• Sat, 16 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسرائیل فلسطین جنگ کا بڑھتا دائرہ

Updated: October 11, 2024, 1:52 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

بلاشبہ جنگ کے پھیلنے سے فلسطین، لبنان اور دیگر متعلقہ ملکوں کو سخت دشواریوں کا سامنا ہے بالخصوص وہاں کے عوام کو مگر ایسا نہیں کہ صرف یہی لوگ پریشان ہیں۔ مشکلات اور پریشانی اسرائیل کے عوام کو بھی ہے جو اَب سے پہلے جنگ کے باوجود چین کی زندگی گزارتے تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 جو جنگ غزہ سے شروع ہوئی اور غزہ کی مکمل تباہی کا سبب بنی، اب وہ ایران، حزب اللہ اور حوثی کے توسط سے ایران، لبنان ، یمن یعنی تین ملکوں  کے ایک فریق کی حیثیت سے اس میدان جنگ میں  اسرائیل کے سامنے آجانے کے مترادف ہے جس میدان جنگ میں  ایک طرف اسرائیل کی مسلح افواج تھیں  اور دوسری طرف فلسطین یا غزہ کے بوڑھے، بچے ، عورتیں ، بیمار اور معذور افراد جنہیں  اچھی غذا تو دور پینے کو صاف پانی بھی میسر نہیں  تھا۔ اسرائیل غزہ کے عوام پر جو حملے کرتا تھا ان کی حیثیت اپنے ہی ملک کے عوام کے ایک حصے پر حملے جیسی تھی مگر یمن ، لبنان اور ایران پر یا ان ملکوں  سے کئے جانے والے حملوں  کی نوعیت الگ ہے۔ اس مضمون میں  صرف تین نکتوں  پر توجہ مرکوز کرنا مطلوب ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ کیا اسرائیل کی معیشت جنگ کے سبب بڑھتے اخراجات کے بوجھ کو برداشت کر سکتی ہے؟ اس نکتہ پر غور کرتے ہوئے مندرجہ ذیل حقائق کو ذہن میں  رکھنا ضروری ہے۔ 
l اسرائیل پر جو قرض ہے وہ اس کی جی ڈی پی کا ۶۲؍فیصد ہے۔ یہ قرض مزید بڑھ رہا ہے اس لئے ریٹنگ ایجنسیاں  اسرائیل کی ریٹنگ گھٹا رہی ہیں ۔
lپچھلے سال حماس کے خاتمے کے نام پر جو جنگ شروع ہوئی تھی اس کے نتیجے میں  اسرائیل نے ۸۰؍ ہزار فلسطینیوں  کے کام کرنے کے اجازت نامے کو رد کردیا تھا جس کی وجہ سے کانسٹرکشن انڈسٹری (تعمیراتی صنعت) تقریباً ۴۰؍ فیصد کم ہوچکی ہے۔ یہی حال ہائی ٹیک اور دوسری کمپنیوں  کا بھی ہے۔
l اگست میں  اسرائیل بڑھتی مہنگائی سے جوجھ رہا تھا جو ۳ء۶؍فیصد کی سطح پر پہنچ چکی تھی۔ اگریہ سلسلہ جاری رہا اورجنگ ہوتے رہنے کی صورت میں  اس کا بڑھتے رہنا ضروری ہے تو اسرائیل کے شیکل (کرنسی) کی قیمت گرجائے گی۔ بینکوں  کو اپنے ریزرو کا استعمال کرنا پڑسکتا ہے۔
lاسرائیل کی مسلح افواج نےمارچ میں  ۱۶؍ بلین ڈالر کی مانگ کی تھی جو اس کی جی ڈی پی کا ۳؍فیصد ہے۔ جنگ کے بعد تو مسلح افواج کو ۸؍ بلین ڈالر کی ضرورت پیش آئے گی تاکہ وہ تحفظ کو یقینی بناسکیں  اس سے ملک کے خزانے پر مزید بوجھ پڑے گا۔ ملکی خزانہ پر بوجھ پہلے ہی جی ڈی پی کا ۸ء۱؍ فیصد ہے۔
l ہندوستان میں  بیٹھے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں  کہ دہشت صرف اسرائیل کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل بھی دہشت زدہ ہے کہ جنگ تل ابیب اور یروشلم تک پہنچ چکی ہے۔ اسرائیلی عوام میں  دہشت اور عدم تحفظ کا یہ حال ہے کہ صرف مئی سے جولائی تک انہوں نے اسرائیلی بینکوں  سے دو ارب ڈالر نکال کر غیرملکی بینکوں  کو بھیجے ہیں  کہ معلوم نہیں  کب انہیں  اسرائیل چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے۔ جنگ بڑھنے کی صورت میں  مزید رقوم اسرائیلی بینکوں  سے نکال کر باہر کے بینکوں  کو بھیجی جاسکتی ہیں ۔
  ان تمام حقائق کے مدنظر یہی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ ، اس کے حلیف ممالک اور دنیا بھر کے ان لوگوں  کی مالی امداد کے باوجود جو اسرائیل کو ’’ ارض موعودہ ‘‘ سمجھتے ہیں  اسرائیل کی معیشت مسلسل خراب ہورہی ہے ۔ اپریل اور جون میں  جی ڈی پی گروتھ (کل پیداوار میں  اضافہ ) محض ۰ء۷؍ فیصد رہا ۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کی معیشت حوثی، حزب اللہ اور ایران سے مسلسل جنگ کی صورت میں  پوری طرح تباہ ہوسکتی ہے۔ 
  دوسرا نکتہ جو قابل غور ہے وہ یہ کہ اگراسرائیل کے خلاف جوابی جنگ بڑھی تو عرب ملکوں  کا کیا رویہ ہوگا؟ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی اسرائیل کے ساتھی ہیں  اور دوسری طرف سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین ، قطر، عمان اور چھ ملکوں  کی کوآپریشن کاؤنسل نے لبنان پر حملے کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ان کے لئے لبنان کو تنہا چھوڑنا ممکن نہیں  ہے۔
 دوسرے ملکوں  اور خطوں  میں  بھی فلسطینیوں  سے ہمدردی وخیر سگالی کا جذبہ بڑھا ہے۔ پوپ فرانسس نے تو لبنان پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ عراق اور شام کی حکومتیں  ایران نواز ہیں  تو مصر مغرب نواز سمجھا جاتا ہے مگر دوسرے ممالک بھی جن پر ایسا کوئی ٹھپّہ نہیں  لگا ہے جنگ کی صورت میں  غیرجانبدار نہیں  رہ سکتے۔ ایک بات اور کہ اسرائیل ۔ ایران جنگ کی صورت میں  عرب حکومتوں  کا چاہے جو موقف ہو مگر سب کے عوام اسرائیل کی جارحانہ اور ظالمانہ پالیسیوں  کے خلاف صف آرا ہوں  گے۔ 
 جنگ کے دوران اگر عوام بے قابو رہتے ہیں  تو کوئی بھی حکومت ان پر قابو نہیں  پاسکتی۔ اس لئے امن اور جنگ بندی کی با ت کی جارہی ہے مگر امن اور جنگ بندی کی بات کرنے والے یہ نہیں  بتاتے کہ سب کچھ پہلے ہی جیسا رہا تو فلسطینی ریاست کا قیام کیسے عمل میں  آئے گا؟ فلسطینیوں  کو ان کا حق کون دلائے گا، کیا ان کی قربانیاں  رائیگاں  جائیں  گی؟
 

یہ بھی پڑھئے: بہارمیں ’’جن سوراج‘‘: امکانات وخدشات

تیسرا نکتہ جو قابل غور ہے یا وہ سوال جو جواب چاہتا ہے یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں  گزشتہ ایک سال سے جو ہورہا ہے یا اسرائیل نے اپنی جو جارحانہ کارروائیاں  جاری رکھی ہیں  وہ تھمیں  گی کیسے ؟ اسرائیل کی فوجوں  نے ان دنوں  ایک نمائش لگا رکھی  ہے۔ اس میں  وہ ساز و سامان رکھا گیا اور  دکھایا جارہا ہے جو اسرائیلی فوجوں  نے حماس سے چھینا ہے ، ان کا مقصد شاید یہ باور کرانا تھا کہ ان کی جنگی مہم یونہی نہیں  ہے اوران کے سامنے مسلح افراد ہیں ۔ اگر اسرائیلی فوجیں  اقدام نہ کرتیں  تو حماس کا قلع قمع نہ ہوتا مگر اسرائیل کے عوام  اپنی حکومت سے الٹے یہ سوال کررہے ہیں  کہ بیشک آپ نے فلسطین اور حماس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے مگر وہ یرغمال کب آزاد کئے جائیں  گے جن کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ اس سوال کا جواب اسرائیل کے پاس نہیں  ہے۔ اس سے ایک طرف تو دنیائے انسانیت اس کے خلاف صف آرا ء ہورہی ہے اور دوسری طرف خود اس کے عوام میں  اس کا بھرم ختم ہورہا ہے۔
اب تک خوف، بے خوابی اور مہنگائی صرف اہل عرب و فلسطین کا مقدر تھا مگر اب اسرائیلی فوجی اور عوام بھی خوف اور بے خوابی میں  مبتلا ہیں ۔ اب تک ۴۳؍ ہزار فلسطینی اور ۱۴۰۰؍ لبنانی فوت ہوچکے ہیں  مگر ان میں  وہ خوف اور اندیشہ نہیں  ہے جو اسرائیلیوں  میں  ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ اسرائیلیوں  کا یہ خواب ٹوٹ چکا ہے کہ وہ جنت میں  ہیں ۔ اب ان کا دن رات کا تجربہ یہ ہے کہ وہ جہنم میں  ہیں  اور جیسے جیسے جنگ کا دائر ہ بڑھ رہا ہے یا مدت گزررہی ہے اُن کے مسائل بڑھ رہے ہیں  اور وسائل میں   کمی آرہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK