لال قلعہ سے وزیر اعظم کی طویل تقریر کے بارے میں مضمون نگار کا کہنا ہے کہ مودی کی بابت سمجھا گیا تھا کہ معاشی اصلاحات کے چمپئن ثابت ہونگے مگر افسوس!
EPAPER
Updated: August 19, 2024, 1:52 PM IST | Tulane Singh | Mumbai
لال قلعہ سے وزیر اعظم کی طویل تقریر کے بارے میں مضمون نگار کا کہنا ہے کہ مودی کی بابت سمجھا گیا تھا کہ معاشی اصلاحات کے چمپئن ثابت ہونگے مگر افسوس!
ایک ایسے شہری کی حیثیت سے جس کی ولادت حصول آزادی کے نہایت قیمتی موقع کے تین سال بعد ہوئی، مَیں نے وہ دن دیکھے ہیں جب ہمارا یہ ملک بہت سی سہولتوں سے بالکل ہی بیگانہ تھا۔ اسی لئے مجھے کھلی معیشت کی وہ پالیسی جو کانگریسی وزیر اعظم (نرسمہا راؤ) کے دور میں جاری ہوئی، جدید ہندوستان کی جانب ہمارا پہلا قدم محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو سیاسی طور پر آزاد ہوئے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طرح کی معاشی آمریت کا دور دورہ تھا۔ پی وی نرسمہا راؤ کا دور آنے کے بعد ہم بتدریج کڑے اور اہم فیصلوں کی جانب بڑھنے لگے جس کے نتیجے میں لائسنس راج ختم اور معاشی اصلاحات کا دور شروع ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس وزیر اعظم کے بارے میں شاذ و نادر ہی کوئی اچھی رائے سننے کو ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کانگریس میں اُس کانگریسی وزیر اعظم (نرسمہا راؤ) کیلئے وہ عزت نہیں تھی جو کھلی معیشت کے اُن کے فیصلے اور اس کے ثمرات کی وجہ سے ہونی چاہئے تھی۔
جب مَیں ،یوم آزادی پر لال قلعہ سے وزیراعظم مودی کی طویل تقریر سن رہی تھی،میرے ذہن میں یہی بات آئی جو اوپر کے پیرا گراف میں بیان کی گئی ہے۔ میر ی توجہ اس بات پر تھی کہ وزیر اعظم کس طرح اپنی ’’اصلاحات‘‘ کی ستائش کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں بہت کم ایسی چیزیں ہوئی ہیں جنہیں ہم حقیقی اصلاحات کا نام دے سکتے ہیں ۔ سڑکیں ، ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہیں تیز رفتاری کے ساتھ تعمیر ہوئی ہیں اس کا اعتراف کرنا چاہئے اور ستائش بھی کی جاسکتی ہے۔ فلاحی ریاست کی جانب ہمارے قدم بڑھے ہیں اس کی بھی ستائش ہو سکتی ہے۔ سوچھ بھارت کی وجہ سے دیہی علاقو ں کو جو فیض پہنچا وہ بھی قابل قدر ہے اور اُس کا بھی اعتراف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن، جب وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے طرز حکمرانی کو تبدیل کردیا ہے تو میرے لئے اس بات سے اتفاق کرنا مشکل تھا۔
یہ سچ نہیں ہے۔ طرز حکمرانی پر سوال اُٹھ سکتے تھے مگر نہیں اُٹھے کیونکہ وزیر اعظم نے ایک ایسا حصار کھینچ دیا ہے کہ کوئی بھی اطلاع جہاں پہنچنی چاہئے نہیں پہنچتی۔ کانگریس کے وزراء اپنے دور میں اتنے ناقابل رسائی نہیں ہوتے تھے جتنے کہ موجودہ دور کے بی جے پی وزراء ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وزیر اعظم میں کبھی اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اپنے وزیروں کو محل نما بنگلوں سے نکل کر عام انسانوں جیسی زندگی گزارنے کی تلقین کرسکیں ۔ اس کی وجہ سے طرز حکمرانی میں سنگین نوعیت کی ناکامیاں درآئی ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر چونکہ عوام اور وزراء کے درمیان جو رابطہ ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہے اس لئے حکمرانی میں جو ردوبدل درکار تھا، نہیں ہوا اور حکومت کے فیصلوں کا کوئی اثر زمین پر نظر نہیں آیا۔
حالیہ دنوں کی ایک مثال اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہے۔ اُن کے وزیر تعلیم نے سرے سے انکار کردیا کہ نیٹ امتحان کے پرچے لیک ہوئے۔ اُنہوں نے اس سے بھی انکار کیا کہ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کا کام کاج بہت سے نقائص کاحامل ہے۔ وزیر موصوف نے کچھ سننے کی زحمت تبھی کی جب طلبہ سڑکوں پر اُترے اور اُن کے معاملے، مسئلے یا پریشانی کو نیوز چینلوں نے اس قابل سمجھا کہ اس کا کوریج ہونا چاہئے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ گزشتہ دس سال میں سب سے بڑا اصلاحاتی پروگرام تعلیم کے شعبے میں چلایا جانا چاہئے تھا۔ آج بھی لاکھوں طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں محض اس لئے داخلہ لینا پڑتا ہے کہ اُن کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ داخلہ لینے کے باوجود اُنکی پڑھائی لکھائی کا معیار قابل ذکر نہیں ہوتا اور وہ جیسے آئے تھے اسکول سے رخصت ہوتے وقت بھی کافی حد تک ویسے ہی ہوتے ہیں ۔ بی جے پی کے کئی وزراء گزشتہ دس گیارہ سال کے دوران دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کی تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے بہت کچھ کرسکتے تھے مگر اُنہوں نے نہیں کیا۔ اُن علاقوں کا نظام ِ تعلیم جتنا خستہ پہلے تھا، اُتنا ہی بعد میں بھی رہا۔ اس میں کوئی خوشگوار تبدیلی آئی ہی نہیں ۔ لال قلعہ کی تقریر میں وزیر اعظم فرما رہے تھے کہ وہ چاہتے ہیں ہندوستان کا کوئی طالب علم اعلیٰ تعلیم کی غرض سے بیرونی ملک جانے کا نہ سوچے بلکہ اُسے ویسی اعلیٰ معیاری تعلیم اپنے ہی وطن میں میسر ہو۔ مگر کیا اُنہیں علم ہے کہ اُن کے اب تک کے دورِ اقتدار میں شعبۂ تعلیم میں کوئی اصلاح نہیں ہوئی؟ یہ دعویٰ کرنا کہ ہم نے اتنے نئے کالج کھول دیئے بے معنی ہے اگر اُن نئے کالجوں میں بھی طلبہ کو کوئی ایسی چیز نہ دی جاتی ہو جسے تعلیم کہا جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسئلہ تعداد کا نہیں معیار کا ہے۔
مذکورہ تقریر کے دوران مَیں حیرت و استعجاب کی کیفیت سے گزرتی رہی اسلئے مَیں نے سوچا کہ کیوں نہ کامیابیوں اور ناکامیوں کی فہرست بناؤں ۔ کامیابیوں کی فہرست مختصر ہے۔ اس کیلئے نرسمہا راؤ اور مودی دونوں کو کریڈٹ دیا جاسکتا ہے کہ اُن کی وجہ سے ملک کی صورت حال منموہن سنگھ کی معاشی اصلاحات سے پہلے کی صورت حال سے بہتر ہے۔ نجی کاروبار کو فروغ حاصل ہوا، عالمی معیار کی کمپنیاں معرض وجود میں آئیں ، اسپتال کالج اسکول اور ریستوراں قائم ہوئے۔ یہ سب کچھ بہت اچھی حالت میں ہوتا اگر مودی حکومت نے طرزحکمرانی کاکوئی اعلیٰ معیار پیش کیا ہوتا اور داغدار افسران کو نکال باہر کیا جاتا۔ چونکہ یہ نہیں ہوا اس لئے بدعنوانی اور کرپشن ایک بڑی انڈسٹری کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔
طرز حکمرانی کے حوالے سے وزیر قانون کو اب تک یہ علم ہوجانا چاہئے تھا کہ ملک کا نظام ِ انصاف کام نہیں کررہا ہے۔ اس نظام سے آج تک وہ مسائل جڑے ہوئے ہیں جن سے ترقی یافتہ ممالک نے ایک صدی قبل پنڈچھڑا لیا۔ طرزحکمرانی کے تقاضے کے طور پر ہی وزیر شہری ترقیات کو بھی سمجھ لینا چاہئے تھا کہ ہمارے شہر بہت بڑی کچی بستی بن گئے ہیں جن میں صفائی ستھرائی کے کچھ حصے مل سکتے ہیں مگر تمام شہر صاف ستھرا نہیں ملے گا۔ کیا وزیر اعظم نے دیکھا کہ اسمارٹ سٹی تو بنے ہی نہیں ؟ ایک دہائی قبل وزیر اعظم بننے والے نریندر مودی کی بابت لگتا تھا کہ وہ معاشی اصلاحات کے چمپئن ثابت ہوں گے مگر افسوس کہ اُن کے وعدے جھوٹے ثابت ہوئے۔