کی بات نہیں ہے بلکہ مختلف شہروں کا منظر نامہ یہی ہے ۔ہماری عبادت گاہوں کو جس طرح متنازع بنایا جا رہاہے وہ تو جگ ظاہر ہے ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔ جمہوریت میں عدلیہ کو آخری امید کی کرن سمجھا جاتاہے کہ تمام تر ناانصافیوں کے خلاف ہم اسی سے رجوع کرتے ہیں لیکن اب وہاں بھی ایسے منصفوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے جو ایک خاص نظریے کی وکالت کرنے لگے ہیں ۔
کہیں کسی فاضل جج کو اذان کی آواز سے تکلیف ہے تو کوئی اب اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ملک اکثریت کے خواہشات کے مطابق چلے گا۔ظاہر ہے کہ یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے اس کے لئے برسوں سے زمین تیار کی گئی ہے۔ حال ہی میں متھرا میں ایک خاص شدت پسند تنظیم کے ملک بھر کے تقریباً تین سو سے زائد مختلف سطحوں کی عدلیہ کے جج صاحبان شامل ہوئے تھے اور اپنے نظریے کی وضاحت کی تھی۔ ملک کی تمام عدلیہ میں ایک خاص نظریے کے وکلا ء کی تنظیم کی فعالیت دیکھ کر ایسے جج جو انصاف پسند ہیں وہ بھی حیران ہیں کہ کس طرح ایک خاص نظریہ کے وکلا ءنے عدلیہ نظام کو متاثر کرنا شروع کیا ہے لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہم اس بدلتے حالات سے واقف ہوتے ہوئے بھی خوابِ خرگوش میں مبتلا ہیں اور بس جذباتی نعروں میں بہے جا رہے ہیں۔دعوے در دعوے کر رہے ہیں اور زمینی حقیقت سے نگاہیں بچا رہے ہیں ۔ دراصل ہماری ظاہری دعویداریاں اور قول وفعل کے تضاد نے ہمارے معاشرے کو اس دہانے تک پہنچادیاہے کہ اوروں کی سازش تو ہو ہی رہی ہے اپنے بغض وعناد اور مذہبی ومسلکی تضادات نے ہمارے معاشرے کو تہس نہس کر رکھا ہے۔ہماری کئی مذہبی جماعتیں ہیں ان میں کسی کا دعویٰ ہے کہ وہ سو سال سے مذہبی اصلاحی تحریک چلا رہے ہیں اور کسی کا دعویٰ ہے کہ ۷۵؍ برسو ں سے ان کی جماعت مسلم معاشرے میں تعلیمی اور سماجی بیداری کے لئے کام کررہی ہے ۔ذرا غور فرمائیے کہ ان کے دعووں کی حقیقت کیا ہے جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ سو برسوں سے لوگوں کو مسجدوں تک لے جانے کی جد وجہد کر رہے ہیں ان کے دعووں کی پول اس وقت کھل جاتی ہے جب کسی بھی گائوں اور محلے کی آبادی سے دس سے پندرہ فیصد سے زیادہ نمازیوں کی صف تیار نہیں ہوئی اور جو تعلیمی اور سماجی برائی کے لئے کام کرنے کا بلند بانگ دعویٰ کر رہے ہیں اس کی سچائی بھی سامنے ہے کہ تعلیمی پسماندگی کا گراف کتنا بلند ہواہے اور جہیز جیسی لعنت نے ہمارے معاشرے کو کس اضطرابی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
دراصل ہماری مذہبی تنظیمیں ہوں کہ سماجی،پروپیگنڈہ کی شکار ہیں اور وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے صرف اور صرف کبھی کسی خاص سیاسی جماعت کو تو کبھی کسی خاص نظریہ کی شدت پسند تنظیم کو کوستے رہتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام ظاہری عمل سے کنارہ کش ہو کر زمینی حقیقت کی تلاش میں لگ جائیں اور جس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں اقلیتو ں نے اپنے معاشرتی اور معاشی نظام کو مستحکم کیا ہے اس نسخے کو اپنایا جائے ۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں سیاہ فام نے جس طرح تعلیمی اور سماجی شعبے میں متحد ہو کر کام کیا اور اس سپر پاور ملک میں خود کو سپر بنایا وہ نسخہ سبق آموز ہے ۔اب ہمیں کسی بڑے شہروں میں نہ دین بچائو ریلی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ آئین بچانے کی ظاہری تماشہ بازی ، بلکہ گائوں اور شہر میں وارڈ کی سطح پر اپنی حقیقت سے روبرو ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم کس قدر مسلکی تنازع کے شکار ہیں ، ذاتیات میں تقسیم ہیں ، کورٹ کچہری کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور شادی بیاہ کا مسئلہ کس قدر سنگین ہوگیا ہے۔ اگر ایک وارڈ کی اصلاح کرنے اور اس کی تصویر بدلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو خود بخود ہمارا معاشرہ ایک مثالی بن جائے گا جس کے اسباق قرآن او ر حدیث نے سکھائے ہیں کہ ہماری شناخت ہمارے اعمال وکردار کے ذریعہ ہونی چاہئے۔اب وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم انفرادی اصلاح کو اپنا مشن بنائیں ۔ دراصل اب اس ملک میں جس طرح کی سیاسی فضا پروان چڑھی ہے اس میں کسی بھی واحد سیاسی جماعت کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھنا اور کسی کی آنکھ بند کر کےحمایت کرنا بھی ہمارے لئے مضر ثابت ہوگا کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور جمہوریت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے جمہوری فرائض کی انجام دہی کو تماشہ نہ بنائیں ۔
مختصر یہ کہ ایک جمہوری ملک میں اقلیت کے جو حقوق ہیں اس کی بازیابی کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم متحد ہوں اور خود احتسابی کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں کہ دنیا کی تاریخ میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ دنیا کے جس حصے میں کسی قوم نے بالخصوص اقلیت نے خود احتسابی کے ساتھ ساتھ عمل پیہم اور محبت فاتحِ عالم کے نسخے کو اپنایا ہے وہ تمام تر مصائب وآلام سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔