• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کون ذمہ دار ہے جعلی ڈگریوں کے کاروبار کا ؟

Updated: July 19, 2024, 1:42 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

نیٖٹ کا معاملہ ابھی پرانا نہیں ہوا ہے کہ راجستھان کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی (چرو کی اوم پرکاش جوگندر سنگھ یونیورسٹی) کی جاری کی ہوئی جعلی سرٹیفکیٹ کے پکڑے جانے کے بعد ۴۳؍ ہزار ڈگریوں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

نظام تعلیم میں  بہتری لانے اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں  نے کئی اقدامات کئے ہیں  لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بے ایمانی اور بدعنوانی کو راہ دینے والا ذہن ان کے انسداد کی کوشش کرنے والے ذہن پر غالب ہے اس لئے بے ایمانی کرنے والے اپنے فائدے کی راہ نکال ہی لیتے ہیں ۔ نیٖٹ کا معاملہ ابھی پرانا نہیں  ہوا ہے کہ راجستھان کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی (چرو کی اوم پرکاش جوگندر سنگھ یونیورسٹی) کی جاری کی ہوئی جعلی سرٹیفکیٹ کے پکڑے جانے کے بعد ۴۳؍ ہزار ڈگریوں  کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ یہ تمام ڈگریاں  اسی یونیورسٹی نے جاری کی تھیں ۔ یونیورسٹی کی ابتدا ۲۰۱۳ء میں  ہوئی۔ ۸؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو فزیکل ٹریننگ امتحان کیلئے درخواست دینے والوں  نے جن کی تعداد ۱۳۰۰؍ تھی اسی یونیورسٹی کی ڈگریاں  پیش کیں ۔ چونکہ یونیورسٹی میں  فزیکل کورس کی ابتدا ۲۰۱۶ء میں  ہوئی تھی اور اجازت بھی محض ۱۰۰؍ سیٹ کیلئے تھی اس لئے سوال سامنے آیا کہ ۲۰۲۲ء کے امتحان کیلئے اتنی ڈگریاں  کیسے پیش کی گئی ہیں ؟ کئی گرفتاریوں  اور تفتیش کے بعد یہ راز کھلے کہ:
٭ یونیورسٹی میں  کل ۳۰؍ افراد کا عملہ ہے جس میں  ۸، ۹؍ کلاس فورتھ (چوتھے درجے کے) ملازم ہیں ۔
٭ ۲۰۲۳ء میں  یو بی سی نے ا س یونیورسٹی کی جاری کی گئی پی ایچ ڈی ڈگریوں  کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اور
٭ ۲۴؍ جون ۲۰۲۴ء کو ریاست کے ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے اس یونیورسٹی کو ایڈمیشن نہ لینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
 کہا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی نے بی ایڈ اور بی پی ایڈ کی نیز ایم ایس سی (ایگری کلچر) کی ڈگریاں  پرانی تاریخوں  میں  اور منظوری کے بغیر جاری کیں ۔ ۵؍ جولائی کو یونیورسٹی کے بانی جوگندر سنگھ دلال گرفتار ہوئے اور ان کی گرفتاری کے ۶؍ روز بعد پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ (ایس او جی) نے تفتیش شروع کر دی۔ یہ گروپ ان تمام ۴۳؍ ہزار ۴۰۹؍ ڈگریوں  کی جانچ پڑتال کررہا ہے جو یونیورسٹی نے اپنی ابتدا سے اب تک جاری کی ہیں ۔ نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر کا ایک بیان اخبارات میں  شائع ہوا ہے کہ سیاست کا معیار بہت گر گیا ہے۔ تعلیمی اداروں  اور تعلیمی حلقوں  میں  کیا ہورہا ہے؟ اس کا اندازہ چرو کی اوم پرکاش جوگیندر سنگھ یونیورسٹی کے بارے میں  حالیہ خبر سے لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ راقم الحروف لکھ چکا ہے کہ اساتذہ کا احترام اب بھی باقی ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ انہیں  اساتذہ میں  ایسے بھی ہیں  جو پڑھاتے نہیں  یا چھٹی پر ہوتے ہوئے تنخواہ لیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ معاشرے میں  ایسے لوگ موجود ہیں  جو جعلی ڈگریوں  سے فائدہ اٹھاتے یا فائدے کیلئے جعلی ڈگریاں  جاری کرتے یا ڈگریوں  کی خرید فروخت کرتے ہیں ۔ راقم الحروف کی نگاہ صرف ان اساتذہ پر ہے جو کثیر تعداد میں  ہیں ۔ علم اور معلم کا پیکر ہیں  اور بچوں  کے سامنے علم، استدلال اور حافظہ پیش کرنے کے ساتھ کردار بھی پیش کرتے ہیں  اس کے سامنے وہ اساتذہ بھی نہیں  جو ڈگریوں  کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں  اور ان سے زیادہ ان کے باعث علم رسوا ہورہا ہے۔ تعلیمی اداروں  پر غیر علمی لوگوں  کا تسلط بھی اس کی خاص وجہ ہے۔ یہ لوگ تعلیمی اداروں  پر تسلط حاصل کرکے سماجی، سیاسی، معاشی استحکام حاصل کرکے اور علم و اہل علم کو ذلیل کرکے اپنے شوق بادشاہت کی تسکین کرتے ہیں ۔ دونوں  قسم کے لوگ قابل مذمت ہیں  اور ان کے خلاف تحریک چلایا جانا چاہئے مگر یہ ہمت کس میں  ہے؟ سستی شہرت اور سستی دولت کیلئے تو سبھی مرے جا رہے ہیں ۔ جو ایسا نہیں  کرتے وہ اس قابل ہیں  کہ ان کا اکرام کیا جائے مگر اکرام کا معاملہ بھی بیشتر فرمائشی اور بامعاوضہ پروگرام کی طرح ہوتا ہے۔ یو جی سی وقتاً فوقتاً ریاستی حکومتوں  کو باخبر کرتا رہتا ہے کہ فلاں  یونیورسٹی غیر قانونی ہے۔ اس کی خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ ریاستی حکومت اس یونیورسٹی کے خلاف کارروائی کرے مگر حیرت کی بات ہے کہ گزشتہ سال تک سب سے زیادہ جعلی یونیورسٹیاں  دہلی میں  تھیں  اور یہ یونیورسٹیاں  اچانک نہیں  ابھری ہیں  بلکہ کئی سال سے یو جی سی کی فہرست میں  ہیں  مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں  ہوئی ہے۔ اس فہرست میں  دہلی کی یونیورسٹیوں  کے بعد یوپی، مغربی بنگال، آندھرا پردیش اور کرناٹک کی یونیورسٹیاں  ہیں ۔ کیرالہ، پدوچیری اور مہاراشٹر کی ایک ایک یونیورسٹیوں  کے نام بھی اس فہرست میں  شامل بتائے جاتے ہیں ۔ یو جی سی طلبہ کو بھی باخبر کرتا رہتا ہے کہ وہ داخلہ لینے سے پہلے اس کی ویب سائٹ کو ضرور دیکھ لیں  جو یہ بتا دے گی کہ وہ جس یونیورسٹی میں  داخلہ لے رہے ہیں  وہ جعلی تو نہیں ۔
 جعلی ہونے کا دو مطلب ہے۔ ایک تو یہ کہ سرے سے ان کو منظوری ہی نہ ملی ہو اور دوسرے یہ کہ جس مضمون میں  ڈگری دی گئی ہے اس مضمون میں  ڈگری دینے کی یونیورسٹی کو اجازت نہیں  تھی یا جس تعداد میں  ڈگری دینے کی اجازت تھی اس سے زیادہ تعداد میں  ڈگری دی گئی ہے۔ تیسری شکل یہ ہے کہ تقرری، ترقی یا کسی اور مقصد سے بغیر پڑھے ڈگری لی گئی ہو۔ ظاہر ہے اس طرح ڈگری لینے اور دینے کا کام یوں  ہی نہیں  ہوتا۔ اس کیلئے بہت کچھ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسکولوں  اور کالجوں  کے حوالے سے بھی جعلی ڈگریوں  کے دیئے جانے کے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں ۔ ڈگری حاصل کرکے بھی بے حیثیت اور بے صلاحیت ہونے کے معاملات بہت ہیں  مگر فی زمانہ چونکہ صلاحیت نہیں  ڈگریوں  کی بنیاد پر ہی تقرری اور ترقی ہوتی ہے اس لئے ایسے ہی لوگوں  پر بہار چھائی ہوئی ہے۔ علاقہ، برادری، روپیہ اور سفارش کی بنیاد پر ایسے لوگوں  کی خوب پذیرائی ہوتی ہے جو ’پڑھے نہ لکھے نام محمد فاضل‘ کے زمرے میں  آتے ہیں ۔ مگر اس کو کیا کیا جائے کہ یہی قانون اور دستور زمانہ ہے۔ قانون کی بھی پوچھئے تو یہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے والوں  کو کارکردگی کی بنیاد پر ڈگری دیئے جانے کا مستحق نہیں  سمجھتا۔ علم و صلاحیت سے دور کا واسطہ نہ رکھنے والے صرف خوشامد کی زبان سمجھتے ہیں ۔ جب تک ایسے لوگ ہیں  فرضی اور جعلی ڈگریوں  کا کاروبار پھلتا پھولتا رہے گا۔ علاج ایک ہی ہے کہ ایسے تمام اداروں  اور لوگوں  کے خلاف قانونی لڑائی لڑی جائے۔ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی ایسے معاملات اٹھائے جائیں ۔

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK