• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

راہل گاندھی کا ہندوازم سچائی اور عدم تشدد پرمبنی ہے

Updated: July 29, 2024, 1:49 PM IST | ram puniyani | Mumbai

ہندوازم کے تعلق سےراہل گاندھی کے پارلیمنٹ میں خطاب پر جو موقف سامنے آیا اسکی آر ایس ایس لیڈران شدید مخالفت کررہے ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

۲۰۲۴ء کے عام انتخابات کے نتائج کے بعدپارلیمنٹ اب حقیقی میدان بن چکا ہےجہاں  اپوزیشن کی آواز کیلئے بھی جگہ ہے۔ پارلیمنٹ میں صدرکے خطاب کے بعد شروع ہونے والے مباحثہ میں ا پوز یشن لیڈر اہل گاندھی نےملک کودرپیش متعدد مسائل پر روشنی ڈالی ۔ان کی تقریر کا ایک حصہ جوہندوازم کی نوعیت پر تھا ، غالباًریکارڈ سے حذف کردیاگیا لیکن اس کا تذکرہ یہاں اہمیت کا حامل ہے ۔ راہل گاندھی کے مطابق ہندوازم سچائی اور عدم تشدد پر مبنی ہے۔ اپنی تقریر میں  انہوں  نے کہا ’’ ہندوستان عدم تشدد کا ملک ہے ، خوف کا نہیں ۔ہماری عظیم شخصیات نے ہمیشہ عدم تشدد اور خوف پر غالب آنے کی بات کی ہے۔‘‘ایوان میں بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں  نے کہا ’’ جو اپنے آپ کو ہندوکہتے ہیں ،وہ پورا دن تشدد اور نفرت کی بات کرتے ہیں ، جھوٹ پھیلاتے رہتے ہیں ۔‘‘
 راہل گاندھی کے اس بیان کے بعدسےسادھوؤں نے ان کے خلاف احتجاج شروع کردیا ۔احمدآباد میں کانگریس کے دفترپرحملہ کیاگیا ۔ اس حوالےسے ایک طرف آر ایس ایس اس پروپیگنڈے میں مصروف ہوگیا کہ راہل گاندھی نے تمام ہندوؤں کو متشدد کہا ہے تو دوسری طرف راہل گاندھی نے اپنے بیان کی وضاحت کی کہ انہوں  نےہندوازم کو عدم تشدد ،سچائی اورمحبت پر مبنی کہا ہے۔آر ایس ایس کے حامی یہ تنقید بھی کررہے ہیں کہ نہرو اورراہل گاندھی جس نظریہ کے حامی رہے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں  ۔آر ایس ایس کے مطابق انہوں  (نہرواور راہل گاندھی) نےاپنا ووٹ بینک محفوظ رکھنے کیلئے خودکو اقلیتوں سے متعلق سوالات تک ہی محدودکرلیا ۔
 ہندوازم کے انسانیت سے متعلق پہلو کی جو راہل گاندھی نے وضاحت کی ، اس سےانڈیا بلاک کے کئی لیڈران متفق نظر آئے۔لفظ ہندو ازم اور ہندوتوواحال ہی میں  اکثرایک دوسرے کےمتبادل استعمال ہو نے لگے ہیں ۔ادھو ٹھاکرے نے بھی اس پر وضاحت کی ہے اورکہا ہے کہ ہندوتوا کے تعلق سے ان کے نظریات وہی ہیں جو راہل گاندھی نے ہندوازم سے متعلق بیان کئے ہیں ۔
 ہندوازم آسمانی مذہب نہیں ہے جیسا کہ بعض تشریحات میں ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہندوؤں  کی مقدس کتابوں مثلاً وید ، اپانشد،گیتا اور منواسمرتی میں لفظ ’ہندو‘ کا ذکر نہیں ملتا ۔یہ لفظ سندھوکے مغرب سے آنے وا لے باشندوں نے استعمال کرنا شروع کیا ۔ ان میں  ’ایس‘ یا ’س ‘ حرف کا استعمال محدود تھا وہ ان حروف کو بالعموم ’ہ‘ یا ’ایچ‘کے طورپراستعمال کرتے تھے۔اس طرح لفظ ’سندھو‘،’ہندو‘ بن گیااوریہ لفظ سندھو ندی سے سمندر تک آبادعلاقے کیلئے بولا جانے لگا۔بعد ازاں یہ لفظ مختلف آبادیوں  کے مجموعہ کیلئےبھی استعمال ہونے لگا جن میں  بدھ ا زم اور جین ازم شامل نہیں تھےجبکہ برہمن ازم شامل تھا ۔برہمن ازم کوچھوڑ کرباقی آبادیوں کو’شرامن‘کہا جانے لگا ۔ 
 ۲۰۰۶ء میں انڈین ہسٹری کانگریس کے اپنے صدارتی خطاب میں  تاریخ داں ڈی این جھا نےلفظ ’ہندوازم ‘کی جامع وضاحت کی تھی ۔انہوں  نے ان الفاظ میں  نشاندہی کی تھی ’’ بلا شبہ لفظ ’ہندو‘ما قبل نوآبادیاتی دور ہندوستان میں  مستعمل تھا لیکن ۱۸؍ ویں صدی کے اخیر میں یا ۱۹؍ ویں  صدی کے ابتدا میں زیر استعمال نہیں تھا،اس دور میں (ممکن ہے )اسے برطانوی ماہرین استعمال کرنے لگے ہوں ۔اس کے بعدسے ہی یہ وسیع پیمانے پر رائج ہو گیا۔پھروہیں سےاس لفظ کا اطلاق برصغیرکےباشندوں پر کیا جانے لگا مگر ان میں سکھ ،جین، بودھ ، مسلم اور عیسائی شامل نہیں تھے۔
 برہمنی نظام میں رفتہ رفتہ ویدوں  اورمنوسمرتی کومقدس صحیفوں  کادرجہ دے دیاگیا۔اس کے بعدہندوازم کے فہم میں  بھی اختلاف ہونا شروع ہوگیا۔ بابا صاحب امبیڈکرکی نظر میں ہندوازم وہ طرز زندگی ہےجس میں  برہمنوں کو غلبہ حاصل ہے اورجو ذات پات کے نظام پرمبنی ہے۔اسی بنیاد پرانہوں نے منوسمرتی کو نذر آتش کیاتھا۔ مہاتما گاندھی نےاپنے آپ کو سنانتی ہندوکہا تھا اور۶؍ اکتوبر۱۹۲۱ ء کو’ینگ انڈیا‘ میں  لکھا تھا ’’ ہندوازم ہر کسی کو اپنے عقیدےاور طریقے (دھرم )کے مطابق خدا کی عبادت کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔  اسی طرح تمام مذاہب کے ساتھ امن اوربقائے باہمی کا اصول طے کرتا ہے۔‘‘مختلف مذاہب اور عقیدوں  کے ماننےوالوں کے درمیان باہمی تعلقات کایہ منفرد تصور ہے۔ اب راہل گاندھی نے سچائی ،محبت اور عدم تشدد کوہندوازم کو بنیاد یں قراردیا ہے۔
 چندر ناتھ باسونے ۱۸۹۲ء میں ’ہندوتوا ‘کی اصطلاح وضع کی تھی اور اسے روحانی بلندیوں تک پہنچنے کا معیاری اصول قراردیا تھا ۔ ساورکرنے ۱۹۲۳ء میں اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ان کا ہندوتوا آریائی نسل پر مبنی ہے۔ انہوں  نے سندھوندی سے سمندر تک کے علاقے کو ’مقدس سرزمین ‘ قراردیا تھا ۔ساورکربدھ ازم کے عدم تشدد کے فلسفے کے بہت بڑے ناقدتھے او ر ان کے نزدیک ہندوستان کی کمزوری کا سبب یہاں اسی عدم تشدد کی تبلیغ تھی ۔ آر ایس ایس ساورکر کے اسی نظریےکی عملی تائیدکرتا ہے۔تنظیم کی نظر میں اسلام اور عیسائیت بیرونی مذاہب ہیں  اورقدیم مقدس صحیفوں (منوسمرتی ) کے علمبردار ہیں ۔اس کے صد ر دفتر میں ہتھیاروں کی نمائش کی جاتی ہے اور دسہرہ کے دن ان کی پوجا کی جاتی ہے۔آر ایس ایس نے علاءالدین خلجی ، بابر اور اورنگ زیب جیسے مسلم بادشاہوں کے خلاف عوام کے دلوں  میں نفرت پھیلائی ہے جبکہ رانا پرتاپ ،شیواجی اور پرتھوی راج چوہان جیسے ہندوراجاؤں کا اقبال بلندکرنے کا کام کیا ہے۔
 مہاتما گاندھی اور راہل گاندھی جیسے رہنماؤں نے ہندوازم یا ہندوتوا کےاس پہلوپرزور دیا  ہے جس کا تعلق انسانیت  سے ہے۔  ہے۔ ساورکر نے اسی نظریے میں سے تشدد اور نفرت کی راہ نکالی ہے جبکہ امبیڈکر ہندودھرم کی رسم ورواج میں برہمنی غلبہ کے خلاف تھے ۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ۱۹۴۸ء میں آر ایس ایس پر پابندی لگانے کے بعد اپنے ایک بیا ن میں  کہا تھا کہ ’’ ان(آر ایس ایس لیڈروں ) کی تمام تقریریں  فرقہ وارانہ زہر افشانی سے بھری تھیں اور اس زہر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کوگاندھی جی جیسے عظیم رہنما سے محروم ہونا پڑا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK