• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تعلیم میں مثبت تجربے یا سیاست؟

Updated: February 20, 2025, 3:58 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

یہ حقیقت مسلّم ہے کہ تعلیم کی حیثیت انسانی معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی ہے اور اسی نسخے کو مغربی ممالک نے عملی طورپر اپنانے کی کوشش کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ معیاری بنیادی تعلیم کے معاملے میں عالمی نقشے پر نمایاں ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 دنیا میں جتنے بھی چھوٹے بڑے ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی اور معاشی استحکام صرف اور صرف معیاری تعلیم، تغیر زمانہ کے ساتھ تعلیمی شعبے کی ہم آہنگی ،عصری تقاضوں کے مطابق تعلیمی نصاب میں تبدیلی اور شعبۂ تعلیم کو سیاست کی شطرنجی چال سے پاک رکھنا ہے۔ یہ حقیقت مسلّم ہے کہ تعلیم کی حیثیت انسانی معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی ہے اور اسی نسخے کو مغربی ممالک نے عملی طورپر اپنانے کی کوشش کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ معیاری بنیادی تعلیم کے معاملے میں عالمی نقشے پر نمایاں ہے بلکہ امریکہ ، جرمنی اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی پرائمری اور سیکنڈری معیاری تعلیم کے معاملے میں فن لینڈ سے پیچھے ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک میں دیگر شعبے کی طرح تعلیم کو بھی سیاسی چشمے سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور مثبت تجربے کی آڑ میں اپنے سیاسی مفاد کو اولیت دی جاتی رہی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء سے یہ امید بڑھی تھی کہ ملک میں تعلیمی نظام میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ قدرے بہتری بھی آئے گی۔ بالخصوص لسانی فروغ کا راستہ ہموار ہوگا اور ملک کی مختلف علاقائی زبانوں کو ترقی کرنے کا موقع ملے گا۔کیوں کہ اس پالیسی میں مادری زبان کے ذریعہ تعلیم دینے کی وکالت کی گئی ہے اور ہندوستان جیسے کثیر اللسان ملک کیلئے یہ خوش آئند قدم ہے۔ اس نئی پالیسی میں بھی میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے پیشہ ورانہ تعلیم بذریعہ مادری زبان حاصل کرنے کی وکالت کی گئی ہے اور حکومت نے اس کے لئے اقدام بھی اٹھائے ہیں۔لیکن اس پالیسی کا نفاذ بھی اب تک پورے ملک میں یکساں طورپر نہیں ہو سکا ہے ۔ حال ہی میں تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اسٹالین نے سہ لسانی فارمولے کی مخالفت کی ہے اور اس مسئلے پر مرکزی وزیر تعلیم دھرمندر پردھان اور اسٹالین کے درمیان تو تو میں میں بھی ہو رہی ہے۔غرض کہ قومی سطح پر اب تک اس نئی پالیسی کی قبولیت پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ حال ہی میں یو جی سی نے ملک کی تمام ریاستی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری اور اساتذہ کی تقرری کے لئے جو نئے مجوزہ سرکیولر تیار کئے ہیں وہ بھی متنازع فیہ بن گیا ہے۔ظاہر ہے کہ اب تک وائس چانسلر کی تقرری میں ریاست کے گورنر جو ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہوتے ہیں ان کو وائس چانسلر کی تقرری میں کلّی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ریاستی حکومت سے صلاح ومشورہ کی بنیاد پر ہی تقرری کرتے ہیں لیکن مجوزہ سرکیولرمیں ریاستی حکومت کو بالکل الگ کردیا گیاہے۔ اسی طرح اساتذہ کی بحالی کیلئے بھی نِت نئے نئے اہلیت کے فارمولے طے کئے جا رہے ہیں جسے دیکھ کراندازہ لگتا ہے کہ کسی خاص مقصد کیلئے ایسا کیا جا رہا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح ایک خاص نظریے کے لوگوں کو ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جگہ دی جا رہی ہے اس کی سہولت کیلئے زیادہ تجربے ہو رہے ہیں ورنہ اگر واقعی حکومت کی منشا ملک کے تعلیمی ڈھانچوں کو مستحکم کرنا اور معیاری بنانا ہوتا تو روز نئے نئے تجربے کی جگہ کوئی مثبت ٹھوس قدم اٹھایا جاتا مگر ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
  حال ہی میں اثر (Anual Status of Education Report)جسے پرتھم رپورٹ بھی کہا جاتا ہے اور سال ۲۰۰۵ء سے ملک میں دیہی علاقوں کے اسکولی بچوں کی علمی لیاقت وصلاحیت کی رپورٹ تیار کرتی ہے اس کو دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ حا لیہ ۲۰۲۴ء کی رپورٹ میں یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ درجہ تین کے ۲۳ء۴؍ فیصد بچے آسان ہندی یا اپنی مادری زبان بھی صحیح سے نہیں پڑھ پا رہے ہیں ۔ اسی طرح درجہ پانچ کے ۴۵؍ فیصد بچے معمولی حساب بھی نہیں کر پا رہے ہیںاور اس سے بالا درجے کے بچے بھی درستگی کے ساتھ اپنے نصاب کی کتاب پڑھنے میں ناکام ہیں۔ ۲۰۰۵ء سے یہ رپورٹ جاری ہورہی ہے اور ہر دو سال کے بعد رپورٹ میں یہ حقیقت عیاں ہو رہی ہے کہ ہمارے دیہی علاقے میں تعلیمی معیار میں پستی آرہی ہے کیوں کہ اب بھی پچاس فیصد سے زائد بچے اپنے درجے کے معیار کو پورا نہیں کر رہے ہیں۔میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر بھی یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ریاست بہار میں بھی یہی صورتحال ہے کہ کالجوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی اکثریت درستگی کے ساتھ کسی بھی زبان میں درخواست تک لکھنے سے قاصر ہیں ۔ اس کے باوجود اس کے نتائج اچھے آرہے ہیں یہ ایک لمحہ ٔ فکریہ ہے جس پر صرف حکومت کو نہیں بلکہ شعبۂ تعلیم سے وابستہ افراد کو بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ حکومت جس طرح تعلیمی شعبے میںبھی پروپیگنڈہ کو اہمیت دے رہی ہے کہ اس سے سیاسی فائدہ مقصود ہے تو ایسے وقت میں عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کے تئیں سنجیدہ ہوں اور بالخصوص متوسط طبقہ جس کے اندر یہ بیداری تو قابلِ تحسین ہے کہ وہ تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور بالخصوص لڑکیوں کو بھی اسکول کے بعد کالج تک پہنچا رہے ہیں لیکن معیارِ تعلیم کے معاملے میں وہ سنجیدہ نہیں ہیں جس کا خسارہ اس طبقے کو زیادہ اٹھانا پڑے گا کہ اب تیسرے اور چوتھے درجے کی سرکاری ملازمت بھی مقابلہ جاتی امتحانات کی بنیاد پر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔اس لئے اگر اسکول اور کالج سے ہی اس کی ذہن سازی نہیں کی گئی اور معیار کے مطابق تعلیم مہیا نہیں کرائی گئی تو پھر اس کے روشن مستقبل کے امکانات کم ہو جائیں گے۔اس لئے متوسط طبقے کو سرکاری مراعات سے زیادہ معیار تعلیم کے تئیں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ بہار میں اسکولی طالبہ کو سائیکل اور پوشاک دئیے جا رہے ہیں یہ ایک اچھی پہل ہے کہ اس سے داخلے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ کالج میں پڑھنے والی طالبہ سے کسی طرح کی فیس نہیں لی جاتی بلکہ انٹر میڈیٹ پاس کرنے والی لڑکیوں کو پچیس ہزار اور گریجویشن پاس کرنے والی لڑکیوں کو پچاس ہزار روپے کی رقم وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت والی حکومت دے رہی ہے لیکن جہاں تک معیار تعلیم کا سوال ہے تو اس کیلئے عملی اقدام سے کہیں زیادہ سرکاری خانہ پُری کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اس لئے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو شعبۂ تعلیم کوصدق دل سے معیاری ومستحکم بنانے کی پہل کرنی چاہئے کہ وکشت بھارت کا خواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جب ہمارا شعبۂ تعلیم تمام تر ازم سے پاک صاف ہوگا۔

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK