الفاظ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ مفید یا مضر الفاظ، حوصلہ افزا یا حوصلہ شکن الفاظ۔ اس عہد کی بے شمار مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں میں اس کا شعور ہی نہیں ہے۔ سب بول رہے ہیں، بہت بول رہے ہیں مگر سب بہت بے فیض بول رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 26, 2024, 1:59 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
الفاظ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ مفید یا مضر الفاظ، حوصلہ افزا یا حوصلہ شکن الفاظ۔ اس عہد کی بے شمار مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں میں اس کا شعور ہی نہیں ہے۔ سب بول رہے ہیں، بہت بول رہے ہیں مگر سب بہت بے فیض بول رہے ہیں۔
کبھی سوچا ہے ایک آدمی دن بھر میں کتنے الفاظ بولتا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں امریکہ کی چار سو یونیورسٹیوں کے ایسے طلبہ سے ڈیٹا جمع کیا گیا جو ساؤنڈ ریکارڈر استعمال کرتے تھے۔ اس آلہ میں محفوظ گفتگو کے تجزیئے سے نتیجہ نکالا گیا کہ ان طلبہ نے یومیہ اوسطاً ۱۶؍ ہزار الفاظ استعمال کئے۔ اسی تجزیئے میں ماہرین نے بتایا کہ کم بولنے والوں نے محض پانچ سو الفاظ میں دن گزار لیا جبکہ زیادہ بولنے والوں کو سینتالیس ہزار الفاظ درکار ہوئے۔
الفاظ گننا مشکل کام ہے۔ مشکل تو مشکل، بہت سے لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ مہمل اور بے معنی کام ہے۔ جس کے پاس کرنے کیلئے کچھ نہ ہو وہی یہ کرسکتا ہے۔ موبائل میں موجود نوٹ پیڈ پر کچھ لکھئے تو صفحہ کے بالائی حصے میں الفاظ کی تعداد دیکھی جاسکتی ہے کہ آپ نے کتنے الفاظ لکھے۔ کمپیوٹر میں بھی ’’ورڈ کاؤنٹ‘‘ کا کمانڈ موجود ہے۔ موبائل ابھی اس معاملے میں پسماندہ ہے۔ وہ دن بھر کی گفتگو کا مجموعی دورانیہ بتا سکتا ہے، الفاظ کی تعداد شمار نہیں کرسکتا مگر فکر مت کیجئے، نہایت تیزرفتاری سے پر پُرزے پھیلانے والے موبائل سے کچھ بعید نہیں ۔ ہوسکتا ہے وہ جلد ہی یہ بھی ظاہر کرنا شروع کردے مگر کتنے لوگ ہیں جو اسے اہمیت دینا چاہیں گے؟
اگر یہ شغل بے فیض ہے تو اس سے درگزر کیجئے اور مقدار کو چھوڑ کر معیار کی طرف آئیے۔ کوانٹیٹی کے بجائے کوالیٹی۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ تین الفاظ جادوئی اثر رکھتے ہیں : پلیز، سوری اور تھینک یو۔ لوگوں نے اس میں اضافہ کرکے کہیں پانچ، کہیں سات اور کہیں دس الفاظ کی فہرست بنائی ہے۔ انگریزی ہی میں ایسی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ الفاظ میں ہماری حقیقت اور حیثیت کے تعین کی طاقت ہوتی ہے، الفاظ مخاطب کو متاثر کرسکتے ہیں ، ترغیب دے سکتے ہیں ، خوشگوار احساس سے ہمکنار کرسکتے ہیں حتیٰ کہ باعث ِاندمال بن کر زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں ۔ الفاظ ہی سے رابطہ اور رشتہ بنتا ہے اور انہی سے رابطہ اور رشتہ غارت ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اہل انگریزی نے اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھیں اور عمدہ اظہار خیال کیا مگر کوئی مصنف ایسا نہیں ہے جس نے خوشگوار الفاظ کی فہرست یا لغت مرتب کردی ہو۔ اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ کئی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ’’انسان کو خوشگوار الفاظ ہی کا استعمال کرنا چاہئے‘‘۔ مگر انسان چاہے بھی تو یہ مشکل ہے کیونکہ اس کے حافظے میں محفوظ بیشتر الفاظ ماحول کی عطا ہوتے ہیں جو خوشگوار کم اور ناخوشگوار زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ اگر ماہرین کا اصرار خوشگوار الفاظ پر ہے تو اِس نوع کا ذخیرۂ الفاظ شعوری کوشش کے ذریعہ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے فہرست ِ الفاظ یا لغت ضروری ہے ورنہ خوشگوار الفاظ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی تلقین یا مشورہ کو جو لوگ غیر ضروری اور بے فائدہ سمجھتے ہیں اُن سے اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وقت نکال کر فہرست مرتب کرینگے کہ کل سے ہمیں ان خوشگوار الفاظ کا سہارا لینا ہے !
کیا یہ خشک بحث ہے؟ کیا یہ خشک موضوع ہے؟ ان دو سوالوں کا جواب اثبات میں ہے یا نفی میں ، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے خیال میں آس پاس کا ماحول کتنا زہر آلود ہے۔ منافرت آمیز الفاظ اور جملے بلا تامل بولے جا رہے ہیں ۔ جس طرح گردو غبار اور دھواں ، زمین سے اُٹھ کر آسمان پر سیاہی مائل چادر کی طرح تن جاتا ہے اُسی طرح ناخوشگوار الفاظ بھی اُفق کو سیاہی مائل کرنا شروع کردیں تو اندازہ ہوگا کہ فضائی آلودگی کا سبب بننے والی ایک اور چیز ہے جو صحت کیلئے مضر بلکہ ہلاکت خیز ہے۔ وہ ہے منافرت آمیز، تحقیر آمیز اور تذلیل آمیز الفاظ۔ سیاسی فضا میں کئی الفاظ اور جملے تو ایسے ہیں کہ جن میں آگ لگا دینے کی قوت ہے۔ سیاست ایسے اذیت دینے والے الفاظ اور جملوں کی عادی ہوگئی ہے۔ ہر وہ سیاستداں جو دوسروں پر، خواہ وہ اُسی کے قبیلے کے ہوں ، سبقت لے جانا چاہتا ہے تو قبیح سے قبیح الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جب سیاست اتنا زہر پھیلانے پر تُلی ہو تو اس کی کاٹ کون کرے گا؟ کیا سما ج کو یہ ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہئے؟ ’’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان‘‘ کا نعرہ سن کر اسی لئے طمانیت کا احساس ہوا تھا مگر یہ کام کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کا نہیں ہے۔ یہ سماج کا کام ہے۔ سماج کے افراد کا کام ہے کہ آپس میں محبت، بھائی چارہ اور اتحاد و یگانگت کے ماحول کو تقویت دیں ۔ اس کیلئے خوشگوار الفاظ کے استعمال کو روزمرہ کی گفتگو میں شامل کرنا ہی ہوگا۔ یہ سب کی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ ملک کے ملے جلے سماج میں کل تک کئی الفاظ لوگوں کی ذہنی تربیت کاسبب بنتے تھے۔ ’’یہ مت کرو پاپ لگے گا!‘‘ یہ جملہ آپ نے کتنے برسوں سے نہیں سنا؟ ’’بابو جی بڑے دَیالو ہیں !‘‘ یہ لفظ ’’دَیالو‘‘ کہاں کھو گیا؟ لوگ باگ کچھ غلط ہوتا ہوا دیکھتے یا اس بابت سنتے تو فوراً اُسے مسترد کرتے ہوئے کہتے تھے: ’’کلجگ ہے بھیا کلجگ‘‘۔ اب کوئی کہتا ہے ایسا؟ اور ہاں ، گاندھی جی کے تین بندروں کاکچھ اتہ پتہ ہے؟ بُرا مت دیکھو، بُرا مت سنو، بُرا مت کہو کی تلقین کسی کو یاد ہے؟ سیاست نے تو بھلا دیا، سماج نے کیوں بھلایا؟
یہ بھی پڑھئے:آسام کے ۴۰؍ لاکھ لوگوں کے بارے میں معتدل فیصلہ
مسلم معاشرہ میں خیر کے الفاظ کی بہتات تھی، دُعائیں دینے کا چلن تھا، جھوٹ، غیبت، مبالغہ آرائی، لغو گوئی، دخل اندازی، بہتان طرازی اور الزام تراشی سے روکنے کا رواج تھا۔ ایسے بزرگ تھے جو بات بات میں ’’اللہ معاف فرمائے‘‘ کہتے تھے۔ ایسی عورتیں تھی جو بار بار ’’اِلٰہی توبہ!‘‘ کہتی تھیں جبکہ اُن کی گفتگو آج کی گفتگو کے مقابلے اعلیٰ سطح کی ہوتی تھی۔ کہاں گئے یہ اطوار؟ اب تو جو باتیں نہیں ہونی چاہئیں وہ بھی ہوتی ہیں ۔ موبائل، واٹس ایپ او رچیٹنگ کی سہولتوں نے معاشرہ کو بے لگام کردیا ہے۔ عام گفتگو خوشگوار، صحتمند اور معیاری الفاظ سے عاری ہے، اسی لئے لوگ ایک دوسرے کیلئے کارآمد نہیں رہ گئے اور ترغیب حاصل کرنے کیلئے ترغیبی خطبات بالخصوص یوٹیوب پر موٹیویشنل لیکچر سنتے ہیں ۔ یہ اسلئے ہوا ہے کہ معاشرہ میں موٹیویشن نہیں ہے۔ الفاظِ خیر کی کثرت جو معاشرہ کی شان تھی، قلت میں بدل چکی ہے اور معاشرہ کے نام پر کچھ ہے تو وہ ہے معاشرہ کا ڈھانچہ۔