پر کشش انتخابی نعروں کی تخلیق کے فن میں ماہر وزیر اعظم مودی نے مہاراشٹر میں ’’ ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ کا نیا نعرہ بلند کیا ہے۔ مودی جی کو تو شورش زدہ منی پور کا دورہ کر کے لوگوں کے درمیان ایکتا اور بھائی چارے کا یہ پیغام پہنچانا چاہئے تھا کیونکہ پورا شمال مشرقی صوبہ نسلی تقسیم کا شکار ہوچکا ہے۔
مہاراشٹر ہندوستان کادوسری سب سے بڑی آبادی والا صوبہ ہے جہاں مختلف مذاہب اور ذات پات کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ ہر صوبے کی طرح اس صوبے میں بھی کبھی کبھی آپسی جھگڑے فساد بھی ہوتے ہیں لیکن عمومی طور پر یہاں امن اور بھائی چارہ رہتا ہے۔ مہاراشٹر میں سماجی تانا بانا بھی ٹوٹا نہیں ہے اور نہ ہی صورتحال ایسی ہے کہ ایک علاقے کے لوگ کسی دوسرے علاقے میں قدم رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مہاراشٹر کے لوگوں کے سیاسی اور نظریاتی اختلافات بھی ہیں لیکن اس نظریاتی تفریق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ مہاراشٹر میں حالات پوری طرح نارمل ہیں۔ درج بالا صورتحال تو منی پور کی ہے جہاں معاشرتی اور نسلی اتحاد اور ہم آہنگی کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ بی جے پی لیڈران مہاراشٹر کی انتخابی مہم کے دوران ’’ بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ اور’’ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ جیسے نعرے کیوں بلند کررہے ہیں؟ اس وقت جس صوبے کو ان نعروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ تو منی پور ہے جہاں لوگ اٹھارہ مہینوں سے بٹے ہوئے بھی ہیں اور مر کٹ بھی رہے ہیں۔ کانگریس صدر کھڑگے کے الفاظ میں ’’ منی پور نہ ایک ہے اور نہ ہی سیف ہے۔‘‘ پر کشش انتخابی نعروں کی تخلیق کے فن میں ماہر وزیر اعظم مودی نے مہاراشٹر میں اپنی حالیہ تقریروں کے ذریعہ قوم کو’’ ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ جیسے نئے نعرے سے متعارف کروایاہے۔وہ ان دنوں نائیجیریا اور برازیل کے دورے پر ہیں۔ مودی جی کو تو شورش زدہ منی پور کا دورہ کر کے لوگوں کے درمیان ایکتا اور بھائی چارے کا یہ پیغام پہنچانا چاہئے تھا کیونکہ پورا شمال مشرقی صوبہ نسلی تقسیم کا شکار ہوچکا ہے اور پچھلے اٹھارہ ماہ سے تشدداور تخریب کاری کی آگ میں جل رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ صوبے پر بیرین سنگھ حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ حکومت خود اپنی کابینہ کے وزرا اور اراکین اسمبلی کے جان مال کی حفاظت کرنے میں بھی ناکام نظر آرہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کتنا نااہل ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگاسکتے ہیں کہ خود اس کی آبائی رہائش گاہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
منی پور میں ۷؍نومبر سے قتل و غارتگری کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس میں اب تک بیس لوگ مارے جا چکے ہیں۔ میتئی اور کوکی باشندے ایک دوسرے کی جان لینے پر تلے ہیں۔راحت کیمپوں اور تھانوں پر حملے ہورہے ہیں۔ پناہ گزیں کیمپ سے پچھلے ہفتے اغواکی گئی عورتوں اور بچوں کی لاشوں کی بر آمدگی کے بعد سے صورتحال بے حد ابتر ہوگئی ہے۔ اس سانحہ کی خبر پھیلتے ہی مشتعل میتئی باشندوں نے سیاسی لیڈروں کے گھروں پر حملہ شرو ع کر دیا۔کوکی قبائلیوں کا دیرینہ الزام ہے کہ حکومت میتئی باشندوں کی حامی اور ہمدرد ہے۔ میتئی باشندے جو پہلے حکومت کے ساتھ تھے اب وہ بھی ناراض نظر آرہے ہیں حالانکہ وزیر اعلیٰ خود میتئی ہیں۔ بیرین سنگھ کی ناکارہ حکومت صوبے کے تمام شہریوں کا اعتماد کھوچکی ہے۔پہلے صرف کوکی باشندے بیرین سنگھ کے استعفے کا مطالبہ کرتے تھے اب میتئی کی بھی یہی مانگ ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ امن بحال نہیں کرسکتے ہیں تو فوراًگد ی چھوڑ دیں۔ مخلوط حکومت کی اتحادی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی حمایت واپس لے لی ہے۔ بلاشبہ منی پور میں ہر طرف سماجی انتشار اور سیاسی عدم استحکام پھیلا ہوا ہے۔
دراصل پچھلے ڈیڑھ سال میں منی پور دو کیمپوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ میتئی جو ہندوہیں وادی امپھال میں رہائش پذیر ہیں اور کوکی قبائلی جو کرسچین ہیں،پہاڑوں پر رہتے ہیں۔دونوں کو ایک دوسرے پر حملے کرنے سے روکنے کے لئے حفاظتی بفر زون بنادیئے گئے ہیں جہاں سیکوریٹی فورسز تعینات ہیں۔ لیکن پولیس، نیم عسکری دستے اور ملٹری بھی خون خرابہ روکنے میں ناکام ہے۔منی پور میں ’’ڈبل انجن والی سرکار‘‘کے ڈھول کا پول پوری طرح کھل چکا ہے۔ بدامنی پر قابو پانے کے لئے مودی حکومت نے چودہ نومبر کو متعدد اضلاع میں آرمڈ فورسز (اسپیشل پاورز) ایکٹ یعنی AFSPA پھر سے نافذ کردیا۔ دوسرے ہی دن بیرین سنگھ کابینہ نے مرکز کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور وزارت داخلہ کو ایک خط لکھ کر اسے فوراًہٹالینے کا مطالبہ کردیا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ دہلی اور امپھال میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں اس کے باوجود دونوں میں تال میل کا اس قدر فقدان ہے کہ اس کلیدی نکتہ پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا کہ صوبے میں جاری تشدد کی روک تھام کے لئے کون سے اقدام ضروری ہیں۔
ڈیڑھ سال سے ملک کے ایک سرحدی صوبے میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی ہے لیکن دہلی میں جیسے کسی کو کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم دنیا بھر کے ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں لیکن منی پور جانے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ وزیر داخلہ ایک بارصورتحال کا جائزہ لینے امپھال گئے تھے لیکن اس کے بعد سے خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ مرکز اور صوبائی دونوں حکومتیں منی پور کی بد امنی اور انتشار کے لئے پوری طرح ذمہ دار ہیں۔
قتل و غارت گری کے حالیہ واقعات نے شاہ صاحب کو مہاراشٹر کی انتخابی مہم ملتوی کرکے دہلی لوٹنے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے پیر کے دن اہم اعلیٰ سطحی میٹنگ میں منی پورمیں امن قائم کرنے کے لئے پانچ ہزار اضافی مرکزی فورس روانہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزیر داخلہ کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ بندوقوں کے سائے میں تشدد پر عارضی لگام تو لگا ئی جاسکتی ہے لیکن دائمی امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر معاشرے میں مساوات اور انصاف نہیں ہوگا تو وہاں بدامنی اور انتشار جنم لے گا۔حکومت اپنے بیانات اور اعمال سے صوبے کے ہر شہری کو یہ یقین دہانی کرائے کہ کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں ہوگا بلکہ سبھوں کو انصاف ملے گا۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ حکومت نے دونوں نسلی گروہوں کوقریب لانے کیلئے کوئی پیش رفت تک نہیں کی ہے۔اس وقت میتئی اور کوکی گروہوں کے درمیان مکالمے اور مذاکرات کی فوری ضرورت ہے۔دونوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور اس کیلئے اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ جو وزیر اعلیٰ خود سبھوں کا اعتماد کھو چکا ہے اس سے بھلا کیسے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ متحارب گروہوں کے باہمی شک و شبہات کا ازالہ کر کے مذاکرات کیلئے موزوں ماحول پیدا کرسکے گا۔ حکومت ماں جیسی ہونی چاہئے جو اپنے سارے بچوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرے۔ اٹل بہاری واجپائی نے جو نصیحت دو دہائی قبل گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو دی تھی اس وقت وزیر اعظم مودی کو وہی نصیحت منی پور کے وزیر اعلیٰ کو دینے کی ضرورت ہے: راج دھرم کا پالن کرو۔