• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اگلے امریکی صدر کا معاملہ، کیا بائیڈن پیچھے ہٹیں گے؟

Updated: July 07, 2024, 1:44 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

جو بائیڈن اس بات پر اَڑے ہیں کہ ٹرمپ کو وہی ٹکر دیں گے اور اُنہیں کے نام کو حتمی قرار دیا جائے مگر بہت سے لوگ اُن کی صحت کے تعلق سے فکرمند ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

امریکی صدر جو بائیڈن کی عمر ۸۱؍ سال ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود اُن کا اصرار ہے کہ وہ دوبارہ صدارت کی کرسی پر براجمان ہوں۔ اُن کے ساتھ دوہرا مسئلہ یہ ہے کہ خود اُن کی پارٹی کے لوگ چاہتے ہیںکہ وہ دستبردار ہوجائیںکیونکہ وہ نہ صرف یہ کہ معمر ہوچکے ہیںبلکہ اس قابل بھی نہیںہیںکہ امریکی صدارت کے تقاضوںاور ذمہ داریوںکو پورا کرسکیں۔ بائیڈن جسمانی صحت برقرار رکھنے کی کوشش کرلیںتب بھی ذہنی صحت کا کیا بنے گا؟ کیا وہ ذہنی صحت کو برقرار رکھ سکیںگے؟
 پارلیمانی جمہوریتوںمیںوہاںکے لیڈروںکی عمر کے بارے سوالات کرنا اب عام ہے مگر امریکی صدور سے اس نوع کے سوالات  زیادہ پوچھے جاتے ہیںکیونکہ اُنہیںغیر معمولی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ رونالڈ ریگن جب صدارت کی دوسری میعاد کیلئے انتخابی مہم چلا رہے تھے تب اُن کی عمر ۷۳؍ سال تھی۔ اسی لئے میںنے کہا کہ مسئلہ عمر سے زیادہ ذہنی صحت کا ہے۔ ریگن ۷۳؍ سال میںبھی چاق و چوبند تھے اور سوال کرنے والوںکا جواب دیتے تھے جبکہ بائیڈن  ایک حالیہ مباحثہ کے دوران کافی مضمحل اور سست نظر آئے۔
 رونالڈ ریگن سے ایک بار ایک صحافی نے پوچھا تھا کہ ’’آپ تاریخ کے سب سے عمر رسیدہ صدر ہوچکے ہیں‘‘ تو ریگن نے جواباً جو کہا اُس جملے کی شہرت آج تک ہے۔ اُنہوںنے کہا تھا کہ ’’مَیںچاہتا ہوںکہ آپ یہ جان لیںکہ انتخابی مہم کے دوران مَیںاپنی عمر کو موضوع بحث نہیںبننے دوںگا۔ مَیںنہ تو اس کا نہ ہی اپنے مخالف اُمیدوار کی جواںسالی اور ناتجربہ کاری کا فائدہ اُٹھاؤںگا۔‘‘ 
 ریگن اپنے دوسرے دور کی صدارت کے اختتام پر جتنے عمر رسیدہ تھے، بائیڈن پہلے دور کی صدارت کے اختتام پر اُس سے زیادہ عمر رسیدہ ہیں۔ امریکی آئین میںیہ تو درج ہے کہ صدارت کے اُمیدوار کی کم سے کم عمر کتنی ہونی چاہئے ( ۳۵؍ سال) مگر زیادہ سے زیادہ عمر کی کوئی قید نہیںرکھی گئی ہے۔تاہم، بائیڈن اور ٹرمپ سے پہلے، کئی جواںسال صدر بھی امریکہ میںہوئے ہیںمثلاً اوبامہ۔ جب بارک اوبامہ نے عہدہ کا حلف لیا تھا، اُن کی عمر ۴۷؍ سال تھی۔ بش نے ۵۴؍ سال کی عمر میںعہدہ کا حلف اٹھایا تھا جبکہ کلنٹن نے ۴۶؍ سال کی عمر میں۔ جو بائیڈن کی ٹیم کے لوگوںمیںکملا ہیرس ۵۹؍ سال، وزیر خارجہ ٹونی بلنکن ۶۲؍ سال، وزیر مالیات جینیٹ ییلن ۷۷؍ سال اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن ۷۰؍ سال کے ہیں۔ آخر الذکر کو حالیہ عرصے میںصحت کے مسائل لاحق رہے، وہ اسپتال داخل بھی ہوئے مگر کم ہی لوگوںکو اس کی خبر ہونے دی گئی۔
 اس کے برخلاف، برطانیہ کی نئی کابینہ میں، جو رشی سونک کی شکست کے بعد نئے وزیر اعظم کیر اسٹارمر کی قیادت میںبنی ہے، کافی جواںسال وزراء موجود ہیں۔ نائب وزیر اعظم انگیلا رینر کی عمر ۴۴؍ سال، وزیر مالیات ریشل ریوس کی عمر ۴۵؍ سال، وزیر داخلہ یویٹ کوپر ۵۵؍ سال اور وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کی عمر ۵۱؍ سال ہے۔ اس کے علاوہ دو وزیر ہیںجن کی عمر ۴۱؍ اور ۴۰؍ سال ہے۔ خود نئے وزیر اعظم اسٹارمر ۶۱؍ سال کے ہیںاور اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ بائیڈن کے مقابلے میںکافی جوان ہیں۔
 ہمارے ملک میں، وزیر اعظم نریندر مودی آئندہ سال ۷۵؍ سال کی عمر کو پہنچ جائینگے۔ تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد اپنی کابینہ میںانہوںنے کوئی نمایاںتبدیلی نہیںکی ہے، وزراء تقریباً وہی ہیںجو پہلے تھے۔ اہم ترین وزراء میںسب سے کم عمر امیت شاہ (۵۹؍ سال) ہیں۔ اس کابینہ میںوزیر دفاع راج ناتھ سنگھ ہیںجو عمر کی ۷۲؍ ویںبہار دیکھ رہے ہیں، جبکہ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن (۶۴؍ سال)، ایس جے شنکر (۶۹؍ سال) اور نتن گڈکری (۶۷؍ سال) بھی ہندوستانی سیاست کا طویل دور دیکھ چکے ہیں۔
 لوَٹتے ہیںامریکی صدارتی انتخاب کی طرف۔پارلیمانی جمہوریتوںمیں، جن کا کوئی ایسا سربراہ ہوتا ہے جو پارلیمنٹ سے وابستہ ہو، اُسے کم طاقتور سمجھا جاتا ہے اور اُسے اندرونی طور پر جوابدہ بھی ہونا پڑتا ہے بہ نسبت صدارتی نظام حکومت کے جس میںصدر کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اسی لئے اِس عہدہ پر ایک ایسے شخص کا فائز ہونا ضروری بلکہ لازمی ہے جو جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل چاق و چوبند ہو۔ بہت سے امریکیوںکو یہ تشویش لاحق ہورہی ہے کہ اگر بائیڈن اپنے اصرار پر قائم رہے اور صدارتی انتخاب سے پیچھے نہیںہٹے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ کے مراحل نیز ٹرمپ کے مقابلے میںہونے والے مباحثوںمیںوہ کوئی مؤثر کردار ادا کرپائیںگے یا نہیںاور چونکہ الیکشن میںابھی کئی ماہ باقی ہیںاس لئے ان مہینوںمیںبائیڈن خود کو فعال رکھ سکیںگے یا نہیں؟ اگر انتخابی شیڈول کے مطابق پولنگ آئندہ ماہ ہوتی اور اُن کی جسمانی اور ذہنی صحت کے تعلق سے تشویش لاحق ہوتی تو اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا مگر ابھی الیکشن کے کئی مراحل باقی ہیں۔ 
 اگروہ صدارتی الیکشن لڑنے کی ضد پر قائم رہے تو بلاشبہ اُن کے حامی اُن کی ضد کا ساتھ دیںگے مگراُن کی پارٹی کے جو نمائندگان ریاستی سطح پر منتخب ہوچکے ہیںاور جو اَب الیکٹورل پینل کی حیثیت میںہوںگے، یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ ڈیموکریٹ کے صدارتی اُمیدوار کی حیثیت سے کسی اور شخصیت کا انتخاب کریں۔ 
 کو ن ہوسکتا ہے صدارتی اُمیدوار۔ اس سلسلے میںنام تو کئی ہیںمگر ٹرمپ کا مقابلہ کون کرے؟ نائب صدر کملا ہیرس صدارت کی دوڑ میںآسکتی ہیںلیکن اُن کی عوامی شہرت اتنی نہیں۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم کا نام بھی اہم ہے۔ اُن کے علاوہ بھی لوگ ہیںمگر ان کی شہرت ریاستی لیڈروںکی ہے۔ اگر قرعۂ فال ان میںسے کسی کے نام نکلا تو اُس کے پاس بہت کم وقت رہے گا جس میںاُسے پورے ملک کیلئے خود کو قابل قبول بنانے کا چیلنج ہوگا۔
 بیرونی دُنیا کیلئے یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ڈیموکریٹ کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ٹرمپ فتح کا راستہ ہموار کرتے ہیںیا شکست کا۔ بائیڈن کو پہلے اپنی پارٹی کو اور پھر امریکی عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ وہ بھلے ہی پہلے جیسے متحرک اور چاق و چوبند نہیںہیںمگر اپنی ذمہ داریوںکو احسن طریقے سے انجام دیںگے اور چار سال تک خود کو فعال رکھیںگے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK