• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آزادیٔ مذہب سے متعلق امریکہ کے ادارہ کی رپورٹ

Updated: July 01, 2024, 1:32 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

اس مضمون میں رپورٹ جاری کرنے والے ادارے، رپورٹ کے بعض مندرجات اور اس پر ہندوستانی وزارت خارجہ کے جواب سے بحث کی گئی ہے:

Photo: INN
تصویر:آئی این این

۸؍ جون کو ہماری وزارت خارجہ نے سخت الفاظ میں  اُس رپورٹ کا جواب دیا جو امریکی وزارت خارجہ (اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ) نے جاری کی اور جس کا موضوع آزادیٔ مذہب ہے۔ ہماری جاری کردہ رپورٹ میں  یہ کہا گیا ہے: ’’ماضی کی طرح اس بار بھی یہ رپورٹ جانبدارانہ ہے، ہندوستان کے سماجی تانے بانے کے تعلق سے کم سمجھی یا کم علمی کی غماز ہے اور امریکی ووٹ بینک کو مد نظر رکھ کر جاری کی گئی ہے جس کا انداز اپنا مطمح نظر تھوپنے جیسا ہے۔‘‘ ہماری جانب سے دیئے گئے بیان میں  اُس رپورٹ کو بھی ہدف بنایا گیا جو بنیادی رپورٹ کا درجہ رکھتی ہے اور جس کی بنیاد پر امریکی وزارت خارجہ نے اپنا نظریہ قائم کیا۔ ہم نے کہا کہ امریکی رپورٹ میں  حقائق کا جزوی احاطہ کیا گیا، اُن ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کو بنیاد بنایا گیا جو غیر جانبدار نہیں  ہیں  اور مسائل کو یک رُخے انداز میں  دیکھا گیا ہے۔ ان چند باتوں  کے علاوہ ہماری رپورٹ میں  وطن عزیز کے قوانین اور اس کی خود مختاری کے تعلق سے بھی کافی کچھ کہا گیا ہے۔
 افسوس کہ ہم نے امریکہ کے خاص اعتراضات اور الزامات کا جواب نہیں  دیا۔ مثال کے طور پر: امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے دو باتیں  کہی تھیں  کہ ہندوستان میں  عیسائی برادری نے خبر دی کہ مقامی پولیس نے اُس بھیڑ کا ساتھ دیا جس نے تبدیلیٔ مذہب کا الزام لگا کر عیسائی عبادت گاہ پر دھاوا بولا۔ دوسری بات بلنکن نے یہ کہی کہ ہندوستان میں  تبدیلیٔ مذہب مخالف قوانین کی باڑھ آئی ہوئی ہے، نفرتی بیان بازی میں  اضافہ ہوا ہے اور اقلیتی مکانوں  نیز اُن کی عبادت گاہوں  کو منہدم کرنے کا سلسلہ سا چل پڑا ہے۔
  ہم نے اپنی رپورٹ میں  ان دو باتوں  کا جواب نہیں  دیا۔ یہاں  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ الزام غلط ہے؟ یہ تو نہیں  ہوسکتا کہ ہم ایک طرف اپنے بلڈوزر کلچر پر بغلیں  بجائیں  اور دوسری طرف اُسے مسترد کریں  کہ نہیں  ہمارے یہاں  ایسا کوئی کلچر نہیں  پایا جاتا۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ ہم اس کا جواب دیتے مگر ہم نے ایسا نہیں  کیا بلکہ اپنی رپورٹ کو ان جملوں  پر ختم کیا کہ ’’ہندوستان نے ۲۰۲۳ء میں  امریکہ میں  نفرتی بیان بازی یا تقاریر، ہندوستانی نژاد لوگوں  اور دیگر اقلیتوں  پر ہونے والے نسلی حملوں  اور اُن کی عبادت گاہوں  کو نقصان پہنچانے کی کوششوں  کا بہ نگاہ ِ تشویش جائزہ لیا ہے۔ 
 ہندوستان کے جوابی الزام پر ہم بعد میں  آئینگے، پہلے اپنے قارئین کو بتانا چاہتے ہیں  کہ جو امریکی رپورٹ اِس وقت زیر بحث ہے اور جس کی وجہ سے ہماری حکومت افسردہ ہے، وہ کیا ہے۔ 
 یہ ایک سالانہ رپورٹ ہے جسے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادیٔ مذہب نامی ادارہ جاری کرتا ہے۔ یہ ادارہ خود کو آزاد اور ان معنوں  میں  غیر جانبدار قرار دیتا ہے کہ اس کے اراکین میں  امریکہ کی دونوں  بڑی پارٹیوں  (ڈیموکریٹس اور ری پبلکن) کے لوگ ہوتے ہیں ۔ پچھلے پانچ سال سے یہ ادارہ ہمارے لیڈروں  اور اداروں  پر پابندیاں  عائد کرنے کی سفارش کررہا ہے لیکن ہر سال صدر امریکہ اس سفارش کو نظر انداز کر دیتا ہے، پہلے ٹرمپ کے دور میں  ایسا ہوا اور پھر بائیڈن کے دور میں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ بیس سال پہلے حکومت ِ امریکہ نے اُس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو ویزا دینے سے انکار کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے خلاف امریکہ کے اسی ادارے نے ویزا کی پابندی کی سفارش کی تھی۔ اُس دور میں  صدر بش نے اس کی یہ سفارش کو منظور کیا تھا۔
 اس ادارے کی ۲۰۲۰ء کی رپورٹ میں  درج تھا: ’’۲۰۱۹ء میں  ہندوستان کی کیفیت کافی حد تک بدل گئی۔ قومی حکومت نے اپنی پارلیمانی اکثریت کا فائدہ اُٹھا کر ایسی پالیسیاں  وضع کیں  جن کا مقصد آزادیٔ مذہب کو متاثر کرنا تھا بالخصوص مسلمانوں  کی آزادیٔ مذہب۔ اسے الزام کہیں  یا تاثر، جو بھی نام دیں ، اس کے جواب میں  ہمارے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ یہ امریکی ادارہ متعصب ہے اور ہندوستان کے بارے میں  اس کی رائے نئی نہیں  ہے۔ 
 گزشتہ سال، جب ہندوستان کا نام چوتھی مرتبہ اُن ملکوں  کی فہرست میں  آیا جہاں  اقلیتوں  پر زیادتی ہو رہی ہے، تب بھی ہماری وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کو متعصبانہ اور حقائق سے پرے قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہندوستان، اس کے آئین، اس کی جمہوری اقدار اور تکثیریت کے تعلق سے کم علمی یا لاعلمی پر مبنی ہے۔ سوال یہ ہے کیا واقعی مذکورہ امریکی ادارہ ہندوستان کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنے میں  ناکام ہے؟ چونکہ مَیں  نے اس ادارہ سے رابطہ کیا ہے اس لئے کہہ سکتا ہوں  کہ انہیں  ہندوستان، اس کے اُمور اور جمہوری اقدار کی کماحقہ معلومات ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پر ادارۂ مذکور کے کمشنروں  میں  سے ایک (جانی مو‘ر) کی رپورٹ برائے ۲۰۲۱ء کا یہ حصہ ملاحظہ کیجئے، وہ کہتے ہیں : ’’مجھے ہندوستان سے محبت ہے، مَیں  گنگا کے گھاٹ پر گیا ہوں  اور پرانی دلی کی گلیوں  میں  گھوما ہوں ، آگرہ کی سیر کرچکا ہوں  اور گولڈن ٹیمپل کو دیکھ کر محو ہوگیا تھا۔‘‘ اُنہوں  نے لکھا تھا کہ ہندوستان کو تشویش کی نگاہ سے نہیں  دیکھنا چاہئے، یہ ایک جمہوری ملک ہے جس پر آئین کی حکمرانی ہے مگر یہ ملک ایک دوراہے پر آگیا ہے، اس کے جمہوری اداروں  کو چاہئے کہ اپنی اقدار کے تحفظ کیلئے اپنی بے پناہ تاریخ سے استفادہ کریں ۔ اس ملک کو سیاسی اور فرقہ وارانہ تنازعوں  سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سماجی ہم آہنگی اور انسانی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنالے تو اس ملک کے پاس سب کچھ پانے کیلئے ہے، کھونے کیلئے کچھ نہیں  ہے۔‘‘ 
 ایسے لوگوں  کی رپورٹ کو ہم مسترد کررہے ہیں  اور رپورٹ کے مندرجات کو متعصبانہ قرار دے رہے ہیں ۔ اگر یہ ادارہ غیر جانبدار نہیں  ہے، جیسا کہ ہمارے وزیر خارجہ سمجھتے ہیں ، تب بھی ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ کیا یہ درست نہیں  ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں  اقلیتوں  پر زیادتی ہورہی ہے؟ ہمارا یہ کہنا کہ ہم بھی امریکہ میں  اقلیتوں  پر ہونے والے مظالم کو موضوع بنائیں  گے تو اس میں  کوئی مسئلہ نہیں  ہے۔ یہ اچھا قدم ہوگا۔ بحیثیت جمہوریت، جو انسانی قدروں  پر یقین رکھتی ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے لیکن اس کیلئے وہاں  کے معاملات کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ کسی بھی چیز کو مسترد کردینے کا طرز عمل کام نہیں  آئے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK