اقتدار کی اولین ایک دہائی یا بہت واضح طور پر کہا جائے تو اولین گیارہ سال کی یہ تھیوری ایسا مشاہدہ ہے کہ اسے اُصول کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے فطرتِ انسانی کی بھی وضاحت ہوتی ہے اور اہم افراد کی بھی۔
EPAPER
Updated: March 16, 2025, 1:45 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
اقتدار کی اولین ایک دہائی یا بہت واضح طور پر کہا جائے تو اولین گیارہ سال کی یہ تھیوری ایسا مشاہدہ ہے کہ اسے اُصول کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے فطرتِ انسانی کی بھی وضاحت ہوتی ہے اور اہم افراد کی بھی۔
اگر آپ عالمی تاریح کا مطالعہ کریں تو محسوس ہوگا کہ جو شخص بھی حکمراں بن کر اقتدار پر قابضـ ہوا اُس نے پہلے دس برس ہی میں وہ سب کچھ کیا جو اُسے کرنا تھا اور جو بالآخر اُس سے منسوب ہوا۔ بعد کے برسوں میں وہ کچھ ایسا نہیں کرپایا جسے قابل ذکر قرار دیا جاسکے۔ترکی کے حکمراں اردگان ۲۰۰۳ء سے اقتدار میں ہیں اور روس کے پوتن ۲۵؍ سال سے۔ جب پوتن نے عنان حکومت سنبھالی تھی تب روس کی فی کس جی ڈی پی ۱۷۰۰؍ ڈالر تھی۔ گیارہ سال بعد یعنی ۲۰۱۱ء میں اس میں اضافہ ہوا اور غیر معمولی طور پر یہ ۱۴۳۰۰؍ ڈالر تک پہنچ گئی۔ مزید ۱۴؍ برس بعد، آج صورت حال یہ ہے کہ فی کس جی ڈی پی کم ہوکر ۱۳۸۰۰؍ ڈالر پر آگئی ہے۔ (حوالہ: ورلڈ بینک ڈیٹا)۔
روس کے لیڈر ولادیمیر پوتن اب بھی برسراقتدار ہیں اور اپنے اب تک کے دورِ اقتدار میں معاشی نمو کی ڈیڑھ دہائی گزار کر اب ایک ایسی جنگ کی قیادت کررہے ہیں جو روس اور اس کے نوجوانوں کے مستقبل کو بُری طرح متاثر کررہی ہے۔
رہی بات ترکی کے حکمراں رجب طیب اردگان کی، تو اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ انہوں نے عنان حکومت اُس وقت سنبھالی تھی جب ۲۰۰۳ء میں فی کس معاشی نمو ۴۶۰۰؍ ڈالر تھی۔ اُن کی کامیاب قیادت میں ۲۰۱۳ء کا حال یہ تھا کہ فی کس جی ڈی پی ۱۲۵۰۰؍ ڈالر پہنچ گئی تھی اور یہ بات قابل ستائش ہے کہ اب بھی اُسی سطح پر ہے، کم نہیں ہوئی مگر بڑھی بھی نہیں جیسا کہ پہلے بڑھی تھی۔
ہندوستان میں ، جواہر لال نہرو نے اپنے اقتدار کی پہلی دہائی میں اداروں کے قیام پر خاص توجہ دی اور یہ ادارے اب بھی موجود ہیں اور سرگرم ہیں ۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ۱۹۵۰ء میں قائم کی گئی تھی جس کی پہلی شاخ کھرگپور میں تھی۔ اسی طرح بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر ۱۹۵۴ء میں ، اس کے بعد آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز کا قیام ۱۹۵۶ء میں عمل میں آیا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ یہ ادارہ ۱۹۶۱ء میں قائم ہوا۔ یہی وہ دور تھا جس میں نہرو نے کئی پبلک سیکٹر ادارے قائم کئے جو آج بھی سرگرم ہیں ۔ اسٹیل کا سب سے بڑا ادارہ ’’سیل‘‘ ۱۹۵۴ء میں ، او این جی سی ۱۹۵۶ء میں ، این ایم ڈی سی ۱۹۵۸ء میں ، انڈین آئل ۱۹۵۹ء میں اور ایسے ہی کئی پبلک سیکٹر اداروں سے آپ واقف ہیں ، یہ سب نہرو کے دور کی دین ہیں ۔ اسی دور میں عالمی اُمور میں اُن کی حصہ داری بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔یہاں محض حوالے کے طور پر پنچ شیل (۱۹۵۴ء) اور بندنگ (۱۹۵۵ء) کا یاد کیا جانا ضروری ہے۔
آپ نہرو کی ستائش کریں یا اُن کی کارکردگی کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں جیسا کہ آج کل کا فیشن ہے، اُن کی وراثت زندہ ہے اور اُن اداروں میں سانس لے رہی ہے جو اُن کے دور میں قائم کئے گئے تھے نیز آج بھی سرگرم عمل ہی نہیں ، ملک کی شان بھی تسلیم کئے جاتے ہیں ۔مگر، جیسا کہ عرض کیا گیا، نہرو نے بھی اپنے بیشتر شاندار کام اقتدار کے اولین گیارہ برس ہی میں کئے تھے۔
بڑھتے ہیں پاکستان کی طرف۔ پڑوسی ملک میں جنرل ایوب خان نے ۱۹۵۸ء میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور ۱۹۶۹ء میں اقتدار سے محروم ہوئے۔اُن کے اقتدار کا ابتدائی دور کافی اُمید افزا تھا جس میں پڑوسی ملک نے معاشی ترقی کی جس کی ستائش سیموئل ہنٹنگٹن نے بھی کی ہے حالانکہ اعدادوشمار اُس معیار کے نہیں تھے جیسے جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کے تھے لیکن ۱۹۶۵ء میں ہندوستان سے جنگ اور پھر شمالی علاقوں میں احتجاج سے برپا ہونے والے حالات نے اُن کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔
عالمی تاریخ کے وہ لیڈران بھی جنہیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جاتا، اقتدار کی اولین دہائی ہی میں جو کچھ کرنا تھا وہ کرسکے۔ ہٹلر نے ۱۹۳۳ء میں اقتدار سنبھالا تھا اور ۴۴ء میں وہ ایک تہ خانے میں پہنچ چکے تھے اور اسٹالن گراڈ میں جرمنی کی فوجوں کو پسپا کرنے کے بعد جنرل زوکو کی فوج ان کے تعاقب میں تھی۔ جرمنی کے اس ظالم حکمراں کے بارے میں تاریخ جو کچھ بھی لکھتی ہے کہ فلاں اور فلاں اُس کی حصولیابیاں ہیں تو اُن کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ مذکورہ گیارہ سال (۱۹۳۳ء تا ۱۹۴۴ء) کے دوران ہی ممکن ہوئیں ۔ آگے بڑھنے سے قبل اپنے قارئین کو بتا دیں کہ ہٹلر کی حصولیابیوں کیا تھیں ؟ وہ تھا اقلیتوں پر ظلم، فرانسیسی اور برطانوی فوجوں کے ساتھ بُرا سلوک، اولین جدید راکٹ ’’وی۲ ‘‘ کی ایجاداور دیگر۔
اقتدار کی اولین ایک دہائی یا بہت واضح طور پر کہا جائے تو اولین گیارہ سال کی یہ تھیوری ایسا مشاہدہ ہے کہ اسے اُصول کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔اس سے فطرتِ انسانی کی بھی وضاحت ہوتی ہے اور اہم افراد کی بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں (حکمرانوں ) کے پاس محدود تدابیر ہوتی ہیں جنہیں بروئے کار لاتے لاتے کم و بیش ایک دہائی گزر جاتی ہے ۔ اس کے بعد اُن کے پاس حکمت عملی یا تدبیر کے نام پر کچھ نہیں رہ جاتا اور چونکہ وقت گزرتا رہتا ہے اس لئے اُن میں تھکن کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ کچھ نیا نہیں کرتے بلکہ خود کو دُہرانے لگتے ہیں جس سے عوام میں اُن کے تئیں جوش اور جذبہ باقی نہیں رہ جاتا۔جن حکمرانوں کو اس گیارہ سال کے اُصول کے تحت نہیں لایا جاسکتا وہ یہ بتاتے ہیں کہ کیا ممکن ہے اور اگر وہ ممکن ہے تو کس طرح نیز جو ممکن ہے اُسے کب تک ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ’’کامیاب ملکوں کے دس اُصول‘‘ نامی کتاب میں مصنف رُچیر شرما نے کتاب کے باب ’’ازکار رفتہ لیڈران‘‘ میں لکھا ہے کہ ایسی معاشی اصلاح جو بہت کارگر ہوسکتی ہے وہ اقتدار کے اولین دس گیارہ برسوں ہی میں ممکن ہوتی ہے اس کے بعد نہیں ۔ حکمرانوں کی دوسری میعاد یا تیسری میعاد میں بڑی اصلاحات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
یہ بھی پڑھئے : ’’کردار کھو گیا ہے، خلاء پُر نہیں ہوا!‘‘
مَیں نہیں جانتا کہ آپ اس اُصول سے کتنا اتفاق کریں گے مگر اس ضمن میں بہتوں کا کہنا ہے کہ ایک حد (دس گیارہ سال) کے بعد حکمرانوں کی کچھ کرنے کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے۔ رالف والڈو ایمرسن نے کہا تھا: ’’آخر کار ہر ہیرو بورنگ لگنے لگتا ہے۔‘‘