• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

رقیب اتنے نہیں ہیں رفیق جتنے ہیں!

Updated: November 16, 2024, 1:34 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

فرقہ پرستوں کی باتیں سننااُنہیں اہمیت اور تقویت دینے جیسا ہے۔ اس کے مقابلے میں اُن لوگوں کی باتیں سننابہتر ہے جو ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں اور یہی پیغام عام کرتے ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے لوگ ایسا نہیں کرتے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ریختہ فاؤنڈیشن کے بارے میں  سوچئے تومحسوس ہوگا کہ یہ اُردو زبان و ادب کا تاج محل ہے۔ اس سے اُردو کا وقار بڑھا ہے۔ اُردو کی قدرومنزلت میں  اضافہ ہوا ہے ۔ یہ ادارہ اُردو کے فروغ میں  بھی مؤثر کردار ادا کررہا ہے بالخصوص غیر اُردو داں  حلقوں  میں ۔ اس کی حیثیت اُردو کے اے ٹی ایم کی بھی ہے۔ جب بھی کسی کتاب سے استفادہ کرنا ہو، کسی شعر کا مصرعۂ اولیٰ یا مصرعۂ ثانی دیکھنا ہو، کسی ادیب یا شاعر کے بارے میں  جاننا ہو، کسی لفظ کا معنی یا متبادل معلوم کرنا ہو یا یہ تجسس ہو کہ کون سا شعر کس کا ہے تو فی زمانہ ریختہ سے بڑا ذریعہ کوئی نہیں  ہے۔ اِدھر آپ نے اس کی ویب سائٹ پر یا گوگل پر متعلقہ الفاظ ٹائپ کئے اور اُدھر ریختہ آپ کی مدد کیلئے پلک جھپکتے حاضر۔ اتنا تو بہت سے اُردووالے جانتے ہی ہیں  مگر کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہونگے کہ اس ادارہ نے اسی انداز کی ہندی ویب سائٹ بھی بنائی ہے جس کے سبب ہندی زبان و ادب سے استفادہ نہایت آسان ہوگیا ہے۔ اس کا نام ہے ’’ہندوی‘‘۔ اس نام کی معنویت پر گفتگو کا ابھی موقع نہیں  ہے کہ اس وقت اس کا تعارف ہی مقصود ہے۔ ’’ہندوی‘‘ پر مَیں  اکثر ہندی ادب کا مطالعہ کرتا ہوں  کیونکہ اس ویب سائٹ پر کلاسیکی ہندی ادب سے لے کر عصری ادب تک، بہت کچھ پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسی ہفتے مَیں  نے ایک نظم پڑھی اور دیر تک اُس کیفیت میں  رہنے کو ترجیح دی جو اس نظم (دادا کو یاد کرتے ہوئے) کے مطالعہ سے طاری ہوئی تھی۔ اکھلیش جیسوال غازی پور کے شاعر ہیں ۔ نظم کا پہلا بند آپ بھی سن لیجئے: 
 ’’جب تم تھے، سمے کی دھیمی آنچ میں ، سیجھتی تھیں  چیزیں  اور پکتی تھیں  ریشہ ریشہ، بڑے گہرے اُگتی تھی اک سگندھ اور مٹھاس، جو سنسکاروں  کی بانہہ پکڑے، چل کر آتی تھی اندر سے باہر کی اُور، اَور ٹک جاتی تھی آنکھوں  اور ہونٹوں  کے کونوں  میں ، اب تو سیدھے پک جاتے ہیں  آم، پہلےگرودھ ہوا کرتے تھے، اس کے بعد ہی پکتے تھے‘‘ ...... ایک بند اس طرح بھی ہے: ’’سمے نے پتھر سے لے کر، پلاسٹک تک کی پرتیں ، اپنے اوپر چڑھتے دیکھی ہیں ، لیکن میں  بھول نہیں  پاتا ہوں ، وہ مٹی سے لِپا ہوا سمے، مٹی کا موہ، مٹی کی باتیں ، مٹی کے گیت، مٹی کے دیپ، اور مٹی کے کلش، ہر چیز میں  سنی ہوئی تھی مٹی کی مہک، چاہے وہ چائے ہو یا چرن امرت، تب اُنگلیاں  کہاں  اُٹھتی تھیں ، اُنہیں  چلو ّ بنے رہنے کا اتنا ابھیاس تھا کہ، شاید ہی کبھی اُٹھ پاتی تھیں ‘‘۔ 
 نظم کے ذریعہ تغیرات ِ زمانہ پر شاعر کے احساسات ہی سے واقفیت نہیں  ہوتی، نت نئے اور سفاک مظاہر کا خاکہ بھی ملتا ہے۔ شاعر سائنس کے نظریہ ٔ ارتقاء سے ہوتا ہوا یہ تک کہنے پر مجبور ہے کہ ’’آدمی نے چھین کر اپنا لئے، بندروں  کے سارے محاورے،یہاں  تک کہ اُسترے بھی‘‘۔ ہندی کے عہد حاضر کے شعراء کو اس لئے بھی پڑھنا چاہئے کہ اس سے موجودہ عہد کے حالات اور واقعات پر اُن کے ردعمل سے آگاہی ہوتی ہے۔ مَیں  یہ نظمیں  اس لئے پڑھتا ہوں  اور اکثر پڑھتا ہوں  کہ ان میں  وہی جذبات اور احساسات ملتے ہیں  جو عہد حاضر کے اُردو شعراء کے ہاں  موجود ہیں ۔ اس کالم کے مستقل قارئین جانتے ہیں  کہ آج سے پہلے بھی یہ مضمون نگار کئی ہندی نظموں  کا حوالہ دے چکا ہے۔ ان نظموں  میں  فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مشترکہ تہذیب سے محبت اور اس کی ضرورت کا احساس جا بجا ملتا ہے۔آپ ہی بتائیے کیا بہتر ہے؟ بین المذاہب اتحاد کو وقت کی اہم ترین ضرورت سمجھنے والے اِن شعراء کی پزیرائی کرنا یاایسے سیاسی نعرے اور جملے سن سن کر کڑھنا جن میں  ’’بانٹنے‘‘ اور ’’کاٹنے‘‘ کی باتیں  کی جاتی ہیں ، لباس سے پہچاننے کی صلاح دی جاتی ہے ، مغل بادشاہوں  کو بُرا بھلا کہا جاتا ہے یا ’’۸۰۔۲۰‘‘ کا فارمولہ بیان کیا جاتاہے؟ 

یہ بھی پڑھئے: غلام بنانے کی ذہنیت کی جیت

 اِس میں  شک نہیں  کہ نفرت بڑھی ہے (بڑھائی گئی ہے) مگر اس میں  بھی شک نہیں  کہ سماجی تانے بانے کو بڑی حد تک بچا رکھنے میں  ہندوستانی عوام کامیاب ہیں ۔سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے زہر کی وجہ سے اس تانے بانے کو بڑا خطرہ تھا، بہت سے افسوسناک واقعات ہوئے بھی، مگر صدیوں  کی ہم آہنگی مٹھی بھر فرقہ پرستوں  کے جارحانہ عزائم کی بھینٹ نہیں  چڑھ سکی۔ بلاشبہ، جب بھی فساد ہوتا ہے محلے بٹ جاتے ہیں  اور کرفیو لگ جاتا ہے مگر کرفیو کھلنے کے بعد محلے پھر مل جاتے ہیں ، میل جول دوبارہ شروع ہوجاتا ہے اور تمام فرقوں  کے لوگ مل کر فرقہ پرستوں  کو ٹھینگا دکھا دیتے ہیں ۔ کبھی سوچا ہے کتنے مجبور ہیں  فرقہ پرست؟ یہ روزانہ کوشش کرتے ہیں  بانٹنے کی اور گلی محلوں  میں ، ہاٹ بازاروں  میں ، دفتروں  اور عوامی جگہوں  پرروزانہ لوگ ملتے ہیں ، ہنستے بولتے ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہیں  اور فرقہ پرستوں  کا منہ چڑاتے ہیں ۔ اس ماحول میں  شاعر ’’ا نگلیاں  اُٹھنے‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے ’’چلو ّ بنے رہنے کے ابھیاس‘‘ کی تلقین کرتا ہے۔ مگراکثر لوگ سوشل میڈیا کا زہر آلود مواد دیکھتے اور پڑھتے ہیں ، اکھلیش جیسوال یا اُن جیسے دیگر شاعروں  اور کویوں  کی کویتائیں  اور رچنائیں  نہیں  پڑھتے۔ مجھے تو جب کوئی شناسا یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کس طرح کا زہر بویا جارہا ہے تو مَیں  سوشل میڈیا کی متعلقہ پوسٹ دیکھنے کی کوشش نہیں  کرتا، مَیں  اُن کی باتیں  سنتا ہوں  جو یگانگت کی دعوت دیتے ہیں  اور اُن فنکاروں  کو پڑھتا ہوں  جو اُنگلی اُٹھانےکانہیں ، چلو ّ بنانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اسی لئے، کہیں  کتنا ہی زہر بویا جائے، میری صحت متاثر نہیں  ہوتی، نہ تو مَیں  کڑھتا ہوں  نہ ہی میرا فشار خون بڑھتا ہے بلکہ فشارِ خون بڑھانے والے اس دَور میں  مجھے ڈھیر سارے مضامین اور انٹرویوز اور نظموں  اورکہانیوں  سے قابل ذکر طاقت اور توانائی ملتی ہے۔ جب کوئی بانٹنے اور کاٹنے کا نعرہ لگاتا ہے تو مَیں  یہ سوچ کر دل ہی دل میں  ہنستا ہوں  کہ کتنا مجبور اور ناکام ہے یہ شخص (اور اس کے ساتھی) کہ بانٹنے کی کئی دہائیوں  کی منظم اور کیل کانٹوں  سے لیس کوششوں  کے باوجود آج بھی نعرہ لگارہا ہے، بانٹ نہیں  پایا۔
  فیصلہ آپ کیجئےمیرا ہنسنا درست ہے یا بہت سوں  کا کڑھنا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK