• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کچھ لوگ جو آتے ہیں فرشتوں کی صفوں سے

Updated: February 08, 2025, 1:44 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

یوم وِلادت پر خصوصی مضمون: اہل اُردو کے پاس پڑھنے اور حاصل کرنے کیلئے اتنا کچھ ہے کہ کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں مگر اکثر لوگ پڑھنا، اپنے ذہن کو منور کرنا اور ہر مستند شخصیت سے کچھ نہ کچھ سیکھنا نہیں چاہتے۔ یہ المیہ ہی تو ہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اگر کوئی قاری درج ذیل سطور سے اندازہ کرلے کہ یہ کس کی تحریر ہے تو اُس قاری کو اپنے آپ پر رشک کرنے کا پورا حق ہوگا۔ صحیح اندازہ لگانے پر قاری کو ہونے والی خوشی میں  اس مضمون نگار کو بھی شریک کرلیا جائے تو کیا کہنا۔ ملاحظہ کیجئے یہ سطریں :
 ’’پہاڑ کے دامن میں  ایک ہری بھری لہلہاتی وادی ہے۔ جدھر دیکھو گھاس کا فرش، ننگے پاؤں  بھی چلو تو ایسا معلوم ہو کہ پیر میں  کسی ہوشیار کاریگر کا بنایا ہوا بہت نرم چمڑے کا جوتا ہے، بالکل ٹھیک، نہ ڈھیلا نہ تنگ۔ وادی میں  چھوٹا سے دریا بہتا ہے۔ یہ پہاڑی چشمہ ہے۔ اس لئے پانی صاف ہے جیسے آئینہ اور ٹھنڈا اولا۔ دریا سے کچھ ہٹ کر ذرا اونچے پر بستی ہے۔ بیچ میں  چوڑی چکلی سڑک۔ اِدھر اُدھر، سفید سفید مکان، چھتیں  ڈھلوان سرخ سرخ، بازار بڑے سلیقے کا، دکانیں  خوب سجی ہوئی، چوکھٹوں  اور دروازوں  پر ہرا ہرا رنگ جیسے ابھی کل ہی کسی نے کیا ہو، گاؤں  کے ارد گرد دھان کے ایسے لہلہاتے کھیت کہ دیکھ کر آنکھیں  ٹھنڈی ہوں ۔ یوں  کہنے کو تو سب کھیت ہرے ہیں ، پَر ہر ایک کا رنگ الگ الگ ہے، کوئی ہلکا انگوری، کوئی اس سے ذرا تیز مونگیا، کوئی گہرا کاہی، کسی میں  پلاہٹ جھلکتی ہے کسی میں  نلاہٹ۔ ایسا لگتا کہ کسی پہاڑی پری کی شادی ہو۔‘‘ (اقتباس مکمل) 
 کس کی تحریر ہے، یہ اندازہ لگانے کا وقت ختم ہوا۔ جلد ہی یہ مضمون نگار خود بتادے گا کہ یہ تحریر جس پایہ کے ادیب کے زور قلم کا نتیجہ ہے اُن کا نام نامی کیا ہےاور وہ کیسی عظیم المرتبت شخصیت ہے مگر اُس سے پہلے یہ سن لیجئے (جو آپ نے یقیناً سن رکھا ہے) کہ حالی کی طویل نظم’’مدوجزر اسلام‘‘ کے محرک سرسید احمد خاں  تھے۔ انہوں  نے جب یہ نظم پڑھی تو بے پناہ متاثر ہوئے اور حالی کو خط لکھا جس میں  یہ تاریخی جملہ موجود تھا کہ ’’جب خدا روز ِ محشر مجھ سے پوچھے گا کہ تو‘ کیا لایا ہے تو میں  عرض کروں  گا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں  اور کچھ نہیں ۔‘‘ سرسید کے اس جملے سے استفادہ کرتے ہوئے یہ مضمون نگار کہنا چاہتا ہے کہ ہم میں  اتنی جرأت تو نہیں  ہوسکتی کہ روز محشر خدا کے سوال کا جواب دے سکیں  مگر دل ہی دل میں  یہ ضرور سوچ سکتے ہیں  کہ دُنیا میں  جن اصحاب قلم کی نگارشات کو دل سے پسندکیا اور نہایت عزیز رکھا اُن میں  سے ایک تھے ڈاکٹر ذاکر حسین جو نائب صدر جمہوریہ اور پھر صدرِ جمہوریہ ہونے کے علاوہ دانشور، مجاہد آزادی، ماہر تعلیم اور صاحب اسلوب ادیب تھے۔ 
 اکثر لوگوں  کی قدر اُن کے اپنے دور میں  نہیں  ہوتی مگر ذاکر صاحب کی بات اور تھی۔ اُن کی شخصیت کے محاسن، خدمات اور صلاحیتوں  کا لوہا اُن کے دورِ حیات ہی میں  مان لیا گیا تھا۔ کاش ہم نے ایسی شخصیتوں  کو دیکھا ہوتا اور اُن کے قریب رہنے کی سعادت حاصل کی ہوتی! اکثر یہ تمنا سر اُبھارتی ہے کہ کاش نئی نسل ایسی شخصیتوں  کے حالات زندگی پڑھے، اُس سے کچھ سیکھے اور یہ جانے کہ ایک شخصیت بیک وقت کتنی شخصیتوں  کا مجموعہ کیسے بنتی ہے، کس طرح دلوں  میں  جگہ بناتی ہے اور ایک عالم کو متاثر کرتی ہے۔ 
 ذاکر صاحب کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے اور یہ انتخاب کرنا مشکل ہے کہ شخصیت کے کسی پہلو کو موضوع بنایا جائے یا اُن کی خدمات کے کس شعبہ پر گفتگو کی جائے مگر میرے لئے یہ انتخاب اس لئے مشکل نہیں  ہے کہ مجھے اُن کے قلم سے اُنسیت ہے اور تب سے ہے جب طالب علمی کے دور میں  اُن کی کہانی ’’ابو خاں  کی بکری‘‘ پڑھی تھی جس کا تذکرہ اس کالم میں  پہلے بھی ہوچکا ہے۔ بچپن میں   پڑھی ہوئی کہانی کا نقش آج بھی ذہن پر تازہ ہے۔ اُن کی تحریروں  میں  منظر اور کردار نگاری کا خاص دخل ہے۔ پڑھئے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم بیان کردہ مناظر کو اپنی آنکھوں  سے دیکھ رہے ہیں  اورکہانی میں  جس کردار کو اُنہوں  نے اًبھارا ہے وہ کوئی فرضی کردار نہیں  بلکہ جیتا جاگتا انسان ہے جو ہماری نگاہوں  کے سامنے ہے۔
  ’’ابو خاں  کی بکری‘‘ کے ابو خاں  ہی کو لے لیجئے۔ ان کے بارے میں  بتایا گیا کہ وہ بڑے شوق سے بکریاں  پالتے تھے مگر اُن کی ہر بکری رسی تڑوا کر بھاگ جاتی تھی۔ اس ضمن میں  لکھا ہے: ’’جب ابو خاں  کی بہت سی بکریاں  یوں  بھاگ گئیں  تو بیچارے بہت اُداس ہوئے اور کہنے لگے: ’’اب کبھی بکریاں  نہ پالوں  گا، زندگی کے تھوڑے دن اور ہیں ، بے بکریوں  ہی کے کٹ جائینگے، مگر تنہائی بُری چیز ہے، تھوڑے دن تو ابو خاں  بے بکریوں  کے رہے، آخر نہ رہا گیا، ایک دن کہیں  سے ایک بکری مول لے آئے، یہ بکری ابھی بچہ ہی تھی، کوئی سال سوا سال کی ہوگی، پہلی دفعہ بیاہی تھی، ابو خاں  نے سوچا کہ  کم عمر بکری لوں  گا تو شاید ہل جائے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: انسانیت ابھی مری نہیں ہے

  کردار نگاری میں  بھی اُن کا امتیاز تھا کہ ایک کردار سے دوسرے کردار کا پہلو نکلتا تھا۔ مذکورہ اقتباس میں  ابو خاں  کی شخصیت کو اُجاگر کیا جارہا تھا پھر بکری کی خصوصیات موضوع بحث بن گئیں  اور فرمانے لگے: ’’یہ بکری تھی بہت خوبصورت، رنگ اس کا بالکل سفید تھا، بال لمبے لمبے تھے، چھوٹے چھوٹے کالے سینگ ایسے معلوم ہوتے تھے کہ کسی نے آبنوس کی کالی لکڑی میں  خوب محنت سے تراش کر بنائے ہوں ۔‘‘ یہ ہے کردار نگاری کا وصف جبکہ اس مضمون کی ابتداء میں  ’’عقاب‘‘ کا اقتباس منظر نگاری کی مختصر سی مثال ہے۔ 
 ذاکر صاحب نے کم ہی کہانیاں  لکھی ہیں  مگرہر کہانی لاجواب ہے۔ بچوں  کی ہوتے ہوئے بھی بچوں  کی نہیں  ہے۔ اُن کا انداز بیان اتنا دلنشین اور الفاظ اتنے حسین ہیں  کہ ایسا لگتا ہے ایک ہاتھ میں  قلم اور دوسرے میں  موتیوں  کا تھال لے کر بیٹھتے اور قلم کے ذریعہ تحریر میں  موتی پروتے جاتے ہیں ۔ ماں ، آخری قدم، سچی محبت، عقاب، سعیدہ کی اماں  اور بے کاری اُن کی چند کہانیوں  کے عنوان ہیں ۔ جن لوگوں  نے اُن کی کہانیاں  نہیں  پڑھی ہیں  اُنہیں  پہلی فرصت میں  پڑھنا چاہئے اور جو لوگ فروغ تعلیم کیلئے کوشاں  ہیں  اُنہیں  ذاکر صاحب کے تعلیمی نظریات سے کماحقہ استفادہ کرنا چاہئے۔ کیا ہی اچھا ہو جو ذاکر کا ذکر گھرگھر چلے اور دیر تک چلتا رہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK