مصنوعی ذہانت کا ہر جانب شور و غلغلہ ہے۔ ترقی اچھی چیز ہے۔ انسانی زندگی کو سہولتوں سے ہمکنار کرنابھی اچھا ہے مگر حدود و قیود کے بغیر نہیں۔آج کی دُنیا نے حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
EPAPER
Updated: February 01, 2025, 1:44 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
مصنوعی ذہانت کا ہر جانب شور و غلغلہ ہے۔ ترقی اچھی چیز ہے۔ انسانی زندگی کو سہولتوں سے ہمکنار کرنابھی اچھا ہے مگر حدود و قیود کے بغیر نہیں۔آج کی دُنیا نے حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
اِنسان مشین کو اپنا دوست سمجھتا ہے اور دیکھا جائے تو مشین ہے بھی دوست ہی مگر انسان کی عادت ہے کہ اعتدال کی حدوں سے باہر نکلنے لگتا ہے۔ مشین کو انسان کی یہ عادت پسند نہیں ۔ اسی لئے جہاں اعتدال کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے مشین کی بغاوت شروع ہوتی ہے۔ تب وہ مروت نہیں کرتی۔
اس تجزیہ کی روشنی میں آپ کسی بھی مشین کو پرکھ لیجئے، مقررہ حد کے بعد مشین، مشین نہیں رہ جاتی، دشمن ہوجاتی ہے اور انسان کو مجروح کرنے یا اُس کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
یہ تو ہے اعتدال کی حد سے گزرنے کا خمیازہ۔ اعتدال کی حد کے اندر بھی، انسان مشین کو جتنا اپنا سمجھتا ہے، اُس میں اتنی اپنائیت نہیں پائی جاتی۔ اُس کے مزاج میں دوست بن کر دغا دینا شامل ہے۔ فائدے کے ساتھ ساتھ نقصان اس کی سرشت میں ہے۔ بسا اوقات انسان اس نقصان کو جان لیتا ہے اور کبھی خوش ہو ہوکر نقصان اُٹھاتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشین بھلے ہی سہولت فراہم کرے، فائدہ پہنچائے، دوستوں کی طرح پیش آئے اور توقع سے زیادہ مددگار ہوجائے، وہ مشین ہی ہے، انسانوں جیسی بن کر بھی انسان نہیں بن پاتی۔ بن بھی نہیں سکتی۔
آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ سطریں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے تعلق سے پوری دُنیا میں پائے جانے والے جوش و خروش کے پیش نظر لکھی گئی ہیں ۔ کوئی دن نہیں جاتا جب اے آئی کی پیش رفت کی خبریں اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کا حصہ نہ بنتی ہوں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے، اے آئی کی صنعت دن دونی، رات چوگنی کے محاورہ کو شرمندہ کرتے ہوئے دن چوگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ ۲۰۲۳ء میں یہ انڈسٹری ۱۳۴؍ ارب ڈالر کی تھی، ۲۰۲۴ء میں ۱۸۴؍ اب ڈالر کی ہوگئی اور ۲۰۲۵ء میں اس سے بھی زیادہ ہوجائیگی حتیٰ کہ ۲۰۳۰ء میں ا س کی مجموعی مالیت ۸۲۶؍ ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ جیسے جیسے یہ صنعت سرپٹ دوڑ رہی ہے ویسے ویسے یہ خدشہ بڑھتا جارہا ہے کہ اس کا کتنا صحیح استعمال ہوگا۔ جب انسان ٹیکنالوجی کی کسی بھی ایجاد کے استعمال میں حد اعتدال کے اندر نہیں رہ سکا تو اس کی ضمانت کون دے گا کہ اے آئی کا صحیح استعمال ہوگا؟ اس کا لاڈ پیار تو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جب لاڈ پیار ہی حد اعتدال میں نہیں ہے تو اے آئی کے استعمال سے ہونے والی ایجادات کے برتنے میں حد اعتدال کی کیا گیارنٹی ہے؟
شاعر و ادیب چونکہ اُمید جگانے پر مامور رہتے ہیں اس لئے انسان زندگی کے جذباتی اور جمالیاتی پہلوؤں کو اُبھارنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی دشمن ہے مشین۔ اقبال جیسے عظیم فلسفی اور دانشور نے ’’ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت‘‘ کہہ کر متنبہ کیا تھا مگر کوئی متنبہ نہیں ہوا بلکہ تب سے لے کر اب تک مشینوں کا جنون بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ شاعری اشارے کنائے میں گفتگو کا نام ہے اس لئے اقبال نے دوسرے مصرعے میں اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات‘‘۔ شاعری کا پیرایہ نہ ہوتا بلکہ نثر میں اظہار خیال کیا جاتا تو علامہ فرماتے کہ مشینیں کتنی خرابیاں پیدا کرتی ہیں اور احساس مروت کے ساتھ ساتھ کس طرح دیگر احساسات کو بھی مجروح کرتی رہتی ہیں ۔حال ہی میں جے پور فیسٹیول میں مشہور مصنفہ، سماجی کارکن اور راجیہ سبھا کی رکن سدھا مورتھی نے بڑے پتے کی بات کہی کہ ’’اے آئی دماغ کی زبان سمجھتا ہے، دل کی نہیں ، وہ ماں کو خوش کرنے کے طریقے سکھا سکتا ہے، ماں کیلئے محبت نہیں پیدا کرسکتا۔ یہ اپنی جگہ ٹیکنالوجی کی کتنی ہی بلند چھلانگ ہو، دل کی جگہ لینا اس کے بس میں نہیں ہے۔ ‘‘
سدھا مورتھی نے بھی اشاروں میں بات کی ہے۔ مگر جب دل کہہ دیا تو دل سے وابستہ ہر جذبہ اس کو جامع ہے۔اے آئی ہزار کام کردے ، دل کو دل نہ رہنے دے یا دل کے افعال کو محدود کردے تو انسان اور روبوٹ میں فرق ہی کتنا رہ جائے گا۔ سدھا نے اپنے پیغام میں دل کو مرکزیت عطا کرکے اور یہ کہہ کر کہ ٹیکنالوجی کا یہ مظہر دماغ کی زبان سمجھتا ہے، دماغ پر دل کی فوقیت کو دی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جب تک دل ہے اور دھڑک رہا ہے اور اس سے وابستہ جذبات محفوظ ہیں اور وہ جذبات بروئے کار لائے جارہے ہیں تب تک اے آئی سے خطرہ نہیں ہے مگر جس دن دل پر دماغ حاوی ہوجائیگا، اے آئی خدانخواستہ تخریب کاری سے بھی باز نہیں آئے گا۔
کیا سدھا کے مفہوم کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دُنیا کے جتنے بھی ماہرین ہیں دماغ پر محنت کررہے ہیں ، دُنیا کے تمام بڑے ادارےانہی کے ساتھ ہیں ، پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، سب کے سروں پر پیسہ، بازار اور منافع حاوی ہے اور کسی کو پروا نہیں ہے کہ دل کی طرف بھی دیکھے اور دُنیا سے محبت، مروت، اپنائیت اور رشتۂ درد کے کمزور پڑ جانے پر توجہ مرکوز کرے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ دل پر محنت میں پیسہ نہیں ہے؟ اس میں منافع نہیں ہے؟
یہ بھی پڑھئے: جھانسے میں نہ آئیں غزہ کے عوام
دماغ کے حد سے زیادہ طاقت حاصل کرنے اور دل کے کمزور پڑنے کی صورت حال پریشان کن ہونی چاہئے مگر نہیں ہے جبکہ ہر وہ انسان جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جانتا ہے کہ انسانی جسم کیلئے دماغ اور دل دونوں ہی اہم ہیں ۔اگر دماغ کمزور پڑ جائے تو کام چل جاتا ہے، حتیٰ کہ ماؤف ہوجائے (جیسا کہ الزائمر میں ہوتا ہے) تب بھی انسانی زندگی کا چراغ روشن رہتا ہے مگر دل دھڑکنا بند کردے تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں انسانی وجود ڈھیر ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ قدرت نے بھی دل ہی کو فوقیت دی ہے، اسے وجود ِ انسانی کا سردار بنایا ہے۔ جتنے پیغمبروں ، اوتاروں ، ولیوں اور مہاپرشوں کا دُنیا میں ظہور ہوا، سب نے دل پر محنت کی اور اپنے معتقدین سے کروائی مگر دل پر محنت کیلئے مجاہدہ درکار ہوتا ہے، قربانی دینی پڑتی ہے، خود کو آزمائشوں سے گزارنا پڑتا ہے، غوروفکر کی شمع روشن کرنی پڑتی ہے اور سب سے بڑھ کر نفس کو مارنا پڑتا ہے جبکہ نفس ہے کہ کسی قیمت نچلا نہیں بیٹھتا۔ اسی لئے تاریخ انسانی کے ہر دور میں نفس پرستی کا بول بالا رہا ۔ موجودہ دور میں دل پر دماغ کو ترجیح دینے کا رجحان بھی نفس پرستی ہی ہے مگر اس میں بھی عیاری ہے۔ انسانی دماغ کے مقابلے میں مشینی دماغ کی مدح سرائی کی جارہی ہے۔