• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ابھی تو ٹریلر چل رہا ہے، فلم تو باقی ہے

Updated: July 02, 2024, 1:41 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی جانتے ہیں کہ نریندر مودی کو ابھی ان سوالوں کا سامنا کرنا پڑےگا جن سے ابھی تک وہ بچتے آئے ہیں کیونکہ اب سے پہلے تک اپوزیشن مضبوط نہیں تھا۔دیکھا جائے تو کئی سوال ان کے تعاقب میں ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

گزشتہ دنوں  سوشل میڈیاسے لے کر سیاسی کہانیاں  سنانے والوں  میں  ایک بحث بہت عام تھی۔ وہ یہ کہ جس طرح  ملک میں  آزادی کے بعد پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ لوک سبھا میں  اسپیکر کا انتخاب ہو رہا ہے،  یقیناً یہ ایک واقعہ تھا۔ ایسا نہیں  ہے کہ لوک سبھا میں  ایک ہی اسپیکر دو بار اسپیکر نہ رہا ہو، یاد کیجئے بلرام جاکھڑ کو، وہ پہلے اسپیکر تھے جو دو بار لوک سبھا کے اسپیکر بنے تھے، لیکن دونوں  بار وہ ٹھیک ٹھاک انداز میں  حکمراں  جماعت کی طرف سے نامزد کئے گئے تھے اور لوک سبھا کی اکثریت نے انہیں  چن لیا تھا۔ اس کے علاوہ بال یوگی بھی دو بار اسپیکر بنےتھے لیکن دونوں  بار بھی وہ نامزد کئے گئے تھے، اس طرح یہ ایک پہلا ڈرامہ تھا، ہمیں  اس معاملہ سے ذرا بھی دلچسپی نہیں  تھی۔
 پہلے یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ چندرابابو نائیڈو چاہتے ہیں  کہ اس بار اسپیکر ہوگا تو تیلگو دیشم کا ہی ہوگا۔یہ کہا جارہا تھا کہ تیلگودیشم نے اسے وقار کا ایشو بنا لیا ہے لیکن بعد میں  پتہ چلا کہ یہ بھی ایک افواہ ہی تھی، ہمیں  جب یہ معلوم ہوا کہ چندرا بابونائیڈونے مرکز سے ایک بھاری رقم مانگی ہے تو ہم سمجھ گئے تھے کہ اسپیکر بنانے کی خبریں  محض افواہ ہی ہیں ، اس کی ایک وجہ بھی ہے۔ اس سے پہلے  ملک کا سب سے  زیادہ قرضدار صوبہ تمل ناڈو تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جےللتانے اپنی سیاسی طاقت برقرار رکھنے کے لئے عوام کو زبردست پیمانے کی سبسڈی دی تھی لیکن کم سے کم یہ پیسہ عوام تک تو پہنچا تھا لیکن اب آندھرا پردیش  سب سے زیادہ قرضدار صوبہ ہے ۔  تیلگودیشم نے اپنے پردیش کیلئے  راجدھانی بنانے کیلئے  رقم کا مطالبہ کیا جو امراوتی میں  ہے ۔  اس کے بعد چندربابو نائیڈو نے مرکز سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا۔ لیکن جب کانگریس نے بھی مدد کیلئے اپنا مدعاسرکار کے سامنے رکھا تو اس کی بات نہیں  مانی گئی۔
  بہر حال اوم برلا اسپیکر ہو گئے، لیکن انہیں معلوم ہے کہ یہ عہدہ انہیں  ایسے ہی نہیں  مل گیا ہے، انہیں  معلوم ہے کہ ملی جلی سرکار ہے اور حلیفوں  کی مدد سے مودی جی وزیر اعظم بنے ہیں ، اب یہ وہ دور نہیں  رہا جب اوم برلاکسی وجہ سے راہل کا مائک آف کریں ۔ اب جب بھی راہل گاندھی کا نام لیں  گے وہ اسپیکر سے پوچھیں  گے۔ اب وہ بھی زمانہ نہیں  رہا کہ اوم برلا ایک ساتھ اپوزیشن کے درجنوں  ممبران کو لوک سبھا سے معطل کردیں  اور سارا اپوزیشن ان کا منہ  دیکھتا رہ جائے، انہیں  بھی علم ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کی تیلگو دیشم اور نتیش کمار کی جنتا دل یو کی بھی سنی جائے گی اور ان کی شرطیں  بھی ماننی ہوں  گی۔
  اس بار راہل گاندھی اپوزیشن کے لیڈر ہیں ،کہا جاتا ہے کہ راہل پہلے یہ عہدہ بھی نہیں لینا چاہتے تھے لیکن جب اکھلیش اور ممتا بنرجی نے یہ کہا کہ چونکہ اس الیکشن میں  سب سےاہم رول راہل ہی کا رہا ہے، اس لئے انہیں  ذمہ داری لینی ہی پڑےگی۔ صدر کانگریس ملکارجن کھڑگے نے بھی ان پر زور ڈالا اور آخر کار راہل گاندھی کو ان کی بات ماننی پڑی۔وہ انکار کرنے کی پوزیشن میں  نہیں  رہ گئے تھے۔ 
  اس طرح اب راہل گاندھی لوک سبھا میں متفقہ طور پر لیڈرآف اپوزیشن بن گئے ہیں ، لوک سبھا میں  دو ہی اہم عہدے ہوتے ہیں ۔ پہلا ظاہر ہے کہ وزیراعظم ہوتا ہےا ور دوسرا لیڈرآ ف اپوزیشن۔  یہ بات عام طور پر سنی جاتی ہے کہ نریندر مودی اپنی سیاسی زندگی میں  کسی سے اتنا خائف نہیں  رہے جتنا وہ راہل گاندھی سے خائف رہتے ہیں ،  پچھلی لوک سبھا  میں  بھی جب کانگریس کے پاس پچاس سے بھی کم سیٹیں تھیں  تو راہل گاندھی کویہ رتبہ نہیں  ملا تھا۔ راہل گاندھی بھی بہت سنجیدگی سےرہا کرتے تھے۔ نریندر مودی تو راہل گاندھی کے پاس بھی نہیں جاتے تھے اور انہیں  راج کمار اور شہزادے جیسے لفظوں  سے پکارتے تھے،لیکن اس بار معاملہ بالکل الٹا ہوگیا ہے، نہ صرف یہ کہ راہل گاندھی مودی کے مقابلے پر کھڑے ہوئے ہیں  بلکہ سوالات بھی اُٹھائینگے اور مودی کو تمام معاملات کا حساب بھی دینا ہوگا۔
 ہم یہ جانتے ہیں  کہ لوک سبھا میں  نریندر مودی کے پاس بہت شور نہیں  ہوگا لوک سبھا کے شروع ہونے کے پہلے ہی نت نئے گھپلوں کے طعنوں  کی بارش سے گزرنا پڑے گا۔
 اس الیکشن میں  مودی نے رام مندر کوا ب تک کا سب سے بڑا ایشوبنایا تھا، الیکشن کے مہینوں  پہلے انہوں  نے رام مندر تعمیر کرکے ایک ایک مشکل کام انجام دیا تھا، رام مندر کو ہندوستان میں  در پیش تمام دوسرے مسائل سے بھی بڑا یشو بتایا  گیا تھا لیکن جیسا کہ ظاہر تھا رام کا نام ان کے ماننے والوں  کے لئے توبہت اہم تھا لیکن الیکشن میں حصہ لینے والے ووٹروں  نے اسے وہ اہمیت نہیں  دی جو مودی جی چاہتے تھے، مودی جی کےمطابق ملک میں  بڑی تعمیر ہو تو اس ملک میں رہنے والوں کیلئے یہ اہم بات ہوتی، رام مندر بننے سے ہر ہندوستانی کو بہت خوشی ہوئی تھی، لیکن یہاں  بھی قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، ایودھیا میں زور دار بارش ہوئی ،سارا شہر پانی میں  ڈوب گیا، اس بارش نے نوتعمیر شدہ رام مندر کو بھی نہیں  بخشا۔بارش کاپانی مندر کی چھت سے ٹپکنے لگا، اس خبر کے پھیلتے ہی سارے ملک میں  حیرانی ہو گئی ، اکھلیش نے اس پر اور بھی قیامت بپا کی۔ انہوں  نےالزام لگایا کہ ایودھیا میں  مندر کی تعمیر میں  بہت بڑا گھپلا ہوا ہے۔  یہ بات مذہبی رہنماؤں  میں  بھی گھر کر گئی ۔ انہوں  نے اکھلیش کے الزامات کو درست قرا ردیا۔ اسی طرح نریندر مودی کے رام مندر  بن جانے سےبی جے پی کو ہرد ن نئے نئے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ ایک طرح کی بات ہے کہ راہل گاندھی، مودی کی سرکار کو فوراً گرانے میں  بہت دلچسپی نہیں  دکھارہے ہیں ، وہ ایک منجھے ہوئے سیاست داں  کی طرح بھی سوچ رہے ہیں  کہ اس سرکار کو گرانے کی کوشش نہ کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ ایک طرف تیلگو دیشم کے چندرا بابو نائیڈو اور دوسری طرف جنتا دل یو کے نتیش کمار کی بیساکھی انہیں  خود ہی نہیں  سنبھلنے دے گی۔ راہل گاندھی جانتے ہیں  کہ مودی کو ابھی ان سوالوں  کا  سامنا کرنا پڑےگا جن سے ابھی تک وہ بچتے آئے ہیں  کیونکہ ابھی تک اپوزیشن مضبوط نہیں  تھا۔یہ سوال ان کے تعاقب میں  ہیں ۔ کل تک ایل او پی (لیڈر آف اپوزیشن) نہ ہونے کی وجہ سے اُنہوں  نے کئی باتوں  کا جواب نہیں  دیا حتیٰ کہ وہ ایوان میں  بھی کم کم ہی آئے۔ اب ایل او پی بھی ہے اور اُنہیں  لگاتار حاضری بھی دینی پڑے گی۔ علاوہ ازیں  ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا بھی اُن کیلئے مشکل ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK