• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عمران خان اور ٹرمپ میں عجیب وغریب یکسانیت

Updated: July 23, 2024, 1:07 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

ٹرمپ پر حملہ کرنے والے کا توکچھ اتا پتا چل گیا لیکن عمران خان اس سلسلہ میںخوش نصیب نہیں ثابت ہوئے، وہ تو اپنے اوپر حملہ کرنے والے کے خلاف کوئی ایف آئی آر بھی نہیں لکھا پائے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ پچھلے ہفتے ہم نے ان کالموں  میں  جو کچھ لکھا تھا ، اُس کا عنوان تھا کہ نتیش کمار اور جو بائیڈن میں  عجیب و غریب یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس ہفتہ ہم جو مضمون لکھ رہے ہیں  اس کا عنوان بھی اس جیسا ہی یعنی ’عمران خان اور ٹرمپ میں  عجیب و غریب یکسانیت‘ ہے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں  کہ اسی ماہ میں  امریکہ کے صدارتی امیدوار ٹرمپ پر ایک قاتلانہ حملہ ہواہے۔ ان پر ایک نوجوان نے گولیاں  چلائیں ۔ ٹرمپ نے جلدی سے خود کو زمین پر لٹا دیا۔ اسی درمیان ان کے سیکوریٹی گارڈ نےان کو اپنے گھیرے میں  لے لیا، یہ سب بلیٹ پروف پہنے ہوئے تھے، ذرا دیر بعد ٹرمپ پوزیشن میں  آئے اور لوگوں  نے دیکھا کہ ان کا  ہاتھ خون سے تر بتر تھا، ایک گولی ان کے کان کو چھوتی ہوئی گزر گئی تھی۔ گولی کا کان کو چھو کر گزرنا اس لئے قابل ذکر ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بڑا حادثہ رونما ہوجاتا۔ ٹرمپ نے حواس مجتمع ہوتے ہی فائٹ فائٹ پکار اتھا ۔ پھر انہوں   نے خون پونچھتے ہوئے وہاں  موجود عوام کی طرف دیکھ کر اپنا مکہ تانا، وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ سب ٹھیک ہے اور وہ سراسیمہ نہیں  ہیں ۔ 
 اتفاق سے بالکل ایساہی ایک واقعہ عمران خان کے ساتھ بھی ہوا تھا، گولی ان کے گھٹنے پر لگی تھی، وہ بھی ٹرمپ کی طرح بال بال بچے ورنہ گولی جسم کے اور کسی حصے پر بھی لگ سکتی تھی۔ یہ شوٹ آؤٹ کا پہلا منظر تھا جو ہم نے اپنی آنکھوں  سے دیکھا تھا، اس وقت یہ منظر ٹی وی پر دکھائی دے رہا تھا، ان کی بھی شلوار خون سے تربتر تھی اور انہوں  نے بھی لوگوں  کی طرف دیکھ کر یہ بتانے کیلئے کہ وہ محفوظ ہیں  فضا میں  مکہ لہرایا تھا۔ ٹرمپ پر حملہ کرنے والے کو اسی وقت گولیوں  سے بھون دیا گیا لیکن عمران خان تو اپنے اوپر ہونے والے حملے کے خلاف آج تک ایک  ایف آئی آر بھی نہیں  لکھوا سکے۔ 
 ٹرمپ پر حملہ ہوتے ہی یہ خیال ہوا کہ یہ حملہ کس نے کیا اور کیوں  کیا؟  مجرم تو زندہ ہی نہیں  بچا، پھر بھی خفیہ ایجنسیوں  نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ قاتل کون تھا، پہلا شک تو یہی تھا کہ کہیں  یہ جرم کسی سیاہ فام نے نہ کیا ہو کیونکہ سیاہ فام ٹرمپ اور ان کی پارٹی ریپبلکن کو پسند نہیں  کرتے ہیں ، تبھی بعض میڈیا نے مسلمانوں  پر شک ظاہر کیا، امریکہ کے عیسائیوں  اورمسلمانوں  میں  کوئی اختلاف نہیں  ہے لیکن اسامہ بن لادن کے بعد حالات تھوڑا بدل گئے ہیں ، بہر حال یہ معلوم ہوا کہ گولی جس نوجوان نے چلائی اس کا نام میتھیوز بروکس ہے، وہ ایک عیسائی خاندا ن کا رکن ہے اور خود بھی ریپبلکن پارٹی کا ممبر رہ چکا تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بالکل نارمل تھا ۔ امتحان میں  اس نے میتھس میں  اچھے نمبر بھی پائے تھے۔
 بہرحال ٹرمپ پر حملہ کرنے والے کا توکچھ اتا پتا  چل گیا لیکن عمران خان اس سلسلہ میں خوش نصیب ثابت نہیں ہوئے۔  پنجاب پولیس نے اسے ایک حادثاتی واقعہ کہہ کر اس کی ایف آئی آر درج کی   اس کے بعد اس کی نام نہاد تفتیش شروع ہوئی اور جیسا کہ سب جانتے ہیں  آ ج تک معلوم نہ ہوسکا کہ تفتیش سے کیا نتائج برآمد کئے گئے۔  عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے کو لوگوں  نے مار ا تو نہیں  لیکن اسے پاس کھڑی پولیس کے حوالے ضرور کر دیا۔ حملہ کرنے والے نے پولیس کی حراست میں  ایک عجیب بیان دیا ۔اس نے کہا کہ اس نے عمران خان پر  اس لئے حملہ کیا کہ وہ اپنی ہر ریلی میں  قرآن اور حدیث کی بات کرتے ہیں  لیکن اس سے پہلے خوب گانا بجانا ہوتا ہے، جس سے اس کے مذہبی جذبات مجروح ہوتےہیں ۔
  اس سے پہلے کہ اس سے کوئی اور سوال کیا جاتا پولیس نے اسے دبوچ لیا لیکن کچھ بتانے اور کچھ چھپانے کے طرز عمل کا مقصد یہ سمجھ میں  آتا ہے کہ حملہ کرنے والوں کے پیچھے کون تھا یہ ثابت ہی نہ ہوسکے۔ ویسے عمران خان نے کچھ دن پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوسکتا ہے۔اس پروپیگنڈے میں  مسلم لیگ نواز کے کچھ لیڈر اور پالتو میڈیا کے کچھ تنخواہ دار اینکرز بھی شامل تھے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عمران خان پر حملہ کرنے والا آ ج بھی پولیس کی تحویل میں  ہے اور اس کی جان بچانے کیلئے پولیس اسے فاضل سیکوریٹی بھی دے رہی ہے، جبکہ حملہ کا شکار عمران خان اب بھی جھوٹے مقدمات کیلئے نہ صرف قید ہیں  بلکہ عدالت در عدالت دھکے کھاتے پھر رہے ہیں ۔ بہرحال اب ہر طرف یہ پوچھا جا رہا ہے کہ شاید ٹرمپ اور عمران خان پر حملے کی یکسانیت کی وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں  کوئی فرق آئے گا۔ بظاہر ایسا نہیں  معلوم ہوتا مگر  ایسا بھی ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو تعجب خیز نہیں  ہوگا۔
 ایوب خان سے پرویز مشرف تک بیشتر لیڈران امریکہ کے تابع رہے ہیں ، پرویز مشرف تو بش کی اس دھمکی سے ہی ڈر گئے تھے کہ اگر افغانستان سے جنگ میں پاکستان نے ساتھ نہیں  دیا تو پاکستان تاریخ کا ایک باب بن جائے گا۔ پاکستان کی دو جماعتیں  مسلم لیگ اور پیوپلس پارٹی نے گن گان کر کے امریکہ سے نباہ کرلیا تھا لیکن اس دوران عمران خان منظر عام پر آگئے، انہوں  نے اعلان کیا کہ پاکستان کی اپنی آزاد خارجہ پالیسی ہوگی۔ اُن کاا رادہ تھا کہ اگر روس سے تیل خریدنا ہے تو امریکہ شاید یہ بھی پسند نہ کرے۔ اس کے علاوہ ایک امریکن صحافی کو عمران خان نے انٹرویو دیا۔ اُس میں  ایک سوال تھا کہ کیا پاکستان افغانستان جانے کے لئے ہوائی راستہ دے گا؟ عمران خان نے کہا قطعی نہیں ۔ ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ یہ بات بھی امریکہ کو پسند نہیں  آئی ۔لیکن سب سے زیادہ عمران خان کا چین کی طرف جھکاؤ ہے۔ وہ کئی بار چین کو اشارے بھی دے چکے ہیں ۔ ٹرمپ اور عمرن خان کی اس حدتک یکسانیت ہے۔ تو کیا ٹرمپ جو کل صدر بن سکتے ہیں ، اُن کیلئے ایسی یکسانیت کچھ معنی ر کھتی ہے؟
  ان دنوں   پاکستان میں  کہا جارہا ہے کہ اگر ٹرمپ صدر بن گئے، جن کے انتخابی امکانات فائرنگ کے واقعہ  کے بعد کافی بڑھ گئے ہیں  تو کیا وہ پاکستان کے لئے اپنی پالیسی نرم رکھیں  گے؟ پاکستان میں  یہ شور بپا ہے کہ ٹرمپ اور عمران اس عجیب وغریب یکسانیت کے ساتھ ایک دوسرے کے کافی قریب آگئے ہیں ۔ کیا واقعی ایسا ہے یا کیا ایسا نہیں  ہے، اس کا جلد پتہ لگ جائیگا اور یہ جاننا دلچسپ ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK