ایمانوئل میکرون جنہوں نے ہندوستان کی مودی سرکار کو بیش قیمت رافیل جہاز بیچے تھے جن کے بارے میں آج بھی فرانس کے مشاہدین کہتے ہیں کہ یہ سودا بھی بہت کھرا نہیں تھا۔آج بھی فرانس کے ٹریڈ یونین کے لوگ کہتے ہیں کہ فرانس کی حکومت نے کچھ دے دلا کر انل امبانی کو ا پنے ساتھ کرلیا تھا۔
یہ بات ہم سن دو ہزار چودہ کی کررہے ہیں ، جب نریندر دامودر داس مودی ہندوستان کے پرائم منسٹر بنے تھے، بی جے پی کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ وہ دائیں بازو کی پارٹی ہے لیکن یہ دایاں بازو اتنا پرتشدد نہیں ہے جیسا کہ مغربی ممالک میں سمجھا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس صدی کے شروع میں گجرات میں جو فسادات ہوئے تھے ان میں بی جے پی کی کوئی سیدھی راہ تھی لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں یہ سوچا جارہا تھا کہ اس وقت بی جے پی کی جو حکومت گجرات میں تھی وہ آسانی سے اس فساد کو روک بھی سکتی تھی۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس وقت ہندوستان میں بی جے پی کی ہی حکو مت تھی اور اٹل بہاری واجپئی کی یہ بات اب تک لوگوں کو یاد ہے کہ انہوں نے مودی سے کہا تھاسرکا ر نے اپنا دھرم نہیں نبھایا یعنی وہ ایک طرح سے نریندر مودی کو بھی فسادات کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے۔ لیکن مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ تو صاف ہوگیا تھا کہ یہ حکومت دائیں بازو والوں کی ہے اور یہ عوام سے زیادہ سرمایہ داروں کے مفاد میں سوچے گی او رمودی کے دس سالہ دور اقتدار میں یہ بات ثابت بھی ہوگئی۔ ہم سب نے دیکھا کہ ہندوستان میں کم از کم دو سرمایہ دار ارب پتی سے کھرب پتی ہوگئے۔ ان میں سے ایک امبانی اور دوسرےاڈانی ہیں ۔ مودی سرکار نے ان کو ٹیکس میں چھوٹ دی اور امبانی دنیا کے مالدار ترین شخص بن گئے۔ رہے اڈانی ، تو مودی سرکار نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں اس ملک کا ہر وہ شعبہ اڈانی کے سپرد کردیا جو آمدنی کا ذریعہ تھا۔ چنانچہ دنیا میں دائیں بازو کا جو رجحان تھا اس کا اثر ہندوستان پر بھی پڑا۔ لیکن اب حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ سب سے پہلے پولینڈ نے امریکہ کی پناہ لی اور روس سے سارے تعلقات توڑ دیئے۔ اس کے بعد یور پ میں جہاں کہیں بھی الیکشن ہوئے دائیں بازو کی پارٹی ہی برسراقتدار آئی۔ اس کی پہلی مثال جرمنی کی اینجلا مارکل تھیں ، یہ بھی تھیں تو دائیں بازو کی سیاست داں لیکن یہ ہٹلر والی دائیں بازو کی پارٹی نہیں تھی، اس بات کو یاد رکھئے کہ جب کہیں ایسی شدید دائیں بازو کی سرکار آتی ہے تو اس کے اثرات بعد کی نسلوں پر بھی پڑتے ہیں ۔
جرمنی کے بعد یور پ میں جہاں کہیں بھی الیکشن ہوئے وہاں دائیں بازو کی پارٹی کو ہٹا کر بائیں بازو کی پارٹی برسر اقتدار
یہ بھی پڑھئے: آرزوؤں کا ہندوستان ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا
آگئی۔ اس کا سب سے پہلا اثر فرانس میں دیکھا گیا جہاں حال ہی میں ایمانوئل میکرون کی شکست تھی ۔ایمانوئل میکرون جنہوں نے ہندوستان کی مودی سرکار کو بیش قیمت رافیل جہاز بیچے تھے جن کے بارے میں آج بھی فرانس کے مشاہدین کہتے ہیں کہ یہ سودا بھی بہت کھرا نہیں تھا۔آج بھی فرانس کے ٹریڈ یونین کے لوگ کہتے ہیں کہ فرانس کی حکومت نے کچھ دے دلا کر انل امبانی کو ا پنے ساتھ کرلیا تھا۔ اس کے بعد سب سے بڑا واقعہ لندن میں پیش آیا۔ لندن میں گزشتہ پندرہ سال سے کنزرویٹیو پارٹی کی حکومت تھی ، حالانکہ لیبر پارٹی کے ٹونی بلیئر نے بھی بہت کام کیا تھا لیکن کنزرویٹیو پارٹی کا زور نہیں گھٹا اور اس کے بعد جتنے بھی وزیر اعظم بنے وہ سب کنزرویٹیو پارٹی کے تھے ۔سب سے حیرت انگیز واقعہ جنوبی کوریا میں پیش آیا، یہ بات یاد رکھئے کہ جنوبی ایشیا کی معیشت میں جنوبی کوریا کا ایک بڑا حصہ مانا جاتا ہے۔ آج بھی ہم لوگ جو چیزیں استعمال کرتے ہیں ان میں سے نہ جانے کتنی جنوبی کوریا کی بنی ہوتی ہیں ۔ ایسے معاملات میں ان ممالک میں کسی دائیں بازو کی پارٹی کے خلاف بغاوت ایک انہونی بات ہوتی ہے۔ لیکن جنوبی کوریا نے اسے بھی غلط ثابت کردکھایا۔ جنوبی کوریا کےصدر یون سوک یول تھے لیکن اپنی جابرانہ حرکتوں کی وجہ سے انہوں نے عوام کو ناخوش کررکھا تھا۔اس بار ان کے انتخاب کے ڈھائی سال بعد جنوبی کوریا میں پھر بغاوت ہوئی ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکہ جو ہمیشہ جابریت کے خلاف رہتا تھا وہ جنوبی کوریا کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہہ پایا۔یون سوک یول اپنے عہدے پر آنے سے پہلے ایک قانون داں تھے اور بحیثیت قانون داں انہوں نے کوئی بہت اچھا نام نہیں کمایا تھا۔ ان کی بیوی کو بھی رشوت خور سمجھا جاتا ہے لیکن جب صدر کے خلاف بغاوت ہوئی تو صدر وہی کرتا رہتا ہے جو ہمیشہ ایک ظالم حکمراں کرتا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ جو لوگ باغی ہوئے ہیں وہ قوم کا شیرازہ منتشر کرنے والے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جنوبی کوریا ختم ہو جائے۔ صدر نے ایک آرڈی ننس نکال کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی لیکن جنوبی کوریا کے عوام نے اس حکم کو نہیں مانا۔ صدر نے سڑکوں پر اور پارلیمنٹ کے ہاؤس میں فوجیں لگا دیں لیکن عوام فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور کہا کہ وہ صرف ان کی لاشوں کے اوپر سے گزر کر ہی آگے جاسکتے ہیں ۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ جنوبی کوریا کے پارلیمنٹ کے ممبران کی تعداد تین سو ہے ان میں سے ایک سو نوے وہ ہیں جو موجودہ صدر کے خلاف تھے۔ ان کی تعداد ایک سو نوے بتائی جاتی ہے۔ان جیالے ممبران نے فوج کی ہر سختی کو توڑ کر پارلیمنٹ کے دروازوں کو پھاند کرپارلیمنٹ میں اکٹھا ہوگئے اور تمام ایک سو نوے ممبران نے صدر کی ایمرجنسی کو خلاف قانون قرار دیا۔اب موجودہ صدر کے پاس اس کے سوائے کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ ایمرجنسی کے نفاذ کو واپس لے لیں ۔ آج وہاں ایسی حکومت بننے کے امکانات ہیں جس میں بائیں بازو کا غلبہ ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوریا کی پالیسی بالکل اُلٹ جائے گی لیکن یہ ضرور ہے کہ وہاں کی سیاست میں بائیں بازو کا رجحان پھر غالب آجائے گا۔ اس تمام مضمون کا مطلب یہ بتانا تھا کہ دنیا میں بائیں بازو کا رجحان ایک بار پھر بڑھ رہا ہے اور یہ ہندوستان میں بھی ہوگا، اگر آج نہیں ہوگا ، تو تھوڑے عرصے کے بعد ضرور ہوگا۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ جہاں کہیں بھی دائیں بازو کی سرکاریں الٹی ہیں وہ صرف اسلئے الٹی ہیں کہ عوام سامنے آگئے تھے، ہندوستان کے متوسط طبقےمیں ابھی وہ شعور پیدا نہیں ہوا ہے لیکن پیدا ہورہا ہے اور اسلئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی دائیں بازو کی سیاست ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوجائے گا۔