• Sat, 21 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

منی پور میں’’ وار‘‘ کب رکوائیں گے؟

Updated: September 11, 2024, 1:12 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

جب اپنے گھر میں آگ لگی ہو تو دور دراز کے محلے کے جھگڑے سلجھانے کے بجائے پانی بھری بالٹی لے کر اپنے گھر کی جانب دوڑ لگانی چاہئے۔مودی جی کی ہزاروں کلو میٹر دور یوکرین میں امن قائم کروانے کی کوششیں قابل ستائش ہیں لیکن کیا یہ زیادہ ضروری نہیں ہے کہ پہلے اپنے گھر میں جاری خانہ جنگی ختم کروائی جائے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پچھلے دس برسوں  میں  نریندر مودی نے ملک و قوم کو جن نت نئے سیاسی شگوفوں  سے متعارف کرایا ہے انہی میں  سے ایک ہے’’ڈبل انجن والی سرکار۔‘‘ مرکز اور ریاستوں  میں  الگ الگ سیاسی جماعتوں  کی حکومتوں  کا قیام ایک صحت مند جمہوری وفاقی نظام کاخاصہ ہے لیکن وزیر اعظم سے ہمیں  یہ گیان پراپت ہوا کہ اگر مرکز اور صوبے میں  ایک ہی پارٹی کی سرکار یں  نہیں  ہوں  گی تو نہ تو صوبے میں  وکاس ہوگا اور نہ ہی جنتاکا کلیان۔ میرے خیال میں  ماہرین کے لئے ریسرچ کا یہ ایک دلچسپ موضوع ہوسکتا ہے کہ کس طرح ’’ڈبل انجن والی سرکار‘‘کی افادیت کی داستانوں  سے متاثر ہوکر لوگوں  نے متعددصوبوں  میں  بی جے پی کو اقتدار سونپ دیا۔
’’پندرہ لاکھ روپے‘‘ اور’’گجرات ماڈل‘‘ کی طرح ’’ڈبل انجن والی سرکار‘‘ بھی کتنا پرفریب ’’جملہ‘‘ تھا، منی پور اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ منی پور کا حشر دیکھ کر صاف ظاہر ہے کہ دونوں  انجن پوری طرح فیل ہوچکے ہیں ۔ منی پورمیں  ۲۰۱۷ء سے این بیرین سنگھ کی قیادت والی بی جے پی کی حکومت ہے۔ڈبل انجن کی سرکاروں  کی نوازشوں  سے مالامال ہوکر سات برسوں  میں  اس شمال مشرقی صوبے کو امن اور ترقی کا گہوارہ بن جانا چاہئے تھا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ منی پور پچھلے سولہ ماہ سے خانہ جنگی سے نبرد آزما ہے جہاں  نسلی اور گروہی تشدداور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ ۳۵؍لاکھ کی آبادی والی اس ننھی منی سی شمال مشرقی ریاست میں  ۶۰؍ہزار سے زیادہ مرکزی فورسیز اور منی پور پولیس ڈیڑھ سال سے امن قائم کرنے میں  ناکام رہی ہیں ۔
 مئی ۲۰۲۳ء میں  نسلی تشدد کی جو آگ بھڑکی تھی وہ آج تک نہیں  بجھی ہے۔ گزشتہ چند دنوں  میں  تشدد کی نئی لہرجس سطح پر جاپہنچی ہے وہ یقیناً ہر ہندوستانی شہری کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ نسلی تشدد میں  پہلے چھریوں ، بموں ، پستولوں  اور بندوقوں  کا استعمال ہورہا تھا لیکن یکم ستمبر سے جو حملے ہورہے ہیں  ان میں  ڈرون، میزائیل اور راکٹ استعمال کئے جارہے ہیں ۔ اس نوعیت کے حملے غزہ اور یوکرین کے وار زون میں  تو دیکھے جاتے ہیں  لیکن اپنے وطن کے ایک حصے میں  ان کی توقع بھی نہیں  کی جاسکتی تھی۔ ’ڈیکن ہیرالڈ‘  کے تازہ اداریہ کی سرخی Manipur: A war-like situation now شورش زدہ صوبے کی سنگین صورتحال بیان کرنے کیلئے کافی ہے۔
 مسئلہ صرف صوبے کے لاء اینڈ آرڈر کے انہدام کا نہیں  رہ گیا ہے: مسئلہ اب ملک کے ایک حساس خطے کی سلامتی کاہے۔ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں ۔ منی پور میں  حکومت نام کی کوئی شے ہے بھی یا نہیں  اس بات پر بھی شبہ ہورہا ہے۔ سولہ ماہ میں  ایک نادیدہ دیوار نے صوبے کو دو حصوں  میں  تقسیم کردیا ہے۔میتئی باشندے وادی امپھال میں  اور کوکی باشندے پہاڑوں  پر محدود ہوکر رہ گئے ہیں ۔ خاردار تاروں  کے جال، سیکورٹی فورسیز کی بکتر بند گاڑیوں  اورچیک پوائنٹس نے کوکی آبادی کو میتئی آبادی والے علاقوں  سے بالکل الگ کردیاہے۔ صرف عام شہری ہی نہیں  سرکاری افسران اور پولیس اہلکار بھی پوری طرح تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں ۔ حالات کتنے خراب ہیں  اس کا اندازہ قارئین اس بات سے لگا سکتے ہیں  کہ دس اراکین اسمبلی جن کا تعلق کوکی زو برادری سے ہے پچھلے سولہ ماہ سے ایوان اسمبلی میں  قدم تک نہیں  رکھ سکے ہیں ۔ ان دس میں  سے سات ایم ایل ایز کا تعلق حکمراں  بی جے پی سے ہے۔ مطلب یہ کہ بیرین سنگھ حکومت اتنی بے بس ہے کہ وہ اپنے پارٹی کے ایم ایل ایز تک کو تحفظ فراہم کرنے میں  ناکام ہے۔فوج اور پولیس بھی پولارائز ہوچکی ہیں ۔ میتئی باشندوں  کا مرکزی فورس سے اور کوکی قبائلیوں  کا منی پور پولیس سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔پیر کے دن ایک سابق کوکی فوجی کو اغواء اور ٹارچرکرکے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا کیونکہ وہ انجانے میں ’’ ` دشمن‘‘ کے علاقے میں  چلاگیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:مصائب ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں

 یہ سچ ہے کہ منی پور میں  نسلی اختلافات اور تنازعات نئے نہیں  ہیں  اور نہ ہی یہ بی جے پی کی دین ہیں ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب سے بی جے پی صوبے میں  اقتدار میں  آئی ہے تب سے اس نے اپنی سیاست چمکانے اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر ان اختلافات کو بڑھاوا ضرور دیا ہے۔ راج دھرم کا تقاضہ تھا کہ حکومت تمام باشندوں  کے ساتھ مساویانہ سلوک کرتی لیکن کوکی قبائلیوں  کا دیرینہ الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ (جو خود میتئی ہیں ) کا رویہ ان کے تئیں  متعصبانہ اور معاندانہ ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ صرف کوکی بلکہ میتئی باشندے بھی سنگھ سے بدظن ہوچکے ہیں  اور ان کی فوری برطرفی چاہتے ہیں ۔’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘کی بی جے پی کی پالیسی منی پور میں  منہ کے بل گرپڑی ہے۔کلکتہ کے اسپتال میں  ایک جونیئر ڈاکٹر کے ریپ اور مرڈر پر بی جے پی نے ایک ماہ سے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ بنگال میں  وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے استعفے اور صدر راج کے نفاذ کا مطالبہ بھی جاری ہے۔ منی پور میں  لاء اینڈ آرڈر کا شیرازہ بکھر چکا ہے، تقریباً ڈھائی سو لوگ مارے جاچکے ہیں ،ساٹھ ہزار سے زیادہ اجڑے ہوئے لوگ پناہ گزیں  کیمپوں  میں  کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ، ان گنت عورتیں  نہ صرف گینگ ریپ کا شکار ہوئیں  بلکہ انہیں  برہنہ کرکے ان کا پریڈ بھی کرایا گیا۔ ان سب کے باوجودسارے دیش کو ناری سمان کا اپدیش دینے والے حکمراں  بیرین سنگھ کو ہٹانے کی ہمت نہیں  دکھاپارہے ہیں ۔ پچھلے سولہ ماہ میں  وزیر اعظم مختلف ممالک کا دورہ کرچکے ہیں ۔ وہ ماسکو اور یوکرین تک ہوآئے لیکن انہیں  منی پور جانے کی فرصت نہیں  ملی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ ایک بار منی پور گئے تھے لیکن اس کے بعد سے وہاں  کا دورہ کرنا تو دور انہوں  نے صوبے کا نام تک لینا چھوڑ دیا۔
گودی میڈیا دن رات روس اور یوکرین کی جنگ کی رپورٹنگ کرتا رہتا ہے۔ ان دنوں  مودی بھکتی سے سرشار ٹی وی نیوز اینکرز قوم کو یہ چورن بیچ رہے ہیں  کہ مودی جی نے یوکرین کی جنگ رکوانے کے لئے پیش رفت کی ہے اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کو اسی لئے ماسکو بھیجا گیا ہے۔مودی بھکتوں  کی مانیں  تو بھارت وشو گرو بن چکا ہے اور ساری دنیااب اپنے مسائل حل کروانے کے لئے مودی جی کی جانب امید بھری نظروں  سے دیکھ رہی ہے۔
جب اپنے گھر میں  آگ لگی ہو تو دور دراز کے محلے کے جھگڑے سلجھانے کے بجائے پانی بھری بالٹی لے کر اپنے گھر کی جانب دوڑ لگانی چاہئے۔ ہزاروں  کلو میٹر دور یوکرین میں  امن قائم کروانے کی کوششیں  قابل ستائش ہیں  لیکن کیا یہ زیادہ ضروری نہیں  ہے کہ پہلے اپنے گھر میں  جاری خانہ جنگی ختم کروائی جائے۔ عام انسان ہو یا کسی ملک کی حکومت جب تک اس کی ترجیحات درست نہیں  ہوں  گی اس کے حالات درست نہیں  ہوں  گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK