• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دُنیا نہایت سمجھدار ہوچکی ہے

Updated: June 25, 2024, 1:03 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

نریندر مودی نے جس طرح خود کو پیش کیا ہے وہ سب کےسامنے ہے، ایک معاہدے پر مودی نے دستخط نہیں کی تھی انہوں نے وزارتوںسے دستخط کروائی تھی ۔یہ انکشافات اتنے بڑے بڑے ہوںگے کہ منظر عام پر آنےکے بعد انہیں سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ سنا ہے کہ مودی کے محکمے بھی اس کی زد میں ہیں، شاید ہی انہیں بچا پائیں گے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

نریندر مودی تیسری باروزیر اعظم بنے تو انہوں  اپنی پرانی کابینہ کو بحال کیا، اپنے تمام وزیروں  کو وہی عہدے دیئے جو اس سے پہلے والی حکومت میں  تھے۔ حالانکہ کسی بھی نئی حکومت میں  وزیروں  کے عہدوں  کا رد و بدل ایک عام بات ہوتی ہے نہ ہی عوام پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ لیکن مودی جی کچھ اور چاہتےتھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس حرکت کی وجہ سے اب ان کی حکومت مودی یا بی جے پی سرکار نہیں  رہ گئی ہے بلکہ اسے این ڈی اے سرکار کے نام سے پکارا جائے گا اور اس قت تک پکاراجائے گا جب تک یہ حکومت قائم ہے، مودی جی وزیروں  کے عہدوں  میں  کوئی الٹ پھیر کرنے کے بجائے اسے جوں  کا توں  رکھنا چاہتے تھے تاکہ اگر کوئی اور نہیں  تو بی جے پی کے ممبر اور ان کے حامی یہ سمجھیں  کہ کچھ نہیں  بدلا ہے اور عوام یہ سمجھیں  کہ کوئی بڑی تبدیلی عمل میں  نہیں  آئی ہے۔ لیکن اب عوام بہت سمجھدار ہوچکے ہیں ، سوشل میڈیا نے انہیں بہت کچھ سمجھا دیا ہے۔ جو کوئی حکومت انہیں  سمجھانے سے روکنا چاہتی ہے، عوام کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ دو بیساکھیوں  پر گھری ہوئی مودی سرکار کتنی مضبوط اور کتنی کمزور ہے، اگر کسی  وجہ سے ان دو میں  سے ایک بھی بیساکھی ٹوٹ جائے تو یہ حکومت تاش کے پتوں  کی طرح بکھر جائے گی۔
 یہ حکومت کتنی مضبوط ہے اس سوال کے جواب کیلئے جان لیجئے کہ ای ڈی، انکم ٹیکس اور اس طرح کی دیگر خفیہ ایجنسیاں  جو حکومت یا مودی جی یا امیت شاہ کےحکم پر لوگوں  کے گھروں  اور دفتروں پر چھاپے مارا کرتے تھے تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں  تھی کہ ان کے باس کا حکم ہے ، یہ افسر یہ بھی سمجھتے تھے کہ عوام پر اس حکومت اور اس کے وزیروں  کا اتنا رعب اور دبدبہ ہے کہ اگر انہوں  نے ان کا حکم ماننے میں  ذرا بھی تاخیر کی تو ان کو خداجانے کہاں  پھینک دیا جائے گا۔ لیکن جب انہیں  یہ معلوم ہوا کہ یہ کارروائی مالی بد عنوانی کو روکنے کے بجائے صرف دبدبہ اور انتقامی کارروائیاں  ہیں تو انہوں  نے اپنے کام کو محدود رکھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ای ڈی اور خفیہ ایجنسیوں  نے جن لوگوں  کو پکڑا عدالتوں  نے ان میں  سے پچانوے فیصد کوبا عزت بری کر دیا، افسروں  نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے اکثر لوگوں  میں  سے ان لوگوں   نے بھی پارٹی چھوڑ دی یا کسی نہ کی طرح سے بی جے پی میں  واپس چلے گئے تو ان کی ایسی دھلائی ہوئی کہ ان کے دامن پر لگے بدعنوانی کےداغ دھل گئے، ہمیں  کئی ذرائع نے بھی بتایا ہے کہ بعض افسران  جب کسی گھر یا دفتر پر چھاپے مارتے تھے تو انہیں  یہ بتاتے تھے کہ وہ صرف اپنے باس کاحکم مان رہے ہیں  سو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ہر شکار بدعنوان ہو ایسا نہیں  ہے۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں  کہ یہ افسران صرف اپنے آقا کا حکم مان رہے ہیں  اور انہیں  معلوم ہوگا کہ ان کا حکم نہ سننے سے ان کو کیا نقصان ہوسکتا ہےاور وہ اس قدر کمزور اور بے بس ہوگئے کہ حکومت کی ہر بات ماننے پر مجبور ہوئے، لیکن اب شاید ایسا نہ ہو کیونکہ اس سرکارکو اب عوام نے خاک میں  ملا دیا ہے اور مودی جی کو بیساکھیوں  کا سہارا لینا پڑگیا ہے۔کچھ دن اور جانے دیجئے بہت سی باتیں  سامنے آئیں  گی کیونکہ مودی جی کی پارٹی کے پاس اکثریت نہیں  ہے۔عوام جانتے ہیں  کہ اب اپوزیشن کی باگ ڈور راہل گاندھی کے ہاتھ میں  ہے جن سے مودی جی بہت ڈرتے ہیں ۔
 ہم یہ بھی سمجھتے ہیں  کہ راہل گاندھی نے کیرالا کے وائناڈ سے ایم پی بننے کے باوجود رائے بریلی کی سیٹ چنی ہے ، یہ کوئی عام فیصلہ نہیں  ہے کیونکہ وائناڈ ایک مسلم اکثریتی سیٹ ہے لیکن راہل نے کمال ہوشیاری سے وائناڈ کی سیٹ اپنی بہن پرینکا کو دے دی ۔ یہ وائناڈ کے لوگوں  کا پیار ہے کہ ہر چند کہ اب راہل گاندھی اس سیٹ سے ایم پی نہیں  رہے لیکن وائناڈ اب بھی گاندھی پریوار کے ہاتھوں  میں  ہے۔ یہ پہلو اس لئے بھی اچھا ہے کہ اکھلیش یادو اب سمجھیں  گے کہ راہل اور پرینکا لوک سبھا میں  اپنے کردار پر زور دیں  گے اور یوپی اکھلیش یادو کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہوئے پائے گئے ہیں  کہ اس الیکشن میں  کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں  ہوا ،پچھلی لوک سبھا میں  ان کو پچاس سےبھی کم سیٹیں ملی تھیں  اور اس بار انہیں  کچھ زیادہ سیٹیں  مل گئیں  یعنی بات بڑی نہیں  ہے،لیکن یہ سمجھئے کہ کانگریس کی ان سیٹوں  کی وجہ سے ہی بی جے پی کو تین سو سیٹوں  کا عدد بھی پار کرنا دشوار ہوگیا جبکہ مودی جی چار سوکے پار کا نعرہ لگا رہے تھے۔
 ہم یہ سمجھتے ہیں  کہ راہل گاندھی یا ’انڈیا‘کو اس حکومت کو گرانے کی کوئی ضرورت نہیں  ہے، اس کے لئے انہیں  زیادہ کوشش نہیں  کرنا چاہئے ۔ کسی بھی طرح یہ بتانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مودی جی خود بدعنوان ہیں  اور ان کے دامن پر بھی بے شمار دھبےہیں ،ایسا کچھ کیا گیا تو مودی بھی کہیں  گے اور ان کے چیلے بھی کہیں  گے کہ راہل گاندھی مودی جی سے انتقام لے رہے ہیں  جو مودی نےراہل کو الیکشن کے دوران اور ویسے بھی کہا ہے۔مودی جی اور ان سے بھی بڑھ کر امیت شاہ نے تو راہل گاندھی کو پپوبھی کہہ کر مخاطب کیا۔
 وہ تمام ٹی وی چینل اور گودی میڈیا جو بی جے پی کے اشتہاروں  سے بھرا رہتا ہےسب توان کے خلاف ہوسکتے ہیں  لیکن ان کے صفحات اور چینل اس لئے نہیں  بول رہے ہیں  کہ بی جے پی سے انہیں  خوب اشتہار حاصل ہورہے ہیں  لیکن کب تک؟ جب سیاسی طاقت گھٹنے لگتی ہے تو اچھے اچھوں  کو کوئی نہیں  پوچھتا۔
 ہم سمجھتے ہیں  کہ مودی کی بدعنوانی خود بخود سامنے آئے گی۔ لیکن یہ ہماری اطلاع ہے ، یہ غلط بھی ہو سکتی ہے، لیکن مودی نے جس طرح خود کو پیش کیا ہے وہ سب کےسامنے ہے۔ ایک معاہدے پر مودی نے دستخط نہیں  کی تھی انہوں  نے وزارتوں سے دستخط کروائی تھی ۔یہ انکشافات اتنے بڑے ہوں گے کہ منظر عام پر آنےکے بعد انہیں  سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ سنا ہے کہ مودی کے محکمے بھی اس کی زد میں  ہیں ، شاید ہی انہیں  بچا پائیں  گے۔مودی جی جنتا کو بہت معصوم سمجھتے ہیں  لیکن جس دن وہ بیدار ہوجائے گی وہ دن مودی جی کیلئے بہت دشوار ہوگا کیونکہ دنیا اب سمجھدار ہوچکی ہے۔ مودی جی کا پریوار بھی بزنس میں  نہیں  ہے یہ دروازہ تو انہوں  نے اسی دن بند کردیا تھا جب شادی میں اگنی کے پھیرے لینے کے بعد مودی جی نے وہ گھر چھوڑ دیا جو پریوار بناسکتا تھا۔ ہاں  ان کی بیاہتا بیوی آج تک بیواؤں  کی زندگی گزار رہی ہے ۔ ان تمام باتوں  سے عوام واقف ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK