• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تبلیغ و تبدیلیٔ مذہب: آئین سازوں نے کیا سوچا تھا

Updated: July 14, 2024, 2:08 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

مذہب کی تبلیغ اور جو لوگ مذہب تبدیل کرنا چاہیں اُن کی مدد کرنا آئین کی روح کے عین مطابق ہے مگر وقت کے ساتھ ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ اب یہ ناقابل عمل ہوگیا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کیاہندوستانی شہریوں  کو آزادیٔ مذہب حاصل ہے؟ بہ الفاظ دیگر، کیا اُنہیں  یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر مذاہب کے لوگوں  کو اپنے مذہب میں  آنے کی دعوت دیں ؟ اس سوال کا آئین ِ ہند اثبات میں  جواب دیتا ہے مگر قانون نفی میں  (جواب دیتا ہے)۔ ہندوستان کی یہ بات عجیب و غریب ہے کہ تبلیغ مذہب بنیادی حق بھی ہے اور مجرمانہ فعل بھی۔ بنیادی حق کا معنی ایسا حق ہے جو سرکاری مداخلت سے مکمل طور پر محفوظ ہو۔ دفعہ ۲۵ (مذہب کی آزادانہ تبلیغ کا حق) اپنی جگہ محفوظ ہے مگر اس پر عمل کرنے والے محفوظ نہیں  ہیں ، اُنہیں  حکومت کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ 
 عملاً، آئین کہتا ہے کہ ہمیں  مذہب کی تبلیغ کی مکمل آزادی ہے مگر جب ہم اس حق کا استعمال کرنے جاتے ہیں  تو پولیس اس میں  مداخلت کرنے لگتی ہے۔ اس سال ۱۱؍ جولائی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک ایسے شخص کی ضمانت کی عرضی یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ ’’آئین ہر فرد کو مذہب کی تبلیغ، تشہیر اور پرچار کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے مگر ضمیر اور مذہب کی آزادی کے بنیادی حق کا اطلاق تبدیلیٔ مذہب کے اجتماعی عمل پر نہیں  ہوتا۔‘‘ 
 برصغیر میں ، نیپال تبدیلیٔ مذہب کی اجازت نہیں  دیتا جبکہ پاکستان کا حال ہندوستان جیسا ہےمگر سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں  بھی اگر اتنی پابندیاں  ہیں  کہ مذہب تبدیل کروانا جرم کے زمرے میں  آجائے تو، مجھے یہ کہنے کیلئے معاف کیجئے گا، کہ آئین تیار کرنے والے ہمارے اسلاف نے یہ نہیں  چاہتا تھا جو ہورہا ہے۔ اُنہوں  نے اس کیلئے آئین نہیں  لکھا تھا۔
 آزادی کے بعد قانون ساز اسمبلی میں  تبدیلیٔ مذہب کا موضوع ۶؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کو زیر بحث آیا تھا۔ یہ بحث اقلیتوں  کیلئے بنائی گئی کمیٹی اور بنیادی حقوق کیلئے بنائی گئی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد ہوئی تھی جس میں  اس موضوع پر بہت تفصیل سے بحث کی گئی تھی جس کے نتیجے میں  ایسا متن تیار کیا گیا تھا جسے آج ہم آئین کی دفعہ ۲۵؍ کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ اس کا نفس مضمون کچھ اس طرح ہے: ’’عوامی نظم و نسق، اخلاقیات، صحت اور (آئین کے) اس حصے کے دیگر مندرجات کے پورا کئے جانے کی شرط پر تمام شہریوں  کو ضمیر کی آزادی حاصل رہے گی اور اس کے ساتھ ہی مذہب کی تشہیر اور اس پر عمل کی آزادی بھی۔‘‘ (مفہوم)۔ انگریزی متن میں  جو لفظ آیا ہے وہ ہے ’’پروپاگیٹ‘‘۔ لغت میں  اس کا معنی ہے پھیلانا، تشہیر کرنا، عمل کرنا اور بڑھانا۔‘‘ قانون ساز اسمبلی میں  اس لفظ یا اصطلاح پر تبدیلیٔ مذہب کے حوالے ہی سے تبادلۂ خیال کیا گیا تھا، بالخصوص عیسائیوں  کے ذریعہ کی جانے والی تبدیلیٔ مذہب۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے شری کے ایم منشی نے، جو اس کا متن تیار کرنے والی کمیٹی کا حصہ تھا، کہا تھا کہ ’’مَیں  جانتا ہوں ، اس لفظ پر عیسائی برادری نے کافی زور دیا ہے لیکن وہ اس لئے نہیں  تھا کہ وہ زوروشور سے لوگوں  کا مذہب تبدیل کروانے کے درپے ہیں  بلکہ اس لئے کہ ’پروپاگیٹ‘ یا تبلیغ اُن کے عقیدہ کا حصہ ہے۔ مذہب کو مذہب کے معنوں  میں  لیا گیا تو ضمیر کی آواز پر مذہب تبدیل کرنے کے حق کو تسلیم کیا جانا چاہئے‘‘ یعنی کوئی شخص اپنی مرضی سے اور کسی جبر کے بغیر کسی مذہب کو قبول کرتا ہے تو اُسے اِس کا حق ہونا چاہئے۔ اُس وقت کے ایم منشی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’تشہیر و تبلیغ ایسا عمل ہے کہ اس سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں  ہے کیونکہ جو لوگ بھی مذہب تبدیل کرتے ہیں  وہ اپنی قلبی و ذہنی آمادگی کے سبب ہوتے ہیں  (Persuation) مادّی فوائد کیلئے نہیں ۔ یاد رہے کہ تبدیلیٔ مذہب تبلیغ ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
 یکم مئی ۱۹۴۷ء کو پیش کی گئی عبوری رپورٹ میں  فرینک انتھونی نے کمیٹی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: ’’میری برادری (وہ اینگلو انڈین تھے) تبلیغ نہیں  کرتے، ہم اوروں  کا مذہب تبدیل نہیں  کرواتے نہ ہی ہم نے مذہب بدلا ہے لیکن مَیں  اس بات کی ستائش کرتا ہوں  کہ لاکھوں  عیسائی کتنے ذوق وشوق کے ساتھ اپنے مذہب کی تبلیغ میں  حصہ لیتے ہیں ۔‘‘ انتھونی نے، جو ہندوستان میں  اسکول نیٹ ورک کے قیام کے بانی تھے، قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کو لفظ پروپاگیٹ کو متن میں  بحال رکھنے کیلئے تہ دل سے مبارکباد پیش کی تھی کہ یہ معاملہ متنازع ہونے کے باوجود اس پر اتنی جانفشانی کے ساتھ بحث کی گئی اور اسے رکھا گیا۔ اُن کے ذریعہ ہونے والی ستائش کا سبب یہ تھا کہ اُن کے نزدیک عیسائیوں  کیلئے تبلیغ بہت اہم مذہبی فریضہ ہے چنانچہ یہ اُن کا بنیادی حق ہے۔
 اس موقع پر ٹی ٹی کرشنامچاری نے کہا تھا کہ دلتوں  کو جو درجہ یا حیثیت دی گئی اُس کی وجہ سے اُنہوں  نے عیسائیت قبول کرنے کو ترجیح دی، ہندوؤں  میں  اصلاحات کو راہ دی گئی تو خود بخود تبدیلیٔ مذہب کے واقعات میں  کمی آجائیگی اور اگر تبلیغ مذہب کا حق دیگر قوموں  کو حاصل ہوگا تو ہندوؤں  اور آریہ سماجی شہریوں  کو بھی حاصل ہوگا اور اگر وہ چاہیں  گے تو وہ بھی تبدیلیٔ مذہب کیلئے لوگوں  کو آمادہ کرسکیں  گے جسے وہ ’’شدھی‘‘ کہتے ہیں ۔
 اس تفصیل کے ذریعہ مَیں  یہ بتانا چاہ رہا ہوں  کہ اُس وقت تبلیغ (پروپاگیٹ) کو ہر ایک نے سمجھا کہ یہ حق ہے اور جیسا کہ کے ایم منشی نے کہا تھا کہ اس کا مطلب ہے ’’لوگوں  کو اپنے مذہب کی طرف بلانا یا اسے قبول کرنے پر آمادہ کرنا‘‘ لیکن دورِ حاضر میں  ہمارے ملک میں  کیا ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت تبلیغ مذہب کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور لوگوں  کو تبدیلیٔ مذہب سے روکتی ہے۔
 قانون ساز اسمبلی کو اگر صرف ایک شخص کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُدیشہ کے رہنے والے اس ۲۶؍ سالہ شخص کا کہنا تھا کہ لفظ تبلیغ (پروپاگیٹ) کو حذف کردیا جائے۔ اس نوجوان کا نام لوک ناتھ مشرا تھا جو رنگناتھ مشرا ، جو بعد میں  سپریم کورٹ کے جج ہوئے، کے بھائی تھے۔ لوک ناتھ مشرا کا کہنا تھا کہ اُنہیں  لفظ تبلیغ یا پروپاگیٹ پر اعتراض نہیں  ہےبلکہ وہ چاہتے ہیں  کہ اگر لوگ اپنے مذہب کا پرچار کرنا چاہتے ہیں  تو شوق سے کریں  مگر یہ لفظ آئین میں  نہ رہے۔ اُن کا یہ اعتراض اس بنیاد پر تھا کہ اُن کے خیال میں  تبلیغ کا معنی ہی تبدیلی (مذہب) ہے۔ یہ چند مثالیں  ہیں  جن سے سمجھا جاسکتا ہے کہ آئین بنانے والوں  نے کیا سوچا تھا اور آج کیا ہورہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK