• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

محبت کی دُکان ایسی کہ ہر انسان گاہک ہو!

Updated: June 30, 2024, 2:48 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

ہر وہ تدبیر جو من حیث القوم سب کے مفاد میں ہو، اُس کیلئے دوسروں پر انحصار کے بجائے اُس سے ترغیب پاکر خود متحرک ہونا اور اپنی سطح پر کوشش کرنا ہی بیدار قوموں کا وطیرہ ہے۔ ’’مَیں کیوں؟‘‘ یا ’’اس میں میرا کیا؟‘‘ کے طرزِ فکر میں سراسر نقصان ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

’’نفرت کے بازار میں  راہل گاندھی کی محبت کی دکان جاری رہے گی یا بند ہوجائیگی یہ کہنا مشکل ہے۔ اب وہ اپوزیشن لیڈر بن چکے ہیں ۔ اُن کی مصروفیت بڑھ گئی ہے۔ مزید بڑھے گی۔ آئندہ چند ماہ  میں  وہ تین ریاستوں  کی انتخابی مہم پر بھی روانہ ہونگے۔ الیکشن ہوتے رہتے ہیں ۔ ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے بعد بھی کئی ریاستوں  میں  انتخابات ہونگے۔ مصروفیت برقرار رہے گی اور نئے نئے موضوع بھی ہاتھ آتے رہیں  گے جیسے ابھی نیٹ (این ای ای ٹی) کا موضوع ہے۔ چار جون سے پہلے کسی نے سوچا بھی نہیں  تھا کہ ایک ایسا مسئلہ  منظر عام پر آئیگا جس سے بھونچال آجائیگا۔ اگر راہل محبت کی دکان پر خود حاضری نہ دیں  تب بھی اُن کی ذمہ داری ہے کہ پورے ملک میں  پھیلے ہوئے پارٹی کارکنان کو تنبیہ کریں  تاکہ اُن کے ذریعہ محبت کی دکان ملک کے ہر گوشے میں کھلے، بار بار کھلے اور موقع بہ موقع کھلے۔   یہ نہیں ہوا تو ایک اچھا نعرہ اور ایک مثالی کوشش بھارت جوڑو یاترا کی یادگار بن کر رہ جائیگی، اس سے ملک کو تسلسل کے ساتھ جو فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ نہیں  پہنچے گا۔ 
 کیا راہل نے ایسا کوئی انتظام کررکھا ہے؟ اگر نہیں  کیا ہے تو اُنہیں  کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ نفرت کے بازار میں  اس کی ضرورت ہے اور تب تک رہے گی جب تک نفرت پھیلانے والی طاقتیں  رہیں  گی۔ یہ بہت پرانا قرض ہے جو اگر اَب بھی اُتر جائے تو اسے بہ نظر استحسان دیکھا جائیگا اور آنے والی نسلیں  اس سرزمین پر سکون سے جی سکیں  گی۔ بلاشبہ، ۲۰۱۴ء کے بعد نفرت انگیزی کے رجحان کو فروغ دینے کی کوشش زیادہ منظم  انداز میں  ہوئی، اقتدار کی پشت پناہی کی وجہ سے اس کے پر پُرزے نکل آئے، اس نے کچھ اس طرح شکلیں  اختیار کیں  کہ ہر شکل دوسری سے زیادہ خوفناک تھی مگر کسی نہ کسی شدت اور روپ میں  یہ رجحان پہلے بھی موجود تھا۔ سیکولر کہلانے والی حکومتوں  کے دور میں  بھی اسے پنپنے کا موقع ملا۔ اس دَور میں  فرقہ وارانہ تنظیمیں  باقاعدہ مہم چلا رہی تھیں ۔ ایک طرف انہیں  روکنے کی طرح روکا نہیں  گیا، دوسری طرف محبت کی دکان کھولنے کا خیال کسی کو نہیں  آیا۔ اس پس منظر میں  کہا جاسکتا ہے کہ نفرت کا بازار پُرانا ہے، اس میں  محبت کی دکان نئی ہے۔ اسے بند نہیں  ہونا چاہئے بلکہ ایک مشن کے طور پر جاری رکھنا چاہئے۔ یہ دکان ہر ریاست کے ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں  میں  کھلے، صبح کو بھی کھلی رہے اور شام کو بھی بند نہ ہو تب ہی اُس زہر کا تریاق ممکن ہوگا جسے فرقہ پرستی نام دیا جاتا ہے۔چونکہ راہل کا مزاج عام سیاستدانوں  سے مختلف ہے اور ان کی پرورش اسی نہج پر ہوئی ہے، اس لئے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ہی کھولی ہوئی دُکان کو بند نہیں  ہونے دینگے مگر یہ تنہا اُن کے یا اُن کی پارٹی کےکرنے کا کام نہیں  ہے۔ یہ ملک کے ہر اُس شہری کی ذمہ داری ہے جو اتحاد و یگانگت کی برکتوں  کو سمجھتا اور محسوس کرتا ہے، جو یہ جانتا ہے کہ ملک و قوم کی صحیح معنوں  میں  ترقی اتحاد و یگانگت اور اس حوالے سے امن و آشتی میں  مضمر ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے والا کوئی بھی شہری بہت آسانی سے راہل گاندھی سے پوچھ سکتا ہے کہ آپ کی محبت کی دکان جاری رہے گی یا بند ہوجائیگی مگر ان میں  کم ہی لوگ ہونگے جو اپنے آپ سے پوچھنے کی زحمت کرینگے کہ کیا محبت کی دکان کھولنا یا اس کی تائید و حمایت کرنا اُن کی اپنی ذمہ داری نہیں  ہے؟ 
 دراصل یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ اُس شخص کی بھی جو نفرت کے متاثرین میں  ہے اور اُس کی بھی جو خود کو محفوظ و مامون سمجھتا ہے۔ اس لئے کہ محبت ہر انسان کی ضرورت ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو حیوانات کو بھی ودیعت کیا گیا ہے، چہ جائیکہ انسان۔ وہ تو اشرف المخلوقات ہے۔ خدا کے کنبے کو محبت ہی کے ذریعہ جوڑا جاسکتا ہے۔ کنبہ جب تک جڑا رہے گا تب تک ہی خدا کا ہوگا۔ جب اس میں   انتشار و افتراق درآئیگا یا جب یہ بکھر جائیگا تب خدا کا نہیں  رہ جائیگا کیونکہ محبت جسے رواداری، بھائی چارہ اور دوستی جیسے نام بھی دیئے جاتے ہیں ، رحمانی صفت ہے جبکہ نفرت شیطانی۔ قدرت نے عمدہ شکل و شباہت سب کو نہیں  بخشی ہے،مال و دولت سے سب کو سرفراز نہیں  کیا ہے مگر جذبۂ محبت سے سب کو نوازا ہے۔ اسی لئے مسکرانے، دوست بنانے اور کام آنے کی صلاحیت بھی سب کو دی ہے کہ اگر محبت کو پروان چڑھانا چاہو تو یہ صلاحیتیں  وسیلہ بنیں  گی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اپنا محاسبہ کرتے ہیں  کہ اُنہیں  مسکرنے، دوست بنانے اور ایک دوسرے کے کام آنے کی جو صلاحیت بخشی گئی ہے اُس کو کس حد تک بروئے کار لاتے ہیں ۔ 
 مشکل یہ ہے کہ جب نفرت کے بازار میں  تیزی آئی، لوگ تب ہی جاگے۔ جو براہ راست اس کی زد پر آئے اُن میں  بھی تب ہی تحرک پیدا ہوا۔ اس سے قبل جب آگ دھیمی دھیمی جل رہی تھی اور کبھی کبھی بھڑک اُٹھتی تھی تب اسے اتفاقاتِ زمانہ سمجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ ایک رجحان،ایک پیٹرن ملک کی آزادی کے دور میں  بھی دکھائی دے رہا تھا۔ یہ رجحان اور پیٹرن اُس کے بعد بھی نظر آتا رہا مگر اسے نظم و نسق کا مسئلہ سمجھا گیا۔ فساد کے بعد امن کمیٹی کا قائم کیا جانا اور سماج میں  جذبۂ محبت و یگانگت کو عام کرنا دو الگ عمل ہیں ۔ ایک وقتی اور عارضی ہے، دوسرا عمل ِ مسلسل ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ امن کمیٹی بیماری کا علاج ہے اور جذبۂ محبت کا عام کیا جانا صحتمند رہنے کا نسخہ ہے جس کے ذریعہ بیماریوں  سے دور رہا جاسکتا ہے۔
 نہ تو یہ ضروری ہے نہ ہی ممکن کہ ہر شخص راہل جیسی محبت کی بہت بڑی اور منصوبہ بند دکان کھولے مگر محبت کی چھوٹی چھوٹی دکانیں  روزمرہ کی زندگی میں  بآسانی کھولی جاسکتی ہیں ۔ اپنے گھر میں ، عمارت میں ، محلے میں ، محلے کی عبادت گاہ میں ، دفتر میں ، کاروبار کی جگہ پر، اسکولوں  کالجوں  میں ، موٹر گاڑیوں  اور ٹرینوں  کے سفر کے دوران اور  راہ چلتے ہوئے۔ محبت کی چلتی پھرتی ہزاروں  دکانیں  ہر جگہ موجود ہوں  گی تو اتنے پھول کھلیں  گے کہ آشیانے میں  جگہ نہیں  رہ جائیگی۔ تب یہ ملک جسے جنت نشان کہا جاتا ہے اسم ِ بامسمیٰ ہوجائیگا۔ تب عالمی جدول برائے مسرت (ہیپی نیس انڈیکس) میں  اس کا ۱۲۶؍ ویں  مقام نہیں  ہو گا، یہ فن لینڈ، ڈنمارک، آئس لینڈ اور سویڈن کی ہمسری کریگا۔ عالمی سطح سے جب یہ معاملہ مقامی سطح پر آئیگا تو دیکھئے نہ تو گھروں  میں  نادیدہ دیواریں  ہونگی نہ ہی وہ غیر مرئی سرحدیں  جو محلو ّں  کو ’’اِس کے‘‘ اور ’’اُس کے‘‘ علاقے میں  بانٹتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK