کانگریس مُکت کا نعرہ اب نہیں لگایا جاتا۔ شاید وزیر اعظم کی سمجھ میں آگیا ہو کہ جب تک سیکولرازم کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک یہ مشن کامیاب نہیں ہوگا۔
EPAPER
Updated: February 04, 2025, 1:48 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
کانگریس مُکت کا نعرہ اب نہیں لگایا جاتا۔ شاید وزیر اعظم کی سمجھ میں آگیا ہو کہ جب تک سیکولرازم کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک یہ مشن کامیاب نہیں ہوگا۔
بنگال کی وزیر اعلیٰ سیاست کے میدان میں تو اپنا لوہا منوا ہی چکی ہیں ، شاعری، مصوری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ میں بھی طبع آزمائی فرما تی رہتی ہیں ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی کلکتہ انٹرنیشنل بک فئیر میں دیدی کی کئی کتابوں کی رونمائی ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک ہے ’’ بانگلار نرباچون او آمرا۔‘‘اس کتاب میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی نااہلی اور رعونت کی وجہ سے انڈیا اتحاد مودی جی کو اقتدارسے نہیں ہٹا سکا۔ ممتا کے مطابق اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے کانگریس کا فرض کہ اس کے ارباب حل و عقد مشترکہ منشور اور مشترکہ پروگرام بناتےلیکن پارٹی نے ایسا نہیں کیا۔ ممتانے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کانگریس کی سیٹوں کی تعداد تقریباً دگنی سیٹوں کے سمجھوتہ کی وجہ سے ہوئی۔ وہ انڈیا اتحاد کی قیادت میں تبدیلی چاہتی ہیں ۔ دوسری جانب اروند کیجریوال نے تو اپوزیشن اتحاد سے کانگریس پارٹی کو نکالنے کا مطالبہ کردیا ہے۔دہلی اسمبلی الیکشن کی مہم کے دوران کانگریس کو الگ تھلک کرکے انڈیا اتحاد کی تمام اہم پارٹیاں عام آدمی پارٹی کے لئے ووٹ مانگ رہی ہیں ۔ کانگریس کا المیہ یہ ہے کہ ایک جانب سیاسی حریف بی جے پی اس پر حملوں پر حملے کررہی ہے تو دوسری جانب اس کے حلیف اس کا دفاع کرنے کے بجائے اس کو ہی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔
ہریانہ اور مہاراشٹر میں ذلت آمیز شکست کے بعد سے کانگریس کی قدر و منزلت گرتی ہی جارہی ہے۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کے سامنے ایک اور چیلنج ہے۔ وہ پارٹی جو سارے ملک پر دلی سے حکمرانی کرتی تھی، دس برسوں سے اسمبلی میں اس کا ایک نمائندہ تک نہیں ہے اور اس کا ووٹ شیئر گھٹ کر چار فی صد رہ گیا ہے۔ اگر دہلی اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی کارکردگی میں خاطر خواہ بہتری نہیں آئی تو اس کے خوفناک نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ پارٹی کارکنان کا مورال مزید گر جائے گا، پارٹی میں ایک اور بھگدڑ مچے گی اور اپوزیشن اتحاد میں اس کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی۔ ۲۰۲۴ء لوک سبھا الیکشن میں اپوزیشن کے گٹھ جوڑ کا حصہ بننے کی وجہ سے کانگریس ۹۹؍ سیٹیں جیت پائی۔ لیکن اس کے بعد سے وہ پھر روبہ زوال ہے۔ اس وقت پارٹی صرف تین صوبوں کرناٹک، تلنگانہ اور ہماچل پردیش تک محدود ہے۔ پچھلے دس گیارہ سال سے سیاسی تجزیہ کار کانگریس کے بحران کی مسلسل نشاندہی کر رہے ہیں ۔ اس کیلئے وہ ایک جانب نریندر مودی کی مضبوط قیادت اور امیت شاہ کی چانکیہ نیتی کو اور دوسری جانب کانگریس پارٹی کی اندرونی خامیوں اورا نتشار کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔کانگریس لگاتار تین بار لوک سبھا انتخابات ہار چکی ہے۔ شکست وفتح انتخابی سیاست کا حصہ ہیں لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ کانگریس کے کارکن پے درپے شکستوں سے دل شکستہ ہوگئے ہیں ۔ ان کا حوصلہ ٹوٹ گیا ہے۔ پارٹی کے اندر اقربا پروری بھی بڑھی ہے اور کرپشن بھی؛ اتحاد اور ہم آہنگی میں بھی کمی ہوئی ہے اور ڈسپلن اور کمٹمنٹ میں بھی۔ لیڈران اس قدر بے ضمیر ہیں کہ کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے کے باوجود ڈھٹائی سے بی جے پی جوائن کرلیتے ہیں ۔ کئی صوبوں میں کانگریس کی منتخب حکومتیں ان بکاؤ لیڈروں کی وجہ سے بی جے پی کی حکومتوں میں تبدیل ہوگئیں ۔ نہ الیکشن کمیشن نے جمہوریت کے اس دن دہاڑے قتل پر کوئی کارروائی کی نہ ہی سپریم کورٹ نے۔ کانگریس کے زوال کی ایک بڑی وجہ آئینی اداروں کی بی جے پی کے سامنے خود سپردگی بھی ہے۔
کرکٹ میں جس طرح اپنا پورا زورلگاکر شکست کے منہ سے جیت چھین کر لانے والا کپتان اعزازات کا مستحق سمجھا جاتا ہے،اسی طرح پارلیمانی جمہوریت میں اچھا لیڈر وہ ہوتاہے جو پارٹی کو انتخابی فتح سے ہمکنار کرائے۔ راہل اس پیمانہ پر ناکام ہیں ۔ سیاسی داؤ پیچ سے لاعلمی، فن خطابت سے ناواقفیت اور فطری لیڈرشپ کی صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے راہل، مودی اور شاہ کے سیاسی پینتروں کے سامنے بار بار ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔ شاید اسی لئے سیاسی مبصرین سب سے زیادہ زور قلم راہل کی ناکامی ہی پر صرف کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ راہل کی قائدانہ صلاحیتوں کا مذاق اڑاتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو ان سے ہمدردی کرتے ہیں ۔
نصف صدی سے زائد عرصے تک کانگریس جس ہندوستان میں ’’حکمرانی کیلئے موزوں اورفطری متبادل ‘‘ مانی جاتی تھی وہ اب پہلے جیسا ہندوستان نہیں ہے۔ اسی لئے کانگریس کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے پہلے نہرو اور گاندھی کے ہندوستان کو بدلنے کی مہم چھیڑی گئی چنانچہ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت سے لے کر ۲۰۲۴ء میں شاندار رام مندر کی تعمیرتک، صرف ایک مذہبی و تہذیبی نہیں بلکہ زبردست سیاسی ایجنڈہ نافذ کیا گیا۔ پورے ہندوستان کو زعفرانی رنگ میں رنگ دینے کی مہم ہندوتوا بریگیڈ نے ایک صدی قبل ہی شروع کردی تھی۔ اب یہ مہم رنگ لائی ہے۔ ہندوستان بدل گیا ہے۔
واجپئی اور اڈوانی کی بی جے پی کانگریس پر صرف مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگا کر اور خود کو ہندوؤں کے مفاد کی محافظ قرار دے کر ووٹوں کو پولرائز کرتی تھی، آج کی بی جے پی کانگریس پر مسلمانوں کی پارٹی کا لیبل چپکا کر ہندوؤں کے ووٹ مانگتی ہے۔ وزیر اعظم عوام کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ کانگریس جیتی تو ہندو عورتوں کے منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی اوروزیر داخلہ کو کانگریس کاانتخابی منشور مسلم لیگ کا انتخابی منشور لگتا ہے۔ اب تو کانگریس کا ناطہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی جوڑ ا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مہاتمانے جن رجحانات پر متنبہ کیا تھا، وہ آج بھی ہیں
جب انتخابی ریلیوں کے ذریعہ ہندوؤں کو اس طرح بدگمان کیا جائے تو بھلا پارٹی کو ہندو ووٹ کیسے دیں گے؟ اگر ہندو ووٹ نہیں دیں گے تو کانگریس اقتدار میں کیسے آئے گی؟ امیت شاہ نے شاید یہی سوچ کر کہا تھا کہ بی جے پی اگلے پچاس برس تک اقتدار میں رہے گی۔ قصہ مختصر یہ کہ ہندوؤں کو کانگریس سے صرف سیاسی اور نظریاتی طورپر بدظن نہیں کیا گیا بلکہ ان کا برین واش کیا گیا جس کے سبب عام سیدھاسادا ووٹر یہ سمجھنے لگا ہے کہ کمل نشان پر بٹن دبانا اس کا مذہبی فریضہ اور کانگریس کو ووٹ دینا مہا پاپ۔ انتخابات پہلے محض سیاسی محاذ آرائی کا پلیٹ فارم تھا، اب دھرم یدھ کا میدان بنا دیا گیا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ پہلی بار راج سنگھاسن پر براجمان ہونے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی فخر سے ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے، ادھر کئی برسوں سے انہوں نے یہ دعویٰ ترک کردیا ہے شایدانہیں یہ ادراک ہوگیا ہے کہ جب تک سیکولرازم نیست و نابود نہیں ہوتا تب تک کانگریس ختم نہیں ہوگی۔ مودی جی کانگریس کا نام و نشان مٹانے میں ناکام رہے مگر ماننا پڑے گا کہ انہوں نے کانگریس پارٹی کی حالت اتنی ہی ناگفتہ بہ کردی ہے جتنی کہ سیکولرازم کی۔