• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

امریکی عوام اور جارح سیاست کی تائید

Updated: November 11, 2024, 1:37 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

جو فیصلہ آیا ہے اُس کی امریکی عوام سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ کیامہنگائی اتنا بڑا مسئلہ تھا؟ جبکہ بائیڈن کے دور میں مہنگائی کم ہوئی۔ جتنی ہونی چاہئے تھی اُتنی نہیں ہوئی مگر کم تو ہوئی ہے۔ اعدادوشمار اس کی گواہی دیتے ہیں۔ پھر کیا ہوا جو ایسا فیصلہ سامنے آیا؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ایک  اور ’’طاقتور‘‘ لیڈر کا انتخاب عمل میں  لایا گیا ہے۔ دُنیا کی سب سے قدیم جمہوریت میں  ڈونالڈ ٹرمپ صدر منتخب کئے گئے ہیں ۔ امریکہ میں  ہونے والے انتخاب کی ’’قانونیت‘‘ پر سوال نہیں  کیا جاسکتا۔ اس الیکشن میں  ری پبلکن پارٹی کے ٹرمپ کو زیادہ تر الیکٹورل ووٹس ملے ہیں ۔ اُن کے برخلاف ڈیموکریٹ کی کملا ہیرس کافی پیچھے رہیں ۔۲۲۶؍ بمقابلہ ۳۰۱؍ کا فرق معمولی نہیں  ہے۔ اس الیکشن کے ذریعہ ری پبلکن پارٹی کی طاقت اور بھی بڑھی ہے۔ اس پارٹی نے صدارتی الیکشن ہی نہیں  جیتا، سینیٹ اور ہاؤس آف ری پریزینٹیٹیوز (ایوان نمائندگان) میں  بھی اپنا غلبہ قائم کیا ہے۔ کسی بی زاویئے سے دیکھیں  تو یہ بہت بڑی جیت ہے ٹرمپ کیلئے بھی اور ری پبلکن پارٹی کیلئے بھی۔ اس الیکشن نے اُن سرویز کو غلط ٹھہرایا ہے جو ماقبل انتخابات ہوئے تھے اور جن میں  کانٹے کی ٹکر بتائی گئی تھی۔
 بیشتر انتخابی ماہرین، مبصرین، مشاہدین اور غیر جانبدار صحافیوں  نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کو نسل پرستانہ اور تقسیم پسندانہ ہی نہیں ، خواتین کی تحقیر سے بھی تعبیر کیا تھا۔ لیکن امریکی عوام کی اکثریت نے ان باتوں  کو غیر اہم قرار دیا، ان کی جانب بالکل توجہ نہیں  دی۔ اُنہوں  نے مہنگائی، غیر قانونی تارکین وطن اور جرائم کو اہمیت دی اور دوسری باتوں  کو فراموش کردیا۔ ان میں  سوائے مہنگائی کےدیگر دو باتیں  ایسی نہیں  کہ جن کا تعلق روٹی روزی سے ہو۔ وہاں  تارکین وطن کے مسئلہ کو دیکھنے کا زاویہ ویسا نہیں  جیسا ہم سمجھتے ہیں ۔ وہاں  اس کا معنی ہے امریکہ کے دروازے ایسے لوگوں  کیلئے کھولنا جو ’’ہمارے جیسے نہیں  ہیں ۔‘‘ ہمارے جیسے سے مراد سفید فام امریکی عیسائیوں  جیسے۔
 ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ لوگ جو خود تارکین وطن میں  شمار ہوتے ہیں  اُنہوں  نے نئے آنے والے تارکین وطن کو خطرہ سمجھا۔ مہنگائی کا جہاں  تک تعلق ہے، اس سے ہر خاص و عام کو دشواری ہوتی ہے بلکہ متوسط اور غریب طبقہ ہائے آبادی کیلئے ناگفتہ بہ مسائل پیدا ہوتے ہیں  مگر بائیڈن کے دور میں  مہنگائی کم ہوئی تھی (۲ء۴؍ فیصد تھی) حتیٰ کہ شرح سود کم کی جانی تھی جو کہ افراط زر کے کم ہونے کی نشاندہی کرتی ہے اس کے باوجود امریکی رائے دہندگان کو مہنگائی بڑا مسئلہ محسوس ہوا۔ رہا سوال جرائم کا تو اس میں  شک نہیں  کہ یہ سنگین مسئلہ ہے، صرف امریکہ کیلئے نہیں  کسی بھی ملک کیلئے، بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں  میں  آبادی کا ارتکاز اور منشیات کا بڑھتا رجحان جرائم کیلئے زرخیززمین فراہم کرتا ہے۔جرائم ایسا مسئلہ ہے جو دُنیا کی کسی بھی حکومت کیلئے خطرہ ہے۔ 
 ٹرمپ نے ان مسائل کو جس حد تک بھی بھنایا جاسکتا تھا، بھنایا۔ انہوں  نے ہر طرح کے حربے آزمائے، جیسی زبان استعمال کی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ان سے بہتر طرز عمل کی اُمید نہیں  کی جاسکتی مگر جس حقیقت نے مجھے چونکایا اور حیران کیا وہ یہ ہے کہ امریکہ رائے دہندگان نے اُن کے طرز عمل کی گرفت نہیں  کی، اس کا بُرا نہیں  مانا بلکہ اس کے تئیں  غیر حساس رہے۔
 کملا ہیرس نے جو مسائل اور موضوعات اُٹھائے، امریکی عوام کی اکثریت نے اُنہیں  قابل اعتناء نہیں  سمجھا۔ اُن کا اصرار جن موضوعات پر تھا وہ اس طرح تھے: خواتین کے حقوق، اسقاط حمل کی آزادی، امریکی آئین کی بالادستی اور تقدس، نسلی مساوات اور سماج میں  شفافیت اور انصاف کی اہمیت۔ افسوس کہ یہ موضوعات ٹرمپ کی پُرزور اور پُرشور انتخابی مہم میں  کھو گئے۔ٹرمپ خود بھی ان موضوعات کو اہمیت نہیں  دیتے ہیں ۔ 
 جن دیگر موضوعات کو امریکی صدارتی انتخابات میں  اُجاگر ہونے اور اہمیت حاصل کرنے کا موقع نہیں  ملا وہ تھے: غزہ میں  ۴۴؍ ہزار فلسطینیوں  کا قتل، یوکرین پر مسلط ہونے والی جنگ اور ایسے ہی دیگر محرکات جنہیں  انتخابات میں  اہمیت ملنی چاہئے تھی۔ چین کا تائیوان کو دھمکانا اور شمالی کوریا کا دور مار کرنے والے میزائل داغنا جو امریکی سرزمین پر بھی پہنچ سکتے ہیں ، امریکی عوام کو تشویش میں  مبتلا نہیں  کرسکا۔ اسی طرح کئی ملکوں  میں  جاری خانہ جنگی اور کئی دیگر ملکوں  میں  جو جمہوری ہیں ، وہاں  شہریوں  کو آزادی کا محدود کیا جانا۔ کیا یہ معاملات امریکی شہریوں  کیلئے تشویش کا باعث نہیں  ہوسکتے؟ عام حالات میں  تو یہی ہوتا ہے مگر صدارتی انتخاب کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں  امریکی شہریوں  کے فیصلے پر اثر انداز نہیں  ہوسکیں ۔ معاشی نقطۂ نظر سے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ امریکہ کا فری اور اوپن ٹریڈ پالیسی سے پیچھے ہٹنا، کم ٹیرف لگانا اور اجارہ داری کی مخالفت کرنا وغیرہ سے امریکہ کا اجتناب، یہ سب بھی امریکیوں  کو متنبہ نہیں  کرسکا۔ آپ کو بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جتنے بھی بڑی معاشی طاقتیں  ہیں  اگر اُن کی جانب سے ٹرمپ کی کامیابی پر شادیانے بجائے جارہے ہیں  وہ بڑی آئل کمپنیاں ،فارما کمپنیاں  اور ٹیکنالوجی سے متعلق کمپنیاں  ہیں ۔ 

یہ بھی پڑھئے: ۲۰۲۴ء کا الیکشن، سردیسائی کی کتاب اور مودی کی حکمرانی

 حقیقت یہ ہے کہ امریکی عوانے اپنے تعصبات کےزیر اثر ووٹ دیا ہے۔ مرد ووٹروں  نے ٹرمپ کو پسند کیا بالخصوص انہوں  نے جو ۱۸؍ سے ۲۹؍ سال کی عمر میں  ہیں ۔ اسی طرح ورکنگ کلاس کے ووٹرس نے بھی ٹرمپ کو ترجیح دی۔ وہ رائے دہندگان جو گریجویٹ نہیں  ہیں  انہوں  نے بھی ٹرمپ ہی کو ووٹ دیا۔ لاطینی امریکی کہلانے والوں  نے بھی جو ’’لیٹینو‘‘ کہلاتے ہیں ، وہ بھی ٹرمپ کے حق میں  ہموار ہوئے۔ ان میں  میکسیکو اور کیوبا سے آنے والے خاندان ہیں  جو عرصہ دراز پہلے امریکہ میں  مقیم ہوئے۔ مَیں  نے تعصبات کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ انہوں  نے ٹرمپ کی حمایت میں  اتنے جوش و خروش کامظاہرہ نہیں  کیا جتنا کملا ہیرس کی مخالفت میں  کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کملا ہیرس خاتون ہیں  اور سفید فام نہیں  ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نتائج دیگر ملکوں  کے انتخابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ؟میرے خیال میں  اس سوال کا جواب اثبات میں  ہے کہ ہاں  ایسا ہوسکتا ہے۔ دیگر ملکوں  کے لیڈران بھی غیر شائستہ زبان کا استعمال کرسکتے ہیں  اور تقسیم پسندانہ طریق کار استعمال کرسکتے ہیں  کیونکہ ایسے ہی طرز عمل کی وجہ سے ٹرمپ نے غیر معمولی انداز میں  الیکشن جیتا ہے۔ اگر ٹرمپ ماڈل دیگر ملکوں  میں  پہنچا تو یہ وہاں  کی جمہوریت کو بُری طرح متاثر کرسکتا ہے۔   

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK