• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نیٖٹ امتحانات میں گھپلہ ہوا یا چوک؟

Updated: June 21, 2024, 1:27 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

عدالت عالیہ نے پہلے تو نتائج پر روک لگانے سے اور پھر کاؤنسلنگ پر روک لگانے سے انکار کیا تھا لیکن نیٖٹ امتحانات میں بے ضابطگی برتے جانے یا سوالنامہ ظاہر کئے جانے کے الزامات اب بھی عدالت عالیہ کے پیش نظر ہیں لہٰذا اگلی سماعت (۸؍ جولائی) نہایت اہم ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

نیٖٹ (NEET) کے امتحانات میں  بدعنوانی کی جو خبریں  موصول ہوئی تھیں ۔ ان پر سیاسی بیان بازی یا الزام تراشی کی کوئی ضرورت نہیں  کہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں  ہے۔ مرکزی وزیر تعلیم کا بیان ہے کہ اس بار نیٖٹ امتحانات کیلئے دیس بدیس میں  ساڑھے ۴؍ ہزار سینٹر بنائے گئے تھے۔ ان میں  صرف ۶؍ سینٹر ایسے تھے جہاں  غلط سوالنامے (کوئشچن پیپر کے غلط سیٹ) تقسیم کر دیئے گئے۔ جہاں  غلط سوالنامے تقسیم کئے تھے وہاں  بعد میں  صحیح سوالنامے تقسیم کر دیئے گئے مگر چونکہ پہلے غلط سوالنامہ تقسیم ہونے اور پھر اس کی جگہ صحیح سوالنامہ تقسیم ہونے میں  وقت برباد ہوا اس لئے ان ۶؍ سینٹرز کے طلبہ نے جن کی تعداد ساڑھے ۴؍ ہزار تھی وقت ضائع ہونے کی شکایت کی۔ امتحان کرانے والی ایجنسی (NTA) نے اس شکایت کا ازالہ کرنے کیلئے ایک کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ان سینٹرز کے طلبہ کو گریس مارکس دے دیئے۔ گریس مارکس ایک ہزار ۵؍ سو ۶۳؍ طلبہ کو دیئے گئے جس کے سبب بعض طلبہ کو حاصل ہونے والے نمبر ۱۰۰؍ فیصد ہوگئے۔ مرکزی حکومت کے مشورے پر سپریم کورٹ نے گریس مارکس کو ختم کرنے کا فیصلہ دیدیا۔ اب این ٹی اے گریس مارکس پانے والے طلبہ کو اطلاع دے رہی ہے کہ وہ چاہیں  تو دوبارہ امتحان (ٹیسٹ) میں  شرکت کریں  یا گریس مارکس کے بغیر حاصل ہونے والے نمبر کو اصل شمار کریں ۔ دوبارہ امتحان یا ٹیسٹ ۲۳؍ جون کو منعقد ہوگا اور اس کا نتیجہ ۳۰؍ جون کو ظاہر کر دیا جائے گا۔ ۶؍ جولائی سے کاؤنسلنگ شروع ہوگی۔
 عدالت عالیہ نے پہلے تو نتائج پر روک لگانے سے اور پھر کاؤنسلنگ پر روک لگانے سے انکار کیا تھا لیکن نیٖٹ امتحانات میں  بے ضابطگی برتے جانے یا سوالنامہ ظاہر کئے جانے کے الزامات اب بھی عدالت عالیہ کے پیش نظر ہیں  لہٰذا اگلی سماعت (۸؍ جولائی) نہایت اہم ہے۔ اہم اس لئے ہے کہ ۱۷؍ مئی کی سماعت کے بعد کئی نئے حقائق سامنے آئے ہیں  اور چیف جسٹس کو ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنانا ہے۔ نئے حقائق میں  طلبہ کی یہ شکایت بھی ہے کہ پہلے ٹاپر کی تعداد صرف ۶؍ تھی جو گریس مارکس دیئے جانے کے بعد ۶۷؍ ہوگئی۔ طلبہ کی شکایت ہے کہ گریس مارکس من مانے ڈھنگ سے دیئے گئے ہیں  اور من مانے ڈھنگ سے گریس مارکس دیئے جانے کے سبب ہی سرکاری میڈیکل کالجز میں  ان کو داخلہ ملنے کے امکانات ختم ہوگئے۔ اب جبکہ گریس مارکس کو ختم کئے جانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے یہ شکایت کتنی جائز ہے اس کا فیصلہ بھی اگلی سماعت میں  ہی کیا جاسکے گا۔ طلبہ کی اس شکایت کا بھی کہ ان کو ۳؍ گھنٹے ۲۰؍ منٹ کا پورا وقت نہیں  مل سکا اب کوئی جواز نہیں  رہ گیا ہے کہ ان کو دوبارہ امتحان میں  شرکت کا موقع دیا جا رہا ہے۔ زیادہ ٹاپرس کی بات بھی ختم ہوچکی ہے۔ گریس مارکس کے بعد ٹاپرس کی تعداد ۶۷؍ ہوگئی تھی جن میں  سے ہر ایک کو ۷۲۰؍ نمبر حاصل ہوئے تھے۔ ۶؍ ٹاپرس ایسے تھے جو ایک ہی سینٹر سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۷؍ ٹاپرس تو ایسے ہیں  جنہیں  گریس مارکس کے بغیر ہی ۷۲۰؍ مارکس یا نمبر حاصل ہوئے تھے یعنی جو تعداد ماضی میں  ایک، دو یا تین ہوتی تھی اس بار ۱۷؍ تھی۔ اس بار کے گریس مارکس حاصل کرکے ٹاپر بننے والے ۶۷؍ میں  ۴۴؍ طلبہ تو ایسے تھے جو فزکس کے ایک سوال کے سبب ۷۲۰؍ نمبر تک پہنچنے میں  کامیاب ہوئے تھے اور صرف اس سوال کے سبب این ٹی اے کو ۱۳؍ ہزار ۳۷۳؍ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان چیلنجز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بے ضابطگیوں  کو چیلنج کرنے والے جہاں  آج بھی موجود ہیں  وہیں  یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چیلنجز اسی صورت میں  سامنے آتے ہیں  جب اپنے مفاد پر ضرب پڑی ہو۔ انصاف کی روح کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے غلط فیصلوں  کو چیلنج کرنے والے کم ہیں ۔ بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والوں  کیلئے یہاں  ۳؍ بہت اہم سوالات ہیں :
(۱) کیا نیٖٹ کے مارکنگ سسٹم کے مطابق کسی طالب علم یا امیدوار کو ۷۱۸؍ یا ۷۱۹؍ نمبر حاصل ہوسکتے ہیں ؟
(۲) کیا کسی ایک سینٹر کے کئی طالب علموں  کا ٹاپر بننا معمولات کے مطابق ہے؟ اور (۳) گریس مارکس چاہے جس نے بھی دیئے ہوں  مگر جس بنیاد پر دیئے ہیں  ان کی وضاحت کیوں  نہیں  ہے؟
 کانگریس نے سی بی آئی سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے طلبہ کی تنظیم نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا ہے۔ پہلے تو وزیر تعلیم نے کسی قسم کے گھپلہ ہونے کے امکان کو مسترد کر دیا تھا مگر اب جبکہ:
(۱) سپریم کورٹ میں  ایک اور رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے اور تمام او ایم آر شیٹ کی دوبارہ جانچ یا نیٖٹ امتحانات دوبارہ لئے جانے کی مانگ کی ہے۔ اور
(۲) اخباری خبروں  کے مطابق ایسے لوگ بھی گرفتار کئے گئے ہیں  جنہیں  سوالنامہ ظاہر کرنے کا اعتراف ہے تو وزیر تعلیم کا یہ بیان نظر سے گزرا ہے کہ کسی بھی طالب علم کے ساتھ ناانصافی نہیں  کی جائیگی۔
 یہ اچھی یقین دہانی ہے مگر اب معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے مثلاً: (الف) کیا ٹیسٹ لئے جانے کے نظام میں  کوئی خرابی ہے۔ اور (ب) کیا اس خرابی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض لوگوں  نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے؟
 اگر ایسا ہے تو نیٖٹ امتحانات دوبارہ کرانے کے ساتھ پورے نظام کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ بے شک قصور واروں  یا بدعنوانی کرنے والوں  کو سزا دینا اور کسی طالب علم کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے دینا مستحسن عزم ہے مگر جب پورا نظام مشکوک ہوچکا ہو اور وزیر تعلیم کے پہلے یہ کہنے کہ کوئی گھپلہ نہیں  ہوا ہے اور پھر بدعنوانی کا دبے لفظوں  اعتراف کرنے نیز کئی لوگوں  کے ایسے بیانات سامنے آنے کہ ہاں ! ہم نے گھپلہ کیا ہے مزید کئی سوالات کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان سوالات پر اپنی رائے تو صرف سپریم کورٹ دے گا اور اسے دینا بھی چاہئے ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں  کہ سپریم کورٹ کی جو بھی رائے ہو جلد سامنے آئے اور نافذ کی جائے۔ یہ مسئلہ ایک نظام پر اعتماد کی بحالی کا مسئلہ بن چکا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK