عوام کا فیصلہ کچھ تھا، سیاسی مساوات کچھ اور ہے۔ عوام نے تبدیلی کی خواہش ظاہر کی، وزیر اعظم نے اپنے انداز سے یہ باور کرایا کہ فیصلہ انہی کے حق میں ہے۔
EPAPER
Updated: July 08, 2024, 1:47 PM IST | P Chidambaram | Mumbai
عوام کا فیصلہ کچھ تھا، سیاسی مساوات کچھ اور ہے۔ عوام نے تبدیلی کی خواہش ظاہر کی، وزیر اعظم نے اپنے انداز سے یہ باور کرایا کہ فیصلہ انہی کے حق میں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی سمیت اتحادیوں کی حکومت نے ۹؍ جون ۲۰۲۴ء کو حلف لیا لیکن اس کی شروعات اچھی نہیں رہی۔ مودی کو ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو کے لیڈران کے ساتھ میز پر بیٹھنا پڑا، اتحادیوں میں اہم وزارتی قلمدانوں کی تقسیم ہوئی اور لوک سبھا اسپیکر کے انتخاب کیلئے بھی مودی کو اتحادیوں سے مشورہ کرنا پڑا۔ یہ باتیں مودی کیلئے نئی تھیں کیونکہ انہوں نے گزشتہ ۲۲؍ برس میں چھوٹا بڑا کوئی بھی مشورہ کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی۔ حکومت کی تشکیل کے بعد صرف ۲۰؍ دن کے دورانیے میں حکومت کو کئی جھٹکے لگے۔ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کاپردہ فاش ہوا جس نے لاکھوں طلبہ کی امیدوں کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ جلپائی گوڑی میں بھیانک ٹرین حادثہ اور جموں کشمیر میں دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ٹماٹر، آلو اور پیاز کی قیمتوں میں بالترتیب ۳۹، ۴۱؍ اور ۴۱؍ فیصد کی شرح سے سال در سال اضافہ ہوا۔ سینسیکس اور نفٹی نئی بلندیوں کو چھونے لگے لیکن ڈالر اور روپے کے شرح مبادلہ میں بھاری کمی آئی۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ظاہری طور پر بی جے پی پر تنقید کی اور ’’تکبر‘‘ کا مظاہرہ کرنے والوں کو نصیحت کی۔ بی جے پی کی قیادت جھنجھلا گئی، اسی دوران کئی ریاستوں میں پارٹی کی مقامی اکائیوں میں بغاوت ہوئی۔
اٹھارہویں لوک سبھا کے پہلے پارلیمانی سیشن میں ، اسپیکر کے انتخاب اور صدر کے خطاب کے علاوہ کوئی ٹھوس کام کاج نہیں ہوا بلکہ لوک سبھا کے روایتی اور معمول کے کام کاج تنازع کا شکار ہوگئے۔ روایت کے مطابق، سب سے زیادہ مرتبہ منتخب ہونے والے رکن کو سبھا کا عارضی (پرو ٹیم) اسپیکر منتخب کیاجاتا ہے جو دیگر منتخب اراکین پارلیمنٹ کی حلف برداری کی صدارت کرتا ہے۔ کیرالا کانگریس کے رکن کے سریش اس عہدے کے اہل تھے اور کچھ وقفہ کے ساتھ ۸؍ مرتبہ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے ہیں لیکن حکومت نے ادیشہ بی جے پی کے رکن بھرتری ہری مہتاب کو پروٹیم اسپیکر کے عہدہ کیلئے منتخب کیا جو صرف سات مرتبہ کے رکن پارلیمان ہیں ۔ موصوف اس سے قبل چھ مرتبہ بی جے ڈی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ پہنچے ہیں ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی نے اس بات پر تنازع کیوں کھڑا کیا؟ شاید بی جے پی اس کے ذریعے بتانا چاہتی ہے کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے اس کے سپریم لیڈر (مودی) کے آمرانہ طریقہ کار پر کوئی فرق نہیں پڑیگا جنہیں صرف اپنی بات منوانا پسند ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے ذریعے کرن رجیجو اپنی آمد کا اشارہ دینا چاہتے ہونگے جن کی وزیر برائے پارلیمانی امور کے طور پر واپسی ہوئی ہے۔ زیادہ قابل فہم جواب یہ ہوسکتا ہے کہ شاید مہتاب کو بی جے ڈی سے بی جے پی میں شامل ہونے پر انعام دیا گیا ہے تاکہ مزید لیڈران پارٹی بدل کر بی جے پی کی رکنیت اختیار کرلیں ۔ بہرحال، اسپیکر کا انتخاب خوشگوار طریقہ سے نہیں ہو پایا لیکن ایوان کی دیگر کارروائیاں معمول کے مطابق ہونی چاہئے تھیں مگر اسپیکر نے اس وقت مزید تلخی پیدا کردی جب انہوں نے ۴۹؍ سال قبل ایمرجنسی کے نفاذکیلئے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے مذمتی قرارداد پیش کی۔ میرے خیال میں ، ایمرجنسی کے ۴۹؍ سال بعد اس قرارداد کا پیش کیا جانا غیر ضروری اشتعال انگیزی کا نمونہ تھا۔
دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر کے خطاب کے ذریعے گزشتہ تلخیوں کو مٹایا جاسکتا تھا لیکن افسوس، یہ موقع گنوادیا گیا۔ صدر جمہوریہ اپنے خطاب میں اپوزیشن کی طاقت میں اضافہ کا ذکر کرسکتی تھیں ، اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا جاسکتا تھا کہ بی جے پی کو اکثریت سے ۳۲؍ سیٹیں کم ملی ہیں اور اب مودی پچھلی دہائی کی طرح طاقتور نہیں رہے، مزیدبرآں ایوان زیریں میں دس سال بعد حزب اختلاف لیڈر کی جگہ پُر ہوئی ہے لیکن افسوس، صدر موصوفہ نے ان اہم تبدیلیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس کے برخلاف ان کی تقریر میں بی جے پی کے انتخابات سے پہلے اور اس کے دوران کئے گئے دعوؤں کی جھلکیاں دکھائی دیں ۔ وہی دعوے جنہیں عوام کی اکثریت نے مسترد کر دیا۔ نئی حکومت، بی جے پی کی اپنی حکومت نہیں بلکہ مخلوط حکومت ہے۔ بی جے پی اس تلخ حقیقت کی منکر ہے اور صدر نے بھی اپنی تقریر میں ’’اتحاد‘‘ لفظ کا ذکر نہ کرکے بی جے پی کے نظریہِ کی حمایت کی۔ دیگر الفاظ مثلاً اتفاق رائے، `مہنگائی اور `پارلیمانی کمیٹی کی بھی کمی محسوس ہوئی۔ اس میں درج فہرست ذاتوں ، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقات کے حوالے تھے لیکن دیگر تمام، خاص طور پر اقلیتی برادریوں کو `سماجی اور مذہبی گروہوں میں شمار کیاگیا۔ منی پور کے سانحہ کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔ اسے چھوٹی سی راحت کہہ لیجئے کہ `اگنی ویر یا `یکساں سول کوڈ کا بھی کوئی حوالہ نہیں تھا۔ آخر کار، اب ہندوستان وشو گرو نہیں ہے اور وہ وشوا بندھو بننے پر ہی اکتفا کررہاہے۔
بظاہر، بی جے پی کی نظر سے دیکھیں تو کچھ بھی نہیں بدلا ہے، عوام کا موڈ بھی نہیں ۔اس لئے کابینہ بھی وہی ہے، وزراء بھی وہی ہیں اور اہم وزراء میں قلمدان بھی وہی ہیں ۔ لوک سبھا اسپیکر، وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری، قومی سلامتی مشیر، انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بھی وہی ہیں جو پچھلے دور حکومت میں تھے۔ مجموعی طور پر یہ وہی حکومت ہے۔ کئی قانونی و دیگر افسران اپنے عہدوں پر برقرار ہیں ۔ حتیٰ کہ، مجھے بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی وہی کم پڑھے لکھے، توجہ بھٹکانے والے، اسکاٹولوجی میں ماہر شکست خوردہ پائے جاتے ہیں جو تنخواہ دار ہیں اور بی جے بی جے پی کے مخالفین کو ٹرول کرتے ہیں ۔ یہ ثبوت ہے کہ عوامی فیصلے کے باوجود کچھ نہیں بدلا ہے۔
۲۳؍ جولائی کو نئی حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کریگی، آج بھی عوام کے سرفہرست مسائل روزگار اور مہنگائی ہی ہیں ۔ سی ایس ڈی ایس کے مابعد انتخاب سروے کے مطابق، عوام کے نزدیک، `مہنگائی اور `بڑھتی بے روزگاری بی جے پی سرکار کے سب سے `ناپسندیدہ کام ہیں ۔ کابینہ کی تشکیل اور صدر کے خطاب نے ان دونوں مسائل سے بوجھل اور بے چین عوام کو مزید مایوس کیاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ۲۳؍ جولائی کوپیش ہونے والے بجٹ سے قبل مودی حکومت جاگے گی اور ان مسائل کو حل کرنے کیلئے اقدامات کریگی؟ ہمیں پُرامید رہنا چاہئے کیونکہ یہ پارلیمانی آداب کا تقاضا ہے۔