• Thu, 06 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

وائس چانسلرزکے انتخاب کا نیامسودہ باعث تشویش

Updated: February 02, 2025, 5:22 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

یوجی سی کے نئے مسودہ میں وائس چانسلر وں کے انتخاب کے ضوابط ریاستی حکومتوں کے حقوق ختم کرنے والے اور وفاقی نظام کے منافی ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

عملی طور پر تمام حکومتیں  زیادہ طاقت کی خواہش رکھتی ہیں  اور خود کو زیادہ کنٹرول اور زیادہ اختیار دینے کیلئے قوانین بناتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کا ایسا مانناہوتا ہےکہ وہ صرف وہ ہی جانتے ہیں کہ ملک اور عوام کیلئے کیا بہترہے ۔ اس میں انفرادی طورپر بھی کچھ لوگ اس طرح کا احساس رکھتے ہیں ۔ اسے `نجات دہندہ یا احساس مسیحائی کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی اثر ہے جس کی بنیاد پر کوئی اس حد تک یقین حاصل کرلیتا ہےکہ اسے ہی تمام مسائل کو `حل کرنا اور لوگوں  کو `بچانا ہے ۔ اس کا انتہائی مظہر پھر اس شکل میں  سامنے آتا ہےکہ دعویٰ کرنے والا دعویٰ بھی کردیتا ہےکہ وہ حیاتیاتی طور پر پیدا نہیں  ہوا بلکہ ’’مجھے خدا نے بھیجا ہے۔‘‘
 ۷؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو متعدد اخبارات میں  ایک خبر کی سرخی تھی ’’یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یوجی سی) وائس چانسلروں  کی تقرریوں  کیلئے رہنما اصولوں  میں  اصلاحات کر رہا ہے ۔‘‘ موضوع یونیور سٹیو ں  کے  وائس چانسلرز کے انتخاب کے متعلق ہے۔ یو جی سی نے اس کیلئے ضوابط کا مسودہ جاری کیا ہے اور مشورےبھی طلب کئے ہیں ۔فی الحال، ایک یا ایک سے زیادہ یونیورسٹیوں  کے قیام کی اجازت دینے والے زیادہ تر قوانین میں ، ریاست کے گورنر کو چانسلر بنایا گیا ہے ۔ کچھ قوانین جن کے تحت مرکزی یونیورسٹیاں  قائم کی گئیں ، صدر کو وزیٹر کا درجہ دیتے ہیں  ۔ ان قوانین کے تحت ہمیشہ توقع یہی کی گئی ہےکہ گورنرآئین کے مطابق کام کرے گا کیونکہ گورنر کی حیثیت اس ملک کے نظام میں  ایسے شخص کی ہے جوایک طویل سیاسی کریئر کے بعد ریٹائر ہواہو،اس کا شخصی وقار ہواورجو ممتاز شہری ہو ۔ گورنر سے ہمیشہ یہی توقع کی گئی ہے کہ وہ آئینی طور پر کام کرے گا۔ موجودہ ضوابط ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل کی راہ ہموار کرتے ہیں  جو وائس چانسلر کی تلاش اورانتخاب پر مامور ہےیعنی یہ ’سرچ کم سلیکشن کمیٹی‘ ہوتی ہے جس میں  گورنر اور ریاستی حکومت کی طرف سے اور یونیورسٹی کی سینیٹ اور یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں  سے ایک ایک نامزدرکن ہوتا ہے۔ سرچ کم سلیکشن کمیٹی وسیع بنیاد رکھتی ہے اور جمہوری ہے۔ اگرچہ حتمی انتخاب چانسلر / گورنر کے ذریعہ کیا جاتا رہا ہے اوراس انتخاب میں  ریاستی حکومت بھی گورنر کا تعاون کرتی ہے یا اسے مشورہ دیتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ رواج پچھلی دہائی میں  دفن ہو گیا اور گورنراپنی صوابدید پر وائس چانسلروں  کا تقرر کرنے لگے۔
 وقت بدل گیا اور اس میں مزیدخرابیاں  آ گئیں  ۔ موجودہ نظام کے تحت ، عام طورپر انہیں  گورنر نامزد اور مقرر کیا جاتا ہے جو آر ایس ایس/بی جے پی کے وفادار ہوتے ہیں  (گورنر بنا کر انہیں  اس وفاداری کا انعام دیاجاتاہے) یا وہ سبکدوش سرکاری ملازم ہوتے ہیں  جن پرحکومت اعتماد کرتی ہے۔ اپوزیشن کے اقتدار والی ریاستوں  میں  گورنر کو مرکزی حکومت کے ’وائسرائے‘ کے طور پر کام کرنے اور ریاستی حکومت کو بیڑیاں  ڈالنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ آج بہت سی ریاستوں  میں  دُہرا نظام حکومت چل رہا ہے،یعنی منتخب حکومت اور غیر منتخب گورنر۔ ہندوستان کے آئین میں  ’تعاون اور صلاح ‘کی جو شق ہے اسے بالائے طاق رکھ دیاگیا ہے۔
 آپ دیکھئے کہ کس طرح ایک قانون ساز اسمبلی میں  خطاب کیلئے ریاستی حکومت کی تیار کردہ تقریر کو مکمل یا اس کا کچھ حصہ پڑھنے سے گورنر انکا ر کردیتا ہے ۔ آپ دیکھئے کہ گورنر ایک منتخب ریاستی حکومت یا اس کے وزیر اعلیٰ پر تنقید کرتا ہے۔ آپ دیکھیں  کہ گورنر چیف سیکریٹری یا پولیس چیف کو طلب کرتا ہے اور وزیر اعلیٰ کو نظر انداز کرکے انہیں  ہدایات جاری کرتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک گورنر ضلعوں  کے انتظامیہ کا ’’جائزہ‘‘ لینے اور ضلعی عہدیداروں  کے ساتھ ’’بات چیت‘‘ کیلئے ریاست کے دورے پر نکل رہے ہیں  ۔ یہ آئین کی شقوں  کی خلاف ورزی  ہے ۔ دہرےانتظامیہ کی یہ مثالیں اپوزیشن کے اقتدار والی ریاستوں  میں واضح طورپر دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔(بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں  میں  معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ، وہاں ریاستی انتظامیہ پوری طرح مرکزی حکومت کے ماتحت ہوتاہے اور وہاں  عام طور پر کوئی وزیر یا کوئی اعلیٰ افسر ہوتا ہے جو وزیر اعظم  کے راست نمائندے کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور وزیر اعظم کے فیصلوں  کا وزیر اعلیٰ کو پابند بناتا ہے۔)
 یو جی سی ایکٹ کے سیکشن۲۲؍ میں  کہا گیا ہے کہ ’ڈگری‘ کا مطلب ایسی کوئی سند جو یو جی سی کے ذریعے طے کردہ معیارات پر پوری اترتی ہے اور یہ سندمخصوص ایکٹ کے تحت قائم کردہ یونیورسٹی ہی دے سکتی ہے ۔ ضوابط کا نیا مسودہ جس کے متعارف کئے جانے کی بات کی جارہی ہے ،اس میں  وائس چانسلر کے انتخاب اور تقرری کے طریقہ کار کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے: یہ(وائس چانسلر کا انتخاب)۳؍ رکنی کمیٹی کے ذریعے ہوگا۔ یہ کمیٹی چانسلر، یو جی سی اور اعلیٰ ادارہ (سنڈیکیٹ/سینیٹ/بورڈ آف مینجمنٹ) میں  سے ایک نامزد رکن پر مشتمل ہوگی )۔ کمیٹی تین سے پانچ ناموں  کا ایک پینل تیار کرے گی اورچانسلر ان میں  سے ایک کا تقرر کرے گا ۔ اگرکسی یونیورسٹی نے قواعد کی خلاف ورزی کی تو اسے ڈگری پروگرام پیش کرنے یا یو جی سی اسکیموں  میں  حصہ لینے سے روک دیا جائے گا۔یو جی سی ایکٹ کے تحت اسے یونیورسٹیوں  کی فہرست سے ہٹا دیا جائے گا اور وہ دیگر تعزیری کارروائی کی زد میں  بھی آسکتی ہے۔اس کا یونیورسٹی کا درجہ بھی منسوخ کیاجاسکتاہے۔ غور کریں  کہ اس ضابطے کے تحت  وائس چانسلر کے انتخاب اور تقرری میں  ریاستی حکومت کا کوئی کردار نہیں  ہے ۔ وائس چانسلر یو جی سی کا وائسرائے بن کر رہ جائے گا جس کے چیئرپرسن اور ممبران کا تقرر مرکزی حکومت کی طرف سےکیا جاسکتا ہے اور مرکزی حکومت ہی انہیں  ہٹا بھی سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے : بے لگام دُنیا ہے، دل سنبھال کر رکھئے

 یونیورسٹی جیسا ادارہ (مرکز کے)دووائسرائے کےتحت آجائے گا۔نئے ڈرافٹ کے تحت ،اگراسے نوٹیفائی کر دیاگیا ، ریاستی حکومتوں کے حقوق ختم ہوجائیں  گے حالانکہ موجودہ قانون ریاستی حکومتوں کو یونیورسٹیاں قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اس لئے دیتا ہےکہ ان میں ریاست کے شہری تعلیم حاصل کرسکیں  اورریاستی حکومتیں  اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ان یونیورسٹیوں کا انتظام سنبھال سکیں ۔ نیا مسودہ یونیورسٹیوں  کو قومیانے کا ایک حربہ ہےاور بی جے پی کی پالیسی’ ایک ملک ایک حکومت‘ کا حصہ ہے۔ یہ وفاقی نظام اورریاستوں کے حقوق پر سنگین حملہ ہے ۔ اس نئے مسودے کے خلاف ریاستوں  کو مزاحمت کرنی چاہئے، سیاسی اور آئینی طریقے سے۔اس کے خلاف ٹیچروں اور اسٹوڈنٹس کو کھڑا ہونا چاہئے۔وگرنہ دہرے انتظامیہ کے اس طریقے کو مطلق العنانی اور آمرانہ نظام میں  بدلنے میں  وقت نہیں لگے گا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK