• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خودمختار فلسطینی مملکت کا قیام ناگزیر ہے

Updated: July 26, 2024, 1:27 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اب یورپی یونین نے نیتن یاہو پر نہ صرف سخت تنقید کی ہے بلکہ مسئلہ فلسطین کے دو مملکتی حل کو واحد حل قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ میں خود مختار فلسطینی حکومت کے قیام کی مخالفت کے باوجود عالمی سطح پر مملکت فلسطین کے قیام کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اسرائیل کی پارلیمنٹ نے ایک قرار داد پاس کرکے خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے منصوبے یا امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ قرار داد کی موافقت میں  ۶۸؍ اور مخالفت میں  ۹؍ اراکین نے ووٹ دیئے۔ یہ قرار داد اگرچہ پہلی مرتبہ پاس کی گئی ہے مگر اسرائیل کی ہر حکومت عملاً اسی کوشش میں  رہی ہے کہ اس کے پڑوس میں  کوئی فلسطینی ریاست قائم نہ ہو۔ اسی لئے اسرائیل فلسطین اور غزہ میں  عوام، اسکولوں  اور پناہ دینے والے خیموں  اور مرکزوں  کو نشانہ بنا رہا ہے کہ نہ رہیں  گے فلسطینی نہ کیا جائے گا فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے شام و فلسطین جیسے جنگ زدہ علاقوں  میں  بچوں  کی تعلیم اور راحت رسانی کا کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم کو بھی دہشت گرد قرار دیدیا ہے۔ ظاہر ہے یہ ہٹلر کی سوچ ہے مگر اس سوچ کا وہ نتیجہ برآمد نہیں  ہوا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔ تقریباً ۴۰؍ ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔ جو اب بھی رہ رہے ہیں  ان کے لئے غذا اور رہائش کا ہی نہیں  صاف پانی اور ہوا کا بھی مسئلہ بھی درپیش ہے۔ اسرائیل کے مسلسل ہوائی حملوں  سے بچنا اور اپنے شہیدوں  کی تجہیز و تکفین تو ایک بڑا مسئلہ ہے ہی اور پہلے ہی سے درپیش ہے اس کے باوجود حماس کے جنگجو بارودی سرنگوں  اور دور تک مار کرنے والے مارٹر گولوں  سے اسرائیلیوں ، ان کے فوجیوں  اور ٹینکوں  کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ دوسری طرف یرغمالوں  کی رہائی نہ ہونے کے سبب اسرائیلی شہریوں  میں  بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو حکومت کے خلاف تو اور زیادہ بے چینی ہے۔ جب سے یہ پتہ چلا ہے کہ نیتن یاہو، امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اور امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کرنے کے لئے ۲۴؍ جولائی کو امریکہ جا رہے ہیں  تب سے اس مطالبے میں  شدت آگئی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم یرغمال بنائے جانے والوں  کی رہائی کے لئے پہلے معاہدہ کریں  اور پھر امریکہ جائیں ۔ اس مطالبے میں  مزید شدت پیدا کرنے کے لئے یرغمال بنائے جانے والوں  کے اہل خانہ نے زیر حراست افراد کی تصویریں  بھی جاری کی ہیں ۔
 اسرائیل فلسطین جنگ اصل میں  ہٹ دھرمی، فوجی برتری، مظلوم کو خاموش و مجبور کر دینے کی حکمت عملی اور دوسری طرف اس عزم کے درمیان کی جنگ ہے کہ ’ہم جیتیں  گے، حقّا ہم اک دن حیتیں  گے‘۔ تمام تر مصائب و مشکلات کے باوجود فلسطینیوں  کا حوصلہ بلند ہے ان کے حق میں  اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔ کئی ممالک فلسطین کو خودمختار مملکت کے طور پر تسلیم بھی کرچکے ہیں  مگر اسرائیل کے عوام میں  عدم تحفظ کا احساس، بے خوابی اور اسرائیل کی حکومت کے خلاف بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ شاید یہ بھی سمجھتے ہیں  کہ خودمختار فلسطینی مملکت کے خلاف قرار داد اسی لئے منظور کی گئی ہے کہ اسرائیل کے انتہا پسندوں  کو تسلی دی جاسکے حقیقت بھی یہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جس قرار داد کے ذریعہ اسرائیل کا قیام عمل میں  آیا تھا۔ وہ فلسطین کو ختم اور فلسطینیوں  کو در در بھٹکنے پر مجبور کر دینے کی نہیں  بلکہ فلسطین کو دو حصوں  میں  تقسیم کر دینے کی قرار داد تھی۔ یہ تسلیم کہ اقوام متحدہ ایک بے اثر ادارہ بن کر رہ گیا ہے مگر یہ سوال تو بہرحال پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی قرار داد اور منصوبے کو پامال ہوتے کیسے دیکھ سکے گا؟ یہاں  دو مزید سوالات پوچھے جاسکتے ہیں : پہلا یہ کہ دنیا کے کئی ملکوں  نے خودمختار مملکت کے طور پر فلسطین کو تو قبول کیا لیکن عرب اور مسلم ملکوں  کا کیا رویہ ہے ان کو فلسطینیوں  کی آزادانہ حیثیت اور آزاد مملکت کو قبول کرنے سے کس نے روکا ہے؟ دوسرا یہ کہ چین اور روس کا کئی عرب ملکوں  کے سربراہوں  نے دورہ کیا۔ کئی اجلاس ہوئے مگر اسرائیل اور امریکہ، روس و چین کی طرف عرب اور مسلم ملکوں  کی بڑھتی رغبت سے خوفزدہ کیوں  نہیں  ہیں ؟ کہیں  ایسا تو نہیں  کہ وہ سمجھتے ہیں  کہ ’یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں ‘۔
 یہ صحیح ہے کہ فلسطین کو جو مالی مدد مل رہی ہے یا اس کی طرف سے جو ملک سفارتی مہم چلا رہا ہے وہ سعودی عرب ہے اور جو ملک فلسطینیوں  کو جنگی تربیت اور اسلحہ دے رہا ہے وہ ایران ہے۔ دونوں  کی اہمیت ہے اور دونوں  قابل قدر ہیں  مگر چین و روس کی ہمنوائی کرنے والے سارے ملک فلسطینی مملکت کو تسلیم کرلیتے اور عرب و مسلم ممالک نیز انصاف پسند دوسرے ممالک بھی ان کا ساتھ دیتے تو اور بات ہوتی۔ جن ملکوں  نے مملکت فلسطین کی آزادانہ یا خودمختار حیثیت کو تسلیم کیا ہے یا جس نے عالمی عدالت (آئی سی جے) سے رجوع کیا ہے وہ مسلمان ہیں  نہ عرب۔ اسی طرح جو یہودی فلسطین اور فلسطینیوں  کے حق میں  اسرائیل اور اسرائیلی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں  وہ اسرائیلی حکمرانوں  کے ہم مذہب ہیں  مگر اسرائیل کے حکمرانوں  کا ہم مذہب ہونا ظالم اور ظلم کی مذمت کے خلاف ان کی راہ کا روڑا نہیں  بن سکا ہے۔ ۲۶؍ جنوری ۲۰۲۴ء کو جنوبی افریقہ کے دائر کئے ہوئے مقدمے میں  انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس فلسطینیوں  کی نسل کشی روکنے اور ان کو بلا رکاوٹ امداد پہنچانے کی مشاورت جاری کر چکا ہے۔ اب یورپی یونین نے بھی نیتن یاہو پر نہ صرف سخت تنقید کی ہے بلکہ مسئلہ فلسطین کے دو مملکتی حل کو واحد حل قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ میں  خود مختار فلسطینی حکومت کے قیام کی مخالفت کے باوجود عالمی سطح پر مملکت فلسطین کے قیام کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔
 اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل بدترین نسل کشی کے باوجود فلسطینیوں  میں  جان کا خوف پیدا کرسکا ہے نہ دوسرے ملکوں  میں  اپنی اپنی سرحدوں  کو محفوظ رکھنے کی طمع۔ فلسطینی لڑ رہے ہیں  اور ایک بڑی طاقت کے دباؤ کے باوجود دنیا کے کئی ممالک مملکت فلسطین کے قیام اور استحکام کو مسئلہ فلسطین کا واحد حل سمجھتے ہیں ۔ جو ممالک اس خوف میں  مبتلا ہیں  کہ اسرائیل ان کا جغرافیہ تبدیل کر دے گا ان ملکوں  کے عوام اپنے سربراہوں  کا حلیہ تبدیل کر دیں  گے۔ مملکت فلسطین کا قیام اور استحکام تو ناگزیر ہے۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ میں  ایک قرار داد پاس کر دینے سے اس کو روکا نہیں  جاسکتا بشرطیکہ فلسطینی اپنا مقدر خود لکھنے کے فیصلے پر اٹل رہتے ہوئے ہر قسم کی جدوجہد کرتے رہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK