• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بنگال میں بایاں محاذ کا زوال جاری

Updated: June 26, 2024, 1:15 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

سی پی آئی (ایم) کی قیادت والے بایاں محاذ نے مغربی بنگال میں مسلسل ۳۴؍ برسوں تک حکومت کر کے تاریخ رقم کی تھی۔ ۲۰۱۱ء میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے اسے راج سنگھاسن سے اتار پھینکا۔ اقتدار سے محرومی کا ایسا تباہ کن اثر ہوا کہ چند برسوں میں ہی بایاں محاذ کا شیرازہ بکھر گیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 مغربی بنگال میں  حالیہ لوک سبھا انتخابات میں  بی جے پی کی سیٹیں  اٹھارہ سے گھٹ کر بارہ رہ گئیں  اور کانگریس کو بھی دو میں  سے ایک سیٹ گنوانی پڑی تاہم بایاں  محاذ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس بار اسے کوئی خسارہ نہیں  ہوا۔ صوبے میں  ۴۲؍ پارلیمانی نشستیں  ہیں ۔ ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں  بایاں  محاذ اپنا کھاتہ نہیں  کھول سکا تھا۔ ۲۰۲۴ء میں  بھی بایاں  محاذ صفر پر ہی آؤٹ ہوگیا۔ 
سی پی آئی (ایم) کی قیادت والے بایاں  محاذ نے مغربی بنگال میں  مسلسل ۳۴؍ برسوں  تک حکومت کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ ۲۰۱۱ء میں  ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے اسے راج سنگھاسن سے اتار پھینکا۔ اقتدار سے محرومی کا ایسا تباہ کن اثر ہوا کہ چند برسوں  میں  ہی بایاں  محاذ کا شیرازہ بکھر گیا۔ حالیہ عام انتخابات میں  بنگال میں  بایاں  محاذ اور کانگریس نے سیٹوں  کا سمجھوتہ کیا تھاپھر بھی دونوں  پارٹیاں  اپنااپنا زوال نہیں  روک سکیں ۔ دونوں  کے ووٹ شیئر میں  گراوٹ آئی۔ کانگریس بڑی مشکلوں  سے ایک سیٹ بچا پائی لیکن بایاں  محاذ کی جھولی خالی رہی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات میں  بھی بایاں  محاذ ۲۹۴؍ اسمبلی نشستوں  میں  سے ایک سیٹ بھی نہیں  جیت سکا تھا۔اس بار اس نے زیرو پر آؤٹ ہونے کا ہیٹ ٹرک بنالیا۔
بایاں  محاذ کی شرمناک شکست سے یہ واضح ہوگیا کہ بنگال میں  جو کبھی سرخ قلعہ کہلاتا تھا وہاں  سرخ پرچم والی پارٹیوں  کے دن اب لد گئے ہیں ۔ بایاں  محاذ کی کارکردگی کتنی خراب تھی اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں  کہ ۳۰؍ امیدواروں  میں  سے ۲۸؍ کی ضمانتیں  ضبط ہوگئیں  اور ۲۹؍ امیدوار تیسرے نمبر پر آئے۔ 
 بایاں  محاذ سے کسی معجزے کی توقع ہرگز نہیں  تھی لیکن یہ امید کی جارہی تھی کہ سی پی آئی(ایم) کی کارکردگی پہلے سے بہتر ہوگی۔ اس بار سی پی ایم نے متعدد نئے چہروں  کو متعارف کروایا۔ یہ نوجوان امیدوار تعلیم یافتہ، مہذب اور سلجھے ہوئے مقرر تھے۔ انہوں  نے انتخابی مہم کے دوران محنت بھی کی اور ان کی انتخابی ریلیوں  میں  لوگوں  کی بھیڑ بھی اکٹھی ہوئی لیکن لگتا ہے کہ لوگوں  نے ووٹ ترنمول کانگریس اور بی جے پی کو دینا ہی بہتر سمجھا۔ کہنے کو اس بار بھی صوبے میں  ترنمول کانگریس، بی جے پی اوربایاں  محاذ۔ کانگریس اتحاد کے درمیان سہ طرفہ مقابلہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ترنمول کانگریس (۴۶؍فیصد) اور بی جے پی (۳۹؍فیصد)کے مجموعی ووٹوں  کا تناسب ۸۵؍فیصد رہا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقی مقابلہ ممتا اور مودی کی پارٹیوں  کے درمیان تھا۔ ۲۰۱۱ء میں  ترنمول کانگریس نے بایاں  محاذ کو مسند اقتدار سے اتار کر اپوزیشن بنچوں  پر بٹھا دیا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں  بی جے پی نے ۱۸؍ پارلیمانی سیٹیں  جیت کر بایاں  محاذ سے حزب اختلاف کا رتبہ بھی چھین لیا۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات میں  بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ بی جے پی ۷۷؍ سیٹیں  جیت کراپوزیشن پارٹی بن کر ابھری اور بایاں  محاذ کا صفایا ہوگیا۔
بنگال میں  سیاست پوری طرفہ دو محوروں  یعنی ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ تیرہ برسوں  تک مستقل اقتدار میں  رہنے کی وجہ سے ترنمول کانگریس کو anti-incumbency کا سامنا تھا۔ کرپشن اور مختلف محاذوں  پر گورننس کی ناکامیوں  کی وجہ سے ممتا حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی بھی تھی۔ دوسری جانب صوبے کی ایک بڑی آبادی مودی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں  کی وجہ سے بی جے پی سے بھی خفا تھی۔سی پی آئی (ایم) کے لئے یہ ایک عمدہ موقع تھا کہ وہ اس عوامی برہمی کا فائدہ اٹھاتھی لیکن وہ ایسا کرنے میں  ناکام رہی۔
ماضی میں  ایک طویل عرصے تک سی پی آئی (ایم) قیادت کانگریس اور بی جے پی سے یکساں  دوری بنائے رکھنے پر زور دیتی تھی۔ لیکن جب بی جے پی کی طاقت میں  بے پناہ اضافہ ہوگیا تو ہرکشن سنگھ سرجیت اور جیوتی باسو جیسے قد آور لیڈروں  نے لکیر کی فقیر بنی پارٹی سینٹرل کمیٹی اور پالٹ بیوروکو باور کرایا کہ کانگریس کو اچھوت سمجھنے کی پالیسی کی وجہ سے ملک میں  سیکولرزم، جمہوریت اور پارلیمانی نظام کا جنازہ نکل جائے گا۔ سرجیت اور باسو کے صائب مشوروں  کے نتیجے میں  ہی ۲۰۰۴ء میں  بایاں  محاذ نے کانگریس کی قیادت والی یوپی اے کی مخلوط حکومت کو اپنی حمایت دی تھی جس کے سبب بی جے پی کو دس برسوں  تک سیاسی بن باس جھیلنا پڑا۔اس وقت سی پی آئی (ایم) ترنمول کانگریس کے متعلق اسی مخمصہ کا شکار ہے۔ ایک طرف بایاں  محاذ اس بی جے پی مخالف انڈیا محاذ کا حصہ ہے جس میں  ترنمول کانگریس بھی شامل ہے دوسری جانب بنگال میں  اسے ترنمول کانگریس اور بی جے پی’’ ایک ہی سکے کے دو رخ‘‘ نظر آتے ہیں ۔ اپنے فرسودہ نظریہ کی پیروی کرتے ہوئے سی پی آئی (ایم) بنگال میں  بی جے پی اور ترنمول کانگریس دونوں  کو مساوی دشمن سمجھتی رہی۔ لیکن بنگال کے رائے دہندگان نے اس کے موقف سے اتفاق نہیں  کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بایاں  محاذ کے وہ لاکھوں  ووٹرز جن کے سامنے بی جے پی کو ہرانا اولین ترجیح تھی انہوں  نے سی پی ایم کے لیڈروں  کی باتیں  ان سنی کرکے ترنمول کانگریس کو ووٹ دیا۔حالانکہ سی پی ایم کے ایک اور مضبوط قلعہ کیرلا میں  اس وقت لفٹ ڈیمو کریٹک فرنٹ (UDF)کی حکومت ہے تاہم وہاں  بھی لوک سبھا الیکشن میں  بایاں  محاذ کی کارکردگی شرمناک رہی۔محاذ ۲۰؍ میں  سے صرف ایک سیٹ جیت سکا۔ وزیر اعلیٰ پینارئی وجین کا دعویٰ ہے کہ ووٹروں  نے یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو اسلئے ۱۸؍ سیٹیں  جتوادیں  کیونکہ ان کو یہ اعتماد تھا کہ کانگریس مرکز سے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے بہتر پوزیشن میں  ہے۔ میرا خیال ہے کہ بنگال کے ووٹروں  نے بھی ٹھیک یہی سوچ کر ممتا بنرجی کا دامن ۲۹؍سیٹوں  سے بھردیا کہ ترنمول کانگریس بی جے پی کو شکست دینے کی بہتر پوزیشن میں  ہے۔
 ۲۰۰۴ء میں  بایاں  محاذ کے اراکین پارلیمان کی تعداد ۶۰؍ سے زیادہ تھی جو ۲۰؍سال میں  گھٹ کر ۷؍رہ گئی ہے۔ بلامبالغہ بایاں  محاذکا وجود شدید خطرے میں  ہے۔ اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ وقت کے ساتھ قدم ملا کر نہیں  چل سکا اور اسی لئے وقت نے بھی اس کا ساتھ چھوڑدیا۔ سی پی آئی (ایم) کی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اکیسویں  صدی کے بازار میں  بیسویں  صدی کا مال نہیں  بکنے والا ہے جبکہ پارٹی کے لیڈرابھی بھی فرسودہ اور گھسے پٹے مارکسی نظریے سے انچ بھر بھی انحراف کرنے کو تیار نہیں  ہیں ۔ ملک کو بائیں  بازو کی سیاسی طاقت کی اس وقت پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ جب دائیں  بازو کے انتہاپسندانہ نظریات کے فروغ نے ملک کو بربادی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے تو ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ترقی پسند نظریات والی سیاسی طاقتوں  کا مستحکم ہونا بے حدلازمی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK