• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

زبانیں ہیں جو رفتارِ زماں کے ساتھ چلتی ہیں!

Updated: July 13, 2024, 3:00 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

ہر شہر اور ہر دیار میں انگریزی پھل پھول رہی ہے اور غیر انگریزی زبانوں کا دامن تنگ ہوتا جارہا ہے۔ اس کیلئے انگریزی والوں کی فعالیت سے زیادہ دیگر زبانوں کے لوگوں کی غفلت قصوروار ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کامیاب انسانوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ خود کو بہتر بنانے کیلئے تسلسل کے ساتھ کوشاں رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی اچھی بات سیکھتے رہتے ہیں۔ کامیاب تجارتی اداروں کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی ہر مصنوع کو اصلاح کے عمل سے  گزارتے رہتے ہیں  اور اپنے ناقد کو بھی، جو اُنہیں  خامیوں سے آگاہ کرتا ہے، اپنا محسن گردانتے ہیں۔ کامیاب قوموں کی پہچان یہ ہے کہ اُن کے افراد میں اصلاح کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے، وہ غیر صحتمند رجحانات سے گریز کے عزم کے ساتھ صحتمند رجحانات کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ افراد خود کو قابل قبول جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں  پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔ کامیاب زبانوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ پرانے الفاظ کو برقرار رکھتے ہوئے نئے الفاظ کیلئے دامنِ لغت کشادہ رکھتی ہیں۔ 
 ایسی ہر سرگرمی افراد کو، تجارتی اداروں کو، قوموں کو اور زبانوں کو سنورنے، نکھرنے، مستحکم ہونے اور کامیابی کی راہ پر گامزن رہنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ عمل مزاجِ آب سے مشابہ ہے۔ پانی بہتا رہے تو صاف رہتا ہے، ٹھہر جائے تو ناصاف ہوتا جاتا ہے۔ یہ عمل ہوا گزاری یا ہوا داری سے بھی مشابہ ہے جس کے تحت اِس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کمرے میں  کھڑکیاں ہوں تاکہ تازہ ہوا آتی رہے اور استعمال شدہ ہوا کمرے سے باہر جاتی رہے۔ کھڑکیاں بند ہوں تو تازہ ہوا کا گزر رُک جائے اور کمرے کے اندر کی ہوا کثیف ہوتی چلی جائے۔ 
اسے آپ فلفسۂ تحرک و جمود کے پس منظر میں  بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہر وہ شے جو متحرک ہے پسندیدہ ہے اور ہر وہ شے جو جامد ہے ناپسندیدہ قرار پاتی ہے۔ موجودہ دور کی فعال اور متحرک زبانوں میں انگریزی اس لئے بھی سرفہرست ہے کہ اس کے ادارے، بالخصوص وہ جو لغات مرتب کرتے ہیں، پرانے الفاظ کو بحال رکھتے ہوئے نئے الفاظ کو فراخدلی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ ہر سال مختلف زبانوں اور بولیوں  کے ایسے الفاظ جو انگریزی الفاظ کے مزاج و معیار سے ہم آہنگ ہوں لغت میں شامل کرلئے جاتے ہیں۔ مزید برآں نئے الفاظ گڑھے جاتے ہیں اور اُنہیں مشتہر اور رائج کرنے کی دل و جان سے کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے الفاظ کی تعداد اتنی ہے کہ مثال دینا بھی سہل نہیں ہے پھر بھی چند الفاظ برائے ملاحظہ پیش خدمت ہیں :
 انگریزی کا ایک لفظ ہے ’’بیک لیش‘‘۔ قارئین اس کے معنی (شدید ردعمل) سے واقف ہیں۔ اہل انگریزی نے اس سے نیا لفظ بنایا وہ ہے ’’ٹیک لیش‘‘۔ اِس کا معنی ہے تکنالوجی کی کمپنی یا کمپنیوں کے خلاف شدید منفی ردعمل۔ ’’کلائمیٹ رفیوجی‘‘ بھی خاصا نیا لفظ ہے جس کے معنی پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں  کہ نہ تو کلائمیٹ اہل اُردو کیلئے نامانوس ہے نہ ہی رفیوجی۔ مگر اس  میں  ایک معنوی جہت پیدا کی گئی ہے۔ کلائمیٹ رفیوجی ایسے شخص کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جسے موسمی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے سبب اپنا گھر یا علاقہ چھوڑنا پڑا ہو۔ ایک اور لفظ ’’ہوسٹائل آرکیٹیکچر‘‘ ہے جس کا معنی ہے کسی دیوار یا مقام پر ایسے نقش و نگار بنانا کہ راہ گیر یا آس پاس کے لوگ اُس دیوار یا مقام کے قریب نہ تو کوڑا کرکٹ پھینکیں  نہ ہی بلاوجہ بیٹھیں یا سوئیں۔ جب سے کمپیوٹر متعارف ہوا ہے ہم میں سے ہر شخص ’’پاس ورڈ‘‘ سے واقف ہوگیا ہے۔ پاس ورڈ حروف اور اعداد کے اُس مجموعے کو کہتے ہیں  جو کمپیوٹر کھولنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر تکنالوجی کی پیش رفت کے ساتھ ’’پاس ورڈ‘‘ ضروری نہیں رہ گیا ہے۔ آپ کوئی نشانی بناکر موبائل اسکرین کھول سکتے ہیں  چنانچہ اس کیلئے نیا لفظ بنایا گیا ’’پاس کی‘‘ یعنی وہ کلید اور چابی جو آپ کو آگے کا راستہ دے یعنی جس سے موبائل کھل جائے۔
 مندرجہ بالا چار الفاظ بطور مثال پیش کئے گئے ہیں ۔ انگریزی میں  نئے الفاظ گڑھنے یا وضع کرنے کا سلسلہ جاری ہی رہتا ہے اور کبھی نہیں  رُکتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کسی نئے لفظ پر کوئی معترض نہیں ہوتا بلکہ اُسے عمومی قبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔ 
انگریزی کے نئے الفاظ کو عام کرنے کیلئے کس قدر کوششیں کی جاتی ہیں اس کی ایک مثال ’’یوٹیوب‘‘ پر پیش کئے جانے والے وہ ویڈیوز ہیں جن میں  بتایا جاتا ہے کہ اگر آپ لفظ ’’باتھ روم‘‘ استعمال کیا کرتے تھے تو اَب اپنے ذخیرۂ الفاظ میں  ایک نیا لفظ شامل کرلیجئے اور کہئے ’’واش روم‘‘۔ یہ لفظ ہمارے معاشرہ میں  بھی در آگیا ہے کیونکہ ہم نے غسل خانہ یا طہارت خانہ جیسے اپنی زبان کے الفاظ کو ترک کردیا ہے۔ اب ہم بآسانی لفظ واش روم بولنے لگے ہیں یہ احساس کئے بغیر کہ کل تک اسی کو باتھ روم کہا جاتا تھا۔
انگریزی زبان کو سب سے بڑا فائدہ تکنالوجی کا مل رہا ہے۔ تکنالوجی نئی نئی مصنوعات کے انگریزی نام لے کر ہماری زندگیوں  میں  داخل ہورہی ہے۔ اسی تکنالوجی کی مدد سے انگریزی کو رائج اور اس کے نئے نئے الفاظ کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ کئی بار تو  انگریزی  لغت کے مرتبین محض اس لئے کوئی نیا لفظ وضع کرتے ہیں  کہ پرانے لفظ سے تازگی کا احساس نہیں ہوتا۔ بہت سادا سی مثال ’’تھینک یو‘‘ کا جواب ہے۔ کل تک تھینک یو کے جواب میں ’’مینشن ناٹ‘‘ یا ’’نو مینشن‘‘ کہا جاتا تھا۔ اب کئی متبادلات ہیں، آپ جو چاہیں  استعمال کریں  مثلاً ’’یو آر ویلکم، ناٹ اے پرابلم، نو وریز، مائی پلیزر (یا صرف پلیزر)، اینی ٹائم، ہیپی ٹو ہیلپ، گلیڈ ٹو ہیلپ، شوئر، دیٹس آل رائٹ، اِٹ واز نتھنگ وغیرہ۔ فوری طور پر یہ دس الفاظ یا فقرے اِس مضمون نگار کے ذہن میں آئے۔ اس سے انگریزی کے پھلتے پھولتے اور روز بہ روز وسیع ہوتے ذخیرۂ الفاط کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پس منظر میں ہم اُردو والوں کا طرز عمل عجب ہے۔ ہمیں  اپنے ذخیرۂ الفاظ کی فکر ہی نہیں ہے۔ ہم نے لغت سے استفادے کا عمل ترک کردیا ہے، دیگر زبانوں کے الفاظ کو دھڑلے سے اپنا لیتے ہیں اور نئے الفاظ کی فکر تو ہمیں  چھو‘ کر بھی نہیں گزرتی۔
دیگر زبانوں کے الفاظ کو جوں کا توں اپنا لینے میں  کوئی بڑی قباحت نہیں  ہے۔ نئے الفاظ تراشنے یا گڑھنے کی فکر بھی اتنی ضروری نہیں ہے۔ مگر، لغت سے استفادہ کا عمل ترک کردینا نہایت غیر صحتمند رجحان ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ روزمرہ کے اُردو الفاظ سے گریز ہے۔ تشریف رکھئے، توقف فرمائیے، مخل نہ ہوں، دراز میں رکھ دیجئے وغیرہ کا استعمال ترک کرکے ہم اچھا نہیں کررہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK