Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

شکریہ! ہندی کے اُردو دوستوں، ادیبوں اور صحافیوں کو

Updated: March 07, 2025, 1:25 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے اور اس زبان میں وہ سب کچھ ہے جو ہندوستان میں ہے۔ اس حقیقت کو سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی تسلیم کرتے تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جنوب کی ریاستوں  خصوصاً تمل ناڈو میں  ہندی کی مخالفت میں  شدت آرہی ہے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ نے ودھان سبھا میں  ایسا بیان دیا ہے جس سے الزام عائد ہوتا ہے کہ اُردو پڑھنے والا ’کٹھ ملا‘ ہوتا ہے اور مہاراشٹر میں  اقلیتی کمیشن کے سربراہ نے اُردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں  کو الزامات کے گھیرے میں  لانے کی کوشش کی ہے۔ اس روش کے خلاف اگر کسی نے بیان دیا ہے تو وہ ہندی کے ادیب، صحافی اور شاعر ہیں ۔ یوپی میں  بعض سیاستدانوں  نے بھی اُردو کیخلاف الزام تراشی پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے مگر خاموشی چھائی ہے تو اُردو داں  سیاستدانوں ، اُردو اسکولوں  کے ذمہ داروں  اور ادیبوں  شاعروں  پر۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم شکریہ ادا کریں  سچائی اجاگر کرنے والے ہندی ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں  اور دیگر لوگوں  کا۔ بے نقاب کریں  ان کٹھ ملاؤں  کو جنہوں  نے واقعی اُردو کو نقصان پہنچایا ہے۔ پھر سوال پوچھیں  اُردو والوں  سے کہ ان کی آبادی کروڑوں  میں  ہے مگر انہیں  اس مسئلے میں  سانپ کیوں  سونگھ گیا ہے؟ ہم احتجاج و اشتعال کی تحریک نہیں  دے رہے ہیں  بلکہ صرف یہ کہہ رہے ہیں  کہ اُردو کی تقریبات اور اُردو اکیڈمی میں  جگہ بنانے کی تو ہوڑ لگی رہتی ہے اُردو ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں ، ملی تنظیموں ، اُردو اداروں  اور شعبوں  نے یہ ضرورت کیوں  نہیں  سمجھی کہ دوسری زبان کے ادیبوں ، صحافیوں ، سیاستدانوں  کو ساتھ لے کر اس حقیقت کو عام کرنے کی کوشش کریں  کہ اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے اور اس زبان میں  وہ سب کچھ ہے جو ہندوستان میں  ہے۔ اس حقیقت کو سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی تسلیم کرتے تھے۔ وہ اسٹیج سے یا عوام میں  جس زبان میں  گفتگو کرتے تھے وہ اس زبان سے مختلف ہوتی تھی جس زبان میں  انہوں  نے ایک سے زائدہ موقعوں  پر خود مجھ سے گفتگو کی تھی۔
 چونکہ مَیں  سمجھتا ہوں  کہ اُردو کے بارے میں  خوش کن اعلانات و بیانات نے بھی ہمیں  نقصان پہنچایا ہے اس لئے ہمارے ذہن میں  صرف ایک سوال ہے کہ اس حساس مسئلہ میں  خود اُردو والوں  نے کیا کیا ہے؟ اُردو کی کوئی تقریب یا جلسہ ہو تو درجنوں  لوگوں  کے چہرے اتر جاتے ہیں  کہ انہیں  کیوں  نہیں  بلایا گیا، کچھ تو کچھ دے دلا کر اسٹیج پر نظر آنے یا قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، جو صاف صاف بات کرتا ہے اس کے بائیکاٹ کا نعرہ دیتے ہیں  مگر خود کوئی ایسا کام کبھی نہیں  کرتے جس سے اُردو کی بقاء کی سبیل پیدا ہو۔ اُردو کے کتنے ادارے اور شعبے جو اُردو سے محبت کا دم بھرنے والوں  کے ہاتھوں  میں  ہیں ، دم توڑ رہے ہیں ۔ اُردو تقریبات بے روح ہوتی جا رہی ہیں  مگر کچھ ارباب اختیار یا اقتدار کے لئے کوشاں  افراد خوشامدی ٹولہ کی منہ بھرائی اور اس منہ بھرائی کو اُردو کی خدمت قرار دیتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منہ بھرائی کرنے والے افراد ایسے لوگوں  کو پروان چڑھا رہے ہیں  جو اُردو کی نیک نامی کو بٹہ لگا رہے ہیں ۔ اگر ان میں  حمیت ہوتی تو اُردو والوں  کو جمع کرتے اور غیر اُردو داں  اُردو دوستوں  کا شکریہ ادا کرنے کے بعد یہ بھی آواز اٹھاتے کہ ایک بھارتی بھاشا یا ہندوستانی زبان کو فرقہ واریت سے کیوں  جوڑا جا رہا ہے؟ مگر ایسا کچھ نہیں  ہوا۔ کسی نے نہیں  کہا کہ اُردو پڑھنے سے کوئی ملا یا کٹھ ملا کیسے ہوسکتا ہے یا یہ کہ زبانوں  کا تعلق معاشرے سے ہوتا ہے مذاہب سے نہیں ۔
 اُردو اداروں  کے سربراہوں  کو چاہئے تھا کہ وہ حکومت اور عدالت دونوں  کا دروازہ کھٹکھٹائے کہ اُردو کے نام پر مختص فنڈ میں  خرد برد کرنے کا الزام ان پر کیسے لگایا جاسکتا ہے، انہوں  نے تو دوسری زبانوں  کو ذریعۂ تعلیم بنانے والوں  کے مقابلے زیادہ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا ہے مگر ان کا ایسا کرنا کئی سوالوں  کو جنم دے گا۔ ایسے سوالوں  کو بھی جنم دے گا جس کا جواب وہ نہیں  دے سکیں  گے اسی لئے خاموش ہیں ۔ شاید خاموش رہنا ان کی مصلحت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ یہ مقام ان کے لئے بھی خود احتسابی کا ہے جو مخلص اور اہل نہ ہوتے ہوئے بھی اُردو تقریبات کو اپنی تشہیر کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ۔ اس غلط فہمی کی تردید کی ضرورت ہی نہیں  سمجھی جا رہی ہے کہ خدانخواستہ اُردو حملہ آوروں  کے ذریعہ ہندوستان لائی گئی تھی اور اس زبان نے ملک کو تقسیم کیا تھا یا اس زبان کا پڑھنے والا ’کٹھ ملا‘ ہوتا ہے۔ ایسا کہنے اور سمجھنے والے اُردو، اس کی تہذیب اور وراثت کو سمجھتے ہی نہیں ۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی اس جرم میں  برابر کے شریک ہیں  جو اپنے اداروں  میں  اُردو کا گلا گھونٹ کر چند کٹھ ملاؤں  اور خوشامدیوں  کو اپنے گرد جمع کرتے اور دنیا بھر میں  اُردو دوست ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں  یا اُردو تقریبات کو صرف اپنی تشہیر کے لئے استعمال کرنے کے لئے کوشاں  رہتے ہیں ۔ ان کو نہ یقین ہے نہ وہ کسی کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں  کہ:
lاُردو ایک خودمختار زبان ہے اور اس خودمختار زبان نے دوسری زبانوں  سے الفاظ لئے بھی ہیں  تو اپنی شرط پر، مثلاً لفظ ’شکر‘ کی اصل عربی ہے مگر اُردو والوں  نے اس سے دو لفظ بنائے ہیں  ’شکر‘ اور ’شکریہ‘۔
lاُردو خالص ہندوستانی زبان ہے جس کی بنیاد کھڑی بولی پر رکھی گئی ہے اور اس زبان میں  وہ سب کچھ ہے جو ہندوستان میں  ہے۔ اس کو غیر ہندوستانی کہنا جہل اور تنگ نظری کا ثبوت دینا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: جنتا دل متحدہ کے وجود کو خطرہ ؟

lیہ کہنا کہ اُردو پڑھنے سے انسان ’کٹھ ملا‘ بنتا ہے نہ صرف تاریخ، روایت اور اُردو کے ہندو ادیبوں  کی نفی ہے بلکہ ان تمام غیر مسلم طلبہ اور طالبات کی بھی نفی ہے جو آج بھی اُردو ذریعۂ تعلیم سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں  یا اُردو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھتے ہیں ۔ کھیڑ مہاراشٹر کے ساحلی ضلع رتناگیری کا ایک حصہ ہے۔ یہاں  اے آر ڈی خطیب صاحب ایم آئی بی گرلز ہائی اسکول اور جونیئر کالج چلا رہے ہیں  (اُردو میڈیم)۔ روشنی رمیش بھوسلے، امیناد ہرمیش کامبلے اور سدھی ولاس بہوتولے یا تو آج بھی زیر تعلیم ہیں  یا یہیں  پڑھ کر اس قابل ہوئی ہیں  کہ کسی اور کالج میں  داخلہ لے سکیں ۔ کیا یہ ان کے ’کٹھ ملا‘ ذہنیت کی حامل ہونے کے سبب ممکن ہوا ہے؟
 یہ صحیح ہے کہ کچھ شہرت پسند اس زبان کو اپنی تشہیر کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں  یا اسکے کچھ ادیب و شاعر و صحافی سب کچھ اپنی ذات و مفاد کے حوالے سے دیکھتے ہیں  مگر ایسا کس زبان کے کچھ ادیب و صحافی نہیں  کرتے؟ ان کے ایسا کرنے سے ان کی زبان کی ہندوستانی بنیاد متزلزل نہیں  ہوتی تو اُردو کی کیوں ؟ مجھے خوشی ہے کہ کچھ لوگوں  کی بکواس کا جواب ہندی کے کچھ ادیبوں  اور صحافیوں  نے دیا ہے اور بڑے معقول انداز میں ۔ مَیں  ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں  مگر مجھے یہ قلق ضرور ہے کہ خود اُردو والوں  کو کیوں  سانپ سونگھے ہوئے ہے؟ کیا یہ ان کا فرض نہیں  ہے کہ دشمنانِ اُردو کو محبت اور دلائل سے جواب دیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK