• Fri, 08 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سیکولرازم کے حق میں سپریم کورٹ کے دو فیصلے

Updated: November 01, 2024, 1:20 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

حالیہ فیصلے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ۴۲؍ ویں ترمیم کے ذریعہ دستور ہند کی تمہید یا تعارف ’سیکولرازم‘ کا لفظ جوڑے جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے ہندوستان ’سیکولر‘ تھا ہی نہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

سپریم کورٹ کے سامنے دو معاملات تھے، ایک تو وہ پٹیشنز تھے جن میں  دستور ہند کی ۴۲؍ ویں  ترمیم کو چیلنج کیا گیا تھا اور دوسرا معاملہ وہ جو یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۴ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق رد کئے جانے سے تعلق رکھتا تھا۔ دونوں  کا تعلق سیکولرازم سے تھا۔ دونوں  معاملات میں  سپریم کورٹ نے ایسے فیصلے کئے کہ ’’سیکولرازم‘‘ کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوگئی۔
 پٹیشنرز کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی کے دوران جب بیشتر اپوزیشن لیڈران جیل میں  تھے ۴۲؍ ویں  ترمیم کے ذریعہ ’سیکولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ کے الفاظ دستور کی تمہید یا تعارف میں  شامل کئے گئے تھے اور ’سیکولرازم‘ کا دم بھرنے والے بھی مذہب کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے اس کا جواب یہ دیا کہ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں  سے ثابت ہوتا ہے کہ سیکولرازم ہندوستانی دستور کی ساخت کا حصہ ہے اور سیکولرازم کا ہندوستانی تصور فرانسیسی تصور سے اور ’سوشل ازم‘ کا ہندوستانی تصور مغربی تصور سے مختلف ہے۔ سپریم کورٹ کے احترام کے باعث ہی نہیں  دوسری صورت میں  بھی دونوں  باتوں  سے مَیں  اتفاق کرتا ہوں ۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ ہندوستان کی مذہبی زندگی اور فلسفہ بھی سیکولرازم سے ہی عبارت ہے۔ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو جو ہوا وہ شرمناک تھا، نیم فوجی دستوں  نے مسجد کی حفاظت نہیں  کی اور انہیں  کوئی سزا نہیں  دی گئی، یہ اس سے بھی زیادہ شرمناک تھا مگر سابق چیف جسٹس گگوئی کے راجیہ سبھا میں  داخل ہوتے ہوئے شرم شرم کے جو نعرے لگائے گئے وہ ہندوستان کے سیکولر ہونے یا سیکولرازم کی راہ سے نہ ہٹنے کا ہی ثبوت ہے۔
 حالیہ فیصلے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ۴۲؍ ویں  ترمیم کے ذریعہ دستور ہند کی تمہید یا تعارف ’سیکولرازم‘ کا لفظ جوڑے جانے کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ اس سے پہلے ہندوستان ’سیکولر‘ تھا ہی نہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ مساوات کی بات ہو یا دستور ہند میں  استعمال کئے گئے لفظ بھائی چارگی کا سوال ہو یا دستور ہند کے تیسرے حصے میں  بیان کئے گئے حقوق و اختیارات کی بات ہو نظریاتی سطح پر سب سے ہندوستانی دستور کی وہ خصوصیت ظاہر ہوتی ہے جس کو ’سیکولرازم‘ کہتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں  جسٹس کھنہ نے پٹیشنرز (درخواست یا پٹیشن دائر کرنے والوں ) سے سیدھا سوال کیا کہ کیا آپ نہیں  چاہتے کہ ہندوستان سیکولر ملک ہو۔ پٹیشنرز کا جواب تھا کہ انہیں  ملک کے ’سیکولر‘ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں  ہے وہ صرف دستور ہند میں  کی گئی ۴۲؍ ویں  ترمیم کو چیلنج کر رہے ہیں ۔ بے شک ایسا ہی ہے مگر اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں  کیا جاسکتا کہ ایک طبقہ اسی دستوری جمہوریت میں  ایسا بھی ہے جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ ابھی ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کی بات ہے پونے سے ممبئی آنے کیلئے میں  ادیان ایکسپریس کے بی-اے، ڈبے کی ۶۸؍ نمبر برتھ پر پہنچا تو ایک عورت بڑی لڑکی اور چھوٹے لڑکے کے ساتھ سوئی ہوئی تھی، اوپر کی برتھ پر اس کا شوہر تھا اس نے اپنے موبائل میں  کچھ لکھ بھی رکھا تھا۔ مَیں  نے کہا کہ ریلوے سے آپ کی بات ہوئی ہوتی تو ریلوے نے مجھ کو اطلاع دی ہوتی مگر انہوں  نے برتھ خالی نہیں  کی۔ ایک دوسری برتھ پر مَیں  بیٹھ گیا۔ چیکر آیا اس کو مَیں  نے ساری بات بتائی تو وہ ہنسنے لگا۔ اس کی سمجھ میں  آگیا تھا کہ ساری بات اور تحریر بناوٹی ہے مگر چونکہ برتھ مجھ کو مل چکی تھی اس لئے مَیں  نے کوئی شکایت نہیں  کی۔ کیا یہ دھاندلی نہیں  ہے کہ حکومت یا انتظامیہ کی طرف جھوٹی تحریر منسوب کی جائے۔ میری برتھ پر لیٹی ہوئی عورت کو کہنا چاہئے تھا کہ یہ آپ کی برتھ ہے مگر دوسری پر بیٹھ سکتے ہیں  مَیں  بچے کو لے کر دوسری برتھ پر نہیں  جاسکتی یا ٹکٹ چیکر کہہ سکتا تھا کہ برتھ آپ کو الاٹ ہوئی ہے تو قابض لوگوں  کو ہٹنا پڑے گا۔ مَیں  خود سے برتھ دے دیتا اور وہ میری انسانیت ہوتی مگر ایسا نہیں  ہوا۔ جبر و مکر کے ذریعہ کچھ لوگ ریلوے ریزرویشن کا مذاق اڑانے میں  کامیاب ہوئے۔ یہ لاقانونیت کا بھی نمونہ ہے اور ہندوستانی سیکولرازم کے عملی پہلو کا بھی۔ زندگی کے ہر شعبے میں  قانون شکنی قانونی اختیارات یا Majoritarianism کے نام پر کی جا رہی ہے اس کے باوجود ہم سیکولرازم کے مخالف نہیں ۔ سیکولرازم ایماندری، انسانیت اور انصاف کا دوسرا نام ہے۔ ہندوستان میں  اس کا مطلب لادینیت نہیں  مذہبی رواداری ہے۔
 دوسرا معاملہ یہ تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۴ء کو سیکولرازم کے خلاف قرار دیتے ہوئے رد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے سبب یوپی کے ۱۳؍ ہزار سے زیادہ مکاتب و مدارس میں  پڑھ رہے ۱۲؍ لاکھ سے زیادہ طلبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ضرورت مدارس و مکاتب کو ممنوع یا انہیں  غیر قانونی قرار دینے کی نہیں  بلکہ ان کو مین اسٹریم میں  لانے یعنی تعلیمی نظام کا حصہ بنانے کی ہے۔ یہاں  یہ وضاحت ضروری ہے کہ مدارس و مکاتب پہلے ہی ہندوستانی نظام تعلیم کا حصہ ہیں ۔ اوپن اسکول، فاصلاتی کورسیز اور اوپن یونیورسٹی کورسیز کے ذریعہ مدارس کے طلبہ پہلے ہی اس نظام کو تقویت پہنچا رہے ہیں ۔ ابتدائی درجات میں  تعلیم کے ذریعہ وہ کام کر رہے ہیں  جو بلدیہ اور کارپوریشن کو کرنا چاہئے۔ کچھ مدارس یقیناً ایسے ہوسکتے ہیں  جو چندہ خوری یا حکومت کی امداد یا عطیہ ہڑپ لینے کے لئے قائم کئے گئے ہوں  مگر یہ کام افسروں  کی اعانت کے بغیر نہیں  کیا جاسکتا۔ حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ مدارس کو ختم کرنے کے بجائے ایسے لوگوں  اور افسروں  کو لگام دے یا کیفر کردار تک پہنچائے جو مدارس کی صورت مسخ کرتے یا ان کی بدنامی کا سبب بنتے یا مدارس کو بند کرانے کی سازش کرکے مدارس کے اساتذہ کو زیادہ تنخواہ دینے کا ڈھونگ رچاتے ہیں  کہ ووٹ حاصل کرسکیں ۔

یہ بھی پڑھئے:بہار کی سیاسی فضا کو مکدر بنانے کی کوشش!

 سپریم کورٹ کے دونوں  فیصلے قابل قدر ہیں  مگر ضرورت ہے ان کے ہر سطح پر نافذ کئے جانے کی۔ ہمارے یہاں  سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یوں  تو ہم سیکولر ہیں  دستور ہند سے سپریم کورٹ کے فیصلوں  تک اس کی دہائی دی جاتی ہے مگر جب دو مذاہب کے لوگوں  میں  نزع پیدا ہوتا ہے تو ہم اپنے یا طاقتور گروہ کے حامی بن جاتے ہیں  اگرچہ ’اپنا‘ یا ’طاقتور گروہ‘ جارح اور غاصب ہو۔ سیکولرازم کو دستور کی دفعہ یا سپریم کورٹ کے فیصلے تک محدود نہیں  کیا جاسکتا اس کو نظریے، رویے اور عمل میں  جگہ دی جانی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK