حتمی جواب تو عدالت عالیہ یا ماہرین قانون ہی دیں گے مگر اس ضابطے کے دائرۂ نفاذ کے بڑھنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
EPAPER
Updated: November 22, 2024, 1:54 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
حتمی جواب تو عدالت عالیہ یا ماہرین قانون ہی دیں گے مگر اس ضابطے کے دائرۂ نفاذ کے بڑھنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کسی قانونی معاملے یا عدالتی فیصلے کے تجزیے کا جو انداز ماہرین قانون اور وکلاء کا ہوسکتا ہے وہ دوسروں کا نہیں ہوسکتا اس لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ راقم الحروف بشمول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تمام اقلیتی تعلیمی اداروں کے اقلیتی کردار کے حق میں ہے اور اس کو باقی رکھے جانے کی پُر زور تائید کرتا ہے مگر جہاں تک سپریم کورٹ کے حالیہ (۸؍ نومبر ۲۰۲۴ء) فیصلے کا تعلق ہے اس میں بہت کچھ ایسا ہے جس کی تشریح مستقبل میں ہوگی مثال کے طور پر ۱۹۶۷ء کے عزیز باشا معاملے میں عدالت عالیہ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور دستورِ ہند کی دفعہ ۳۰ (۱) کے تحت اقلیتوں کو تعلیمی ادارہ قائم کرنے اور چلانے کے دیئے گئے حقوق کے مطابق اس کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ فیصلہ غلط تھا مگر اس غلط فیصلے کی بنیاد پر کئی اور غلط فیصلے دیئے گئے۔ یہ فیصلہ اس لئے غلط تھا کہ ہندوستان کی آزادی ہندوستانیوں کی صدیوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ تھی اس لئے انڈین انڈپنڈنٹس ایکٹ ۱۹۴۷ء کو جو برطانوی پارلیمنٹ میں پاس ہوا تھا واقعہ تسلیم کرتے ہوئے بھی یہ کہنا غلط ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستانیوں کو ملک کی آزادی تحفے میں دی تھی۔ اسی طرح مسلم یونیورسٹی اگرچہ برطانوی پارلیمنٹ میں پاس کئے گئے قانون کے تحت وجود میں آئی تھی مگر اس کے پس پشت سرسیّد احمد خاں کا خواب اور ان کے علاوہ ان کے رفقاء کی جدوجہد بھی تھی۔ ’مدرستہ العلوم‘ اور محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کی شاندار روایت اور حکومت کی اس کو دی گئی حمایت بھی تھی۔
کانگریس حکومت نے اس فیصلے کی خامیوں اور غلطیوں کو دور کرنے کے لئے ۱۹۸۱ء میں پارلیمنٹ میں ایک مسودہ قانون پیش کیا جو پاس ہوگیا، جلسے جلوس ہوئے، اس ترمیم کا استقبال ہوا مگر ۱۹۶۷ء کے فیصلے کی ذہنیت مسلم یونیورسٹی کے وجود پر آسیب کی طرح مسلط رہی۔ اسی لئے چیف جسٹس چندر چڈ کو اس مقدمے کی سماعت کے آخری دن جس کا فیصلہ ۸؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو سنایا گیا ہے۔ کہنا پڑا تھا کہ ۱۹۸۱ء میں پارلیمنٹ نے مسلم یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ پاس کرتے ہوئے بے دلی کا مظاہرہ کیا ورنہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ اسی ترمیمی قانون کے ذریعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طے ہوجاتا۔ جب پارلیمنٹ میں مسلم یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ پاس ہوا اس وقت کافی نامی گرامی شخصیات اور قانون کے ماہرین حکومت اور اس وقت کی حکمراں جماعت کے رابطے میں تھے اس کے باوجود ایک کمزور ترمیمی ایکٹ پاس کر دیا جانا حیرت کی بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کمزور قانون کو پاس کرکے مسلمانوں پر احساس جتایا جا رہا تھا کہ حکومت و حکمراں جماعت نے ان پر مہربانی کی۔ کمزوری اور بدنیتی کا انجام یہ سامنے آیا کہ ۲۰۰۶ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے تمام ترمیموں کو رد کر دیا۔ اس کے بعد عزيز باشا معاملے کا ازسرنو حوالہ دیا جانے لگا جو مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خاتمے کا اعلان کرتا تھا۔ ایسی صورت میں اس وقت کی حکومت (یو پی اے) اور مسلم یونیورسٹی نے ۲۰۰۶ء کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ لیکن ۲۰۱۴ء میں جب حکومت تبدیل ہوئی تو نئی حکومت نے ۲۰۱۶ء میں نہ صرف اپنا موقف بدل دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ اس نے ۱۹۸۱ء کے ترمیمی ایکٹ کی حمایت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ مگر ۸؍ نومبر ۲۰۲۴ء کے فیصلے میں ۱۹۶۷ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ یہی نہیں اس فیصلے میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا تعین کرنے کے لئے تین رکنی بینچ قائم کرنے اور اقلیتی کردار سے متعلق نئے ضابطے متعین کرنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔
ہمارے ملک میں قانونی اعتراض کو احتجاج اور قانونی فیصلے کو جشن کی صورت عطا کرنے کا رجحان عام ہے اس لئے یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ وہ تمام افراد اور جماعتیں جو مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی حمایت کرتی ہیں اس وقت عالم محشر میں ہیں یا ان کے لئے یہ گھڑی محشر کی ہے۔ وہ کیا ضابطے ہوں جن سے مسلم یونیورسٹی کے ہی اقلیتی کردار کو نہیں بلکہ ان تمام اداروں کے اقلیتی کردار کو بھی ٹھیس نہ پہنچے جنہیں کسی جماعت نے قائم کیا تھا اور جو حکومت سے مالی مدد بھی حاصل کرتی رہی ہیں ۔ یہ بہت بڑا سوال ہے؟
ہمارے ملک میں جہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو قانون یا دستور کی دفعہ کی جس کے تحت اقلیتوں کو کچھ عطا کرنے کی گنجائش ہوتی ہے غلط تشریح کرتے ہیں وہیں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اقلیتی ادارے کی انتظامیہ کا رکن بن کر یا انتظامیہ میں گھس پیٹھ کرکے من مانی کرتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے اشارہ کر دیا ہے کہ اقلیتی تعلیمی ادارہ بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اس کو قانون کے مطابق ہی چلایا جاسکتا ہے۔ جو لوگ اقلیتی تعلیمی ادارہ کے اقلیتی کردار کی دہائی محض اس لئے دیتے ہیں کہ من مانی کرسکیں یا خوشامد کرنے والوں کو نواز سکیں وہ قانون کی غلط تشریح کرنے والوں کے مقابلے چھوٹے مجرم نہیں ہیں ۔ انہیں شاید یاد نہیں ہے کہ جس بینچ نے حالیہ فیصلہ سنایا ہے اسی بینچ کے تین جسٹس صاحبان نے اپنے فیصلوں میں لکھا ہے کہ دو جسٹس صاحبان کی بینچ کی طرف سے ۷؍ رکنی بینچ کو یہ مقدمہ ریفر کرنا غلط تھا، اس کو پہلے تین رکنی بینچ کو بھیجنا چاہئے تھا اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی لوگوں کے علم میں ہے کہ ملک میں سیکڑوں ایسے ادارے ہیں جنہیں اقلیتی کردار یا درجہ حاصل ہے مگر یہاں کی انتظامیہ چائے پیتے، گپ شپ کرتے اور صدر، نائب صدر اور جنرل سیکریٹری کی ہاں میں ہاں ملانے کیلئے جمع ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان کی ستائش و تشہیر کیلئے جھوٹی خبریں بھی شائع کروئی جاتی ہیں ۔ ایسا کرنیوالوں میں سیاہ باطن بھی ہوتے ہیں اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے سیاہ بھی۔ جس دن کوئی عدالت سے رجوع ہوا کہ جن اداروں کو اقلیتی ادارہ ہونے کا درجہ حاصل ہے ان اداروں نے مذہبی، لسانی اقلیت کے تحفظ کیلئے کیا کیا ہے یا کر رہی ہیں تو ان سب کیلئے مشکل ہوگی۔
یہ بھی پڑھئے : ۭبہار میں نئی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اصولوں کی صراحت کردی ہے، ساتھ ہی تین رکنی بینچ تشکیل دے کر مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق ضابطہ تیار کرنے کی بات بھی کہی ہے۔ یہ ضابطہ صرف مسلم یونیورسٹی کے لئے ہوگا یا اس کی روشنی میں دوسرے اقلیتی تعلیمی اداروں کے لئے بھی ضابطہ تیار ہوگا، یہ بھی اہم سوال ہے۔ حتمی جواب تو عدالت عالیہ یا ماہرین قانون ہی دیں گے مگر اس ضابطے کے دائرۂ نفاذ کے بڑھنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ۱۹۶۷ء کےفیصلے کالعدم قرار دیئے جانے میں ۵۷؍ برس لگ گئے ممکن ہے حالیہ فیصلے کے بعض پہلوؤں پر بعد میں روشنی پڑے اور تب تک اقلیتی تعلیمی اداروں کو اپنی جاگیر سمجھنے والے مر چکے ہوں مگر تب تک کافی لوگوں کا ضمیر زندہ ہوچکا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی زبان، تہذیب اور اداروں کے ملی کردار کو قتل کرنے والوں کو ماہر تعلیم، محسن ملت، سر سیّد ثانی کہنے کے مجرم ہم بھی ہیں ۔