بامبے ہائی کورٹ نے بدلاپور میں بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعے کے حوالے سے بہت صحیح سوال اٹھایا ہے کہ جب اسکول تک محفوظ نہیں ہیں تو تعلیم کے حق پر بات کرنے یا اس کا مطالبہ کرنے سے کیا فائدہ؟ یہاں تک کہ چار سال کی بچیوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے؟
EPAPER
Updated: August 30, 2024, 1:35 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
بامبے ہائی کورٹ نے بدلاپور میں بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعے کے حوالے سے بہت صحیح سوال اٹھایا ہے کہ جب اسکول تک محفوظ نہیں ہیں تو تعلیم کے حق پر بات کرنے یا اس کا مطالبہ کرنے سے کیا فائدہ؟ یہاں تک کہ چار سال کی بچیوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے؟
بیٹے اور بیٹی سے ہماری محبّت میں تفریق کا یہ حال ہے کہ بیٹے کو یہ سمجھ کر، کہ پرائیویٹ اسکولوں میں اچھی تعلیم دلائی جاتی ہے، زیادہ فیس اور خرچ والے اسکولوں میں پڑھاتے ہیں اور بیٹی کو جیسے تیسے ایسے اسکول میں بھیجتے ہیں جہاں کم سے کم فیس ہو اس کے باوجود لڑکیاں لڑکوں پر سبقت لے رہی ہیں ۔ مرکزی وزارت تعلیم نے دسویں اور بارہویں کے ۵۹؍ بورڈس کے نتائج کا جو تجزیہ اپنی حالیہ رپورٹ میں پیش کیا ہے اس سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ ملک میں طالبات کی پیشقدمی مسلسل جاری ہے۔ نیشنل بورڈ ہو یا ریاستی (اسٹیٹ) بورڈس اور سرکاری اسکول ہوں یا پرائیویٹ، ہر جگہ لڑکیوں کے لڑکوں کے مقابلے پاس ہونے کا فیصد تو زیادہ ہے ہی مضامین کے انتخاب (اسٹریم سلیکشن) میں بھی لڑکیاں لڑکوں سے بہتر ہیں ۔ مثلاً ۴۳؍ فیصد طلبہ سائنس میں داخلہ لیتے ہیں یا امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور ۳۴؍ فیصد آرٹس اسٹریم میں اور اگرچہ لڑکیوں کی تعداد آرٹس میں اور لڑکوں کی تعداد سائنس میں زیادہ ہوتی ہے مگر پاس ہونے کی مجموعی شرح کے علاوہ سائنس پڑھنے والی لڑکیوں کے پاس ہونے کی شرح بھی لڑکوں سے بہتر ہوتی ہے۔ بات صرف دسویں اور بارہویں بورڈ کی ہی نہیں ، جے ای ای اور نیٹ جیسے پیشہ ورانہ امتحانات میں بھی لڑکیوں کی کارکردگی دن بہ دن بہتر ہورہی ہے۔ دوسرے شعبوں میں بھی لڑکیاں اپنی کارکردگی سے لڑکوں پر سبقت حاصل کررہی ہیں ۔
اس کا مطلب ہے کہ لڑکیاں جتنا زیادہ پڑھیں گی ان کی خود اعتمادی میں اتنا اضافہ ہوگا لیکن اس خود اعتمادی کے ساتھ وہ گھر اور دفتر یا ورک پلیس یعنی جہاں وہ کام کرتی ہیں اپنے تحفظ کے ساتھ صحیح جگہ یا مرتبہ بھی چاہیں گی۔ لیکن مسلسل ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حیثیت کو تسلیم کرنا تو دور، ان کے تحفظ کی طرف بھی ہماری وہ توجہ نہیں ہے جو ہونا چاہئے۔ گلیوں ، چوراہوں ، اسکول کالج کے باہر اور اردگرد سڑک چھاپ عاشقوں کا تو ورک پلیس یعنی کام یا ملازمت کے مقامات پر جنسی حریص کام لینے والوں کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ سہاروں اور سرپرستوں سے محروم لڑکیاں اپنے قریب ترین رشتے داروں کے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ اگر کسی شخص کو توفیق ہوتی ہے کہ وہ عزیزوں کی خدمت اور کفالت کی محتاج لڑکے لڑکیوں کا سہارا بنے تو دس افراد کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ان کی کفالت تو میں کر رہا تھا اور وہ خود جن کی خدمت کرتا ہے وہ ان کی اولاد اور اس کے حاشیہ بردار پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اس کے سر پر تو فلاں صاحب کا ہاتھ تھا۔ اللہ بچائے ایسے لوگوں سے۔ ایسے لوگوں نے خوشحال گھرانوں کو ہی نہیں مستحکم سلطنتوں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ راقم الحروف نے اللہ کے فضل کے سہارے ہر دنیاوی سہارے سے محروم رکھ کر اپنی راہ بنائی اور دنیا کو دکھایا کہ جہاں چاہ ہے وہاں راہ ہے۔ جنہوں نے مجھے گھر میں رکھا ان سے کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ مگر ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو گھر اور کام کرنے کے مقامات پر محفوظ ہیں نہ اسکولوں اور کالجوں میں ۔
بامبے ہائی کورٹ نے بدلاپور میں بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعے کے حوالے سے بہت صحیح سوال اٹھایا ہے کہ جب اسکول تک محفوظ نہیں ہیں تو تعلیم کے حق پر بات کرنے یا اس کا مطالبہ کرنے سے کیا فائدہ؟ یہاں تک کہ چار سال کی بچیوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے؟ پولیس اس معاملے کو یا ان جیسے معاملات کو ہلکے میں کیسے لے سکتی ہے؟ پولیس کو بروقت اطلاع نہ دینے کے سبب کورٹ نے اسکول انتظامیہ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا اور کہا کہ جب تک عوام مشتعل نہ ہوں پولیس صحیح کام نہیں کرتی۔ یہی نہیں ہائی کورٹ کے دو جسٹس صاحبان نے، جن کی بینچ اس معاملے کی سماعت کررہی تھی یہاں تک کہا کہ لڑکیوں کے تحفظ کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ ظاہر ہے جو حقائق جسٹس صاحبان کے پیش نظر تھے وہ ہمارے یا ہمارے قارئین کے پیش نظر نہیں ہیں ۔ حقائق کے پیش نظر ہی ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے پوچھا کہ اس نے ان ایک لاکھ ۱۱؍ ہزار ۹؍ سو ۴۷؍ عورتوں اور بچوں کو برآمد کرانے کیلئے کیا اقدامات کئے جن کی گمشدگی کی رپورٹ درج ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ حکومت نے بچوں کی اسمگلنگ روکنے کیلئے کیا انتظامات کئے ہیں ؟ اس کا مطلب ہے کہ اس قسم کے واقعات ریاست میں ہوتے رہتے ہیں ۔ راقم الحروف ایسے واقعات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے:
lپہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو کسی کو پریشان اور بدنام کرنے کیلئے اس کو جھوٹے مقدمات یا معاملات میں پھنسانا چاہتے ہیں ۔
lدوسری قسم ان کی ہے جو وقتی طور پر بہک جاتے ہیں ۔ اور
lتیسری قسم ان کی ہے جو ذہنی اور نفسیاتی طور پر مریض ہیں ۔ ایسے ہی لوگ چار چھ سال کی بچیوں سے چھیڑخانی کرنے یا ان کو اذیت دینے کے مرتکب پائے جاتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے:وقف ترمیمی بل کے خلاف مسلم تنظیموں کی فعالیت؟
چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو بچوں ، عورتوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر یا انہیں جبراً قحبہ خانوں تک پہنچاتے ہیں ۔ بدلاپور میں جنسی استحصال کرنیوالے شخص کے بارے میں اخبارات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ اس نے تین شادیاں کی ہیں ۔ اس کی پہلی دو بیویاں شادی کے بعد زیادہ سے زیادہ پانچ دن اسکے ساتھ رہیں پھر جدا ہوگئیں ۔ اس کی تیسری بیوی ۵؍ مہینے کی حاملہ ہے اور اس سے اس کی شادی ۶؍ ماہ پہلے ہی ہوئی ہے۔ وہ بھی چند ماہ سے اپنے میکے میں ہے۔
اس قسم کے معاملات کا علاج یہ ہے کہ بچوں اور بڑوں کو پاکی و پاکبازی کے واقعات سنانے کے ساتھ پولیس سے مدد لی جائے۔ بدلاپور کے واقعے کے بعد ممبئی پولیس حرکت میں آئی ہے اس نے ۶؍ تا ۱۲؍ سال کی بچیوں کا تعاقب کرنے یا ہمیشہ اردگرد رہنےوالے ایک شخص یا نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔ اندھیری سے معذور بچی کا استحصال کرنے والا شخص گرفتار کیا گیا ہے۔ کاندیولی سے ۱۳؍ سال کی بچی سے چھیڑخانی کرنے والا استاد گرفتار ہوا ہے۔ دھاراوی سے ایک ایسا شخص گرفتار کیا گیا ہے جس نے ۱۴؍ سال کی ایک لڑکی کا چادر سے ہاتھ پیر باندھ کر جنسی استحصال کیا۔ سمتانگر سے ایسا شخص گرفتار ہوا جس نے چار سال کی بچی کے ساتھ منہ کالا کیا تھا۔ واقعات اور بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس متحرک ہوگئی ہے مگر عوام، تعلیم گاہوں کے اساتذہ اور ذمہ داروں یا گھر کے بڑوں کو پاکی و پاکبازی کی تحریک کو جس طرح بچوں کو پہنچانا چاہئے تھا انہوں نے نہیں پہنچایا ہے۔ گھناؤنی حرکت کرنے والے، افواہ پھیلانے اور موقع کا فائدہ اٹھانے والے البتہ سرگرم ہیں ۔ ایسی صورت میں بیہودہ واقعاتکم کیسے ہوں گے اور ہم کیسے بری الذمہ قرار دیئے جائیں گے؟