• Mon, 18 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بائیڈن کی فلسطین پالیسی اور ہیرس کی ناکامی کا تعلق

Updated: November 18, 2024, 1:55 PM IST | ramze barod | Mumbai

اکثر مبصرین نے کملا ہیرس اور ڈیموکریٹس کی ناکامی کو مہنگائی اور غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلہ سے جوڑا ہے مگر اس مضمون میں مضمون نگار کا کہنا ہے کہ ایک وجہ بائیڈن انتظامیہ کی فلسطین پالیسی بھی ہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ڈیموکریٹس کو عرب اور مسلم امریکی ووٹروں  نے سبق نہیں  سکھایا۔ اُن کا اقتدار اِن لوگوں  نے نہیں  چھینا۔ اِنہوں  نے کملا ہیرس کو نہیں  ہرایا۔ اِنہوں  نے اگر کچھ کیا تو صرف یہ سمجھایا کہ فلسطین کو فراموش نہیں  کیا جاسکتا۔ یہ صرف عربوں  اور مسلمانوں  کا مسئلہ نہیں  ہے، انسانیت اور انصاف کے نقطۂ نظر سے امریکیوں  کا بھی ہے۔
 اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں  کہ پھر ڈیموکریٹس کو کس نے ہرایا تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ڈیموکریٹس کوخود اُنہوں  نے ہرایا ہے۔ اُن کی شرمناک شکست کا سبب حد سے بڑھی ہوئی اسرائیلی جارحیت اور غزہ میں  جاری نسلی تطہیر کو نہ روک پانے کی ناقابل انکار اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اخبار نیویارک ٹائمس کے ۷؍ نومبر کے شمارہ میں  صحافی پیٹر بینارٹ نے لکھا کہ ’’ڈیموکریٹس نے غزہ کو نظر انداز کرکے بہت بڑی ہار کی نیو رکھی۔‘‘
  پیٹر نے اپنے مضمون میں  یہ بھی لکھا کہ ’’اسرائیلی فوج کے ہاتھوں  غزہ کے بے گناہ شہریوں  کا قتل اور فلسطینیوں  کی بھوک پیاس کا سبب بننے والی جنگ کس کے پیسوں  پر ہوئی؟ کیا وہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ نہیں  ہے؟ یہ ساری باتیں  سوشل میڈیا پر گشت کرتی رہیں  جس کے نتیجے میں  عوام میں  ناراضگی پیدا ہوئی اور حقوق کی ایسی لڑائی لڑی گئی جس کی مثال آسانی سے نہیں  ملے گی۔‘‘ 
 بلاشبہ، امریکہ کی تاریخ میں  پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ فلسطین امریکہ کی داخلی سیاست کا موضوع بنا ۔ اب سے پہلے یہی ہوتا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں  امریکہ کی خارجہ پالیسی کو اسرائیل نوازوں  تک محدود رکھا جاتا تھا۔ اس بار ایسا نہیں  ہوا۔ عرب ووٹروں  کے علاوہ سیاہ فام اور دیگر اقلیتوں  نے بھی فلسطینی اُمور پر نہایت سنجیدگی اور دردمندی کے ساتھ غوروخوض کیا۔ انہوں  نے فلسطینیوں  کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد سے جوڑ کر دیکھا اور مشترکہ مزاحمت، اقدار اور اخلاقیات کو سامنے رکھا۔ برطانیہ کے مشہور اخبار انڈیپینڈنٹ میں  شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیموکریٹ پارٹی کے لوگ الیکشن جیتنے کیلئے اب نوجوان رائے دہندگان پر انحصار اور اعتبار نہیں  کرسکیں  گے کیونکہ کملا ہیرس کو ملنے والے ووٹوں  کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اُنہیں  ۱۸؍ تا ۲۹؍ سال کے نوجوانوں  نے نظر انداز کردیا۔ اس لئے کہ یہ طبقہ فلسطینیوں  کے درد کو سمجھ گیا ہے اور اُنہیں  اخلاقی مدد فراہم کرنے کا خواہشمند ہے جس کے سبب اُس کا ووٹنگ رجحان بدلا۔ آئندہ انتخابات میں  یہ حقیقت بالخصوص ڈیموکریٹس اوربالعموم امریکی سیاستدانوں  کو بہت پریشان کرے گی۔ نقصان تو ڈیموکریٹس کا ہوا ہے مگر اس کی وجہ سے پوری امریکی سیاست کو فکر لاحق ہوگئی ہے۔
 اخبارات میں  شائع ہونے والی خبریں ، رپورٹیں  اور مضامین ثبوت ہیں  کہ ڈیموکریٹس سے وابستہ نوجوان سیاستداں  بھی فلسطین نوازی کا رجحان رکھتے ہیں ۔ گزشتہ اپریل میں  مشہور تحقیقی ادارہ پیو ریسرچ نے ایک سروے کیا تھا جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوا تھا کہ امریکی طبقہ ٔ نوجواں  اسرائیلیوں  کے مقابلے میں  فلسطینیوں  کے تئیں  زیادہ جذباتی اور ہمدرد دکھائی دیتا ہے۔ بالغ امریکی شہریوں  میں  وہ لوگ جو ۳۰؍ سال سے کم عمر کے ہیں ، یا تو مکمل طور پر یا بڑی حد تک فلسطینیوں  سے ہمدردی رکھتے ہیں  جبکہ اسرائیلی عوام کے ہمدرد صرف ۱۴؍ فیصد ہیں ۔ ڈیموکریٹس نے الیکشن سے کئی ماہ پہلے ہونے والے اس سروے سے ماخوذ رجحانات کو اہمیت نہیں  دی بلکہ نوجوان ووٹروں  کے سپورٹ کو مان کر چلتے رہے کہ اُنہی کو حاصل ہوگا۔ یہ اُن کی غیر معمولی غلطی تھی۔ اس سلسلے میں  براؤن یونیورسٹی کی ایک رپورٹ، جس کا عنوان ’’جنگی منصوبے کی قیمت‘‘ ہے، اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے جنگ کے پہلے سال میں  اسرائیل سے کم از کم ۱۷ء۹؍ ارب ڈالر کی ملٹری ایڈ (جنگی اعانت) کا معاہدہ کیا ۔ اس کے علاوہ ’’پرو پبلیکا‘‘ نامی ایک اخبار کی تفتیشی رپورٹ میں  کہا گیا کہ امریکہ نے ۷؍ اکتوبر ۲۳ء کے بعد اسرائیل کو ۵۰؍ ہزار ٹن اسلحہ فراہم کیا۔ یاد رہنا چاہئے کہ ابھی تو انتخابی نتائج برآمد ہوئے ہیں ، تحویل اقتدار نہیں  ہوا مگر بائیڈن انتظامیہ ہارنے کے بعد اور اقتدار چھوڑنے سے پہلے بھی اپنی اسرائیل نوازی پر قائم ہے۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے محض چند گھنٹوں  بعد اسرائیلی وزارت دفاع نے امریکی اسلحہ سازوں  سے ۲۵؍ ایف ۱۵۱۔اے نامی جنگی جیٹ کی خرید کا معاہدہ کیا جس میں  یہ گنجائش رکھی گئی کہ اسرائیل مزید ۲۵؍ جیٹ خرید سکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو کسی قسم کی ندامت یا پچھتاوا نہیں  ہے۔ 
 وہ چاہے بائیڈن ہوں  یا ہیرس یا کوئی اور ڈیموکریٹ، اسرائیل کو دیئے گئے تعاون کا جس طرح چاہیں  جواز پیش کرسکتے ہیں  مگر اس حقیقت سے انکار نہیں  کرسکتے کہ اُ ن کے انتظامیہ نے غزہ میں  بے گناہ شہریوں  کے قتل عام کو مدد اور تعاون دیا اور اس کی پشت پناہی کی۔ یہ سب امریکی شہریوں  اور رائے دہندگان سے چھپا ہوا نہیں  تھا چنانچہ اُن کی بڑی تعداد نے ڈیموکریٹس کو ایسا جھٹکا اور ایسی سزا دی کہ اس پارٹی کو تا دیر پریشان کرے گی۔ 
 اس کا مطلب یہ نہیں  کہ جو سزا بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو ملی اُس سے ٹرمپ یا اُن کی پارٹی کوئی سبق سیکھیں  گے۔ جی نہیں ، اس بات کا کوئی امکان نہیں  ہے چنانچہ اس غلط فہمی میں  نہیں  رہا جاسکتا۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست کا بغور مشاہدہ کرنے والے جانتے ہیں  کہ ٹرمپ کے اولین دورِ اقتدار ہی میں  فلسطینیوں  کو بالکل حاشئے پر لانے کے منصوبے پر عمل شروع ہوچکا تھا۔ ٹرمپ ہی نے مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اسرائیل کو خود مختاری عطا کی تھی، غیر قانونی یہودی بستیوں  کو قانونی تسلیم کیا تھا، فلسطینیوں  کے خلاف مالی انتقام آرائی اور اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزیں  (اُنروا ) کو تباہ کرنے کی شروعات کی تھی۔ جس دن ٹرمپ فلسطین کے خلاف اپنی تباہ کن پالیسی دوبارہ شروع کرینگے، ایک اور جنگ اُسی دن شروع ہو جائیگی۔ اس لئے امریکی شہریوں  میں  جو نئے فلسطین نواز طبقات پیدا ہوئے ہیں  اُنہیں  ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں  کے آغاز کا انتظار نہیں  کرنا چاہئے کہ اگر ٹرمپ نے کچھ کیا تو وہ بھی دیکھ لیا جائیگا۔ نہیں ، ان طبقات کو فلسطینیوں  کے ساتھ یک جہتی کیلئے خود کو منظم کرنا ہوگا اور امریکی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ اس کا طور طریقہ ٹھیک ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK