• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیوں جل اٹھابنگلہ دیش ؟

Updated: July 24, 2024, 1:22 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

کئی برسوں سے شیخ حسینہ کی حکومت پرتاناشاہی، کرپشن، اقربا پروری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام لگ رہے ہیں۔ پورے ملک میں ان کی حکومت کے خلاف لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف جب طلبہ سڑکوں پر اترے توحکومت کی ناکامی اورجبر کے خلاف عوام کے دلوں میں دبے جذبات کو بھی ابل پڑنے کا راستہ مل گیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 سرکاری ملازمتوں  میں  کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کا جو احتجاج جولائی کے اوائل میں  ڈھاکہ یونیورسٹی کے کیمپس سے شروع ہو ا تھا وہ دیکھتے دیکھتے شیخ حسینہ حکومت کے خلاف پرتشدد بغاوت میں  تبدیل ہوگیا۔ جب فوج کو شوٹ آن سائٹ کا حکم دے دیا جائے، جب سارے ملک میں  کرفیو نافذ کردیا جائے،جب ٹینک سرحدوں  کے بجائے راجدھانی کی سڑکوں  پر گشت کرنے لگیں  اور جب سیکڑوں  بے گناہ لوگ بے وجہ مارے جائیں  تو سمجھ لیں  کہ ملک بہت بڑے بحران میں  گھر چکا ہے اورحالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں ۔
 راجدھانی ڈھاکہ سمیت ملک کے ہر حصے میں  تشدد کی آگ کئی دنوں  تک بھڑکتی رہی۔ جب حالات پر قابو پانے کی تمام کوششیں  ناکام ہوگئیں  تو وزیر اعظم شیخ حسینہ نے فوج بلالی۔ طلبہ کا احتجاج اتنے بڑے سیاسی بحران میں  حسینہ کی نااہلی اور رعونت کی وجہ سے تبدیل ہوا۔بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جنگ آزادی کے مجاہدوں  جنہیں  ’’مکتی جودھا‘‘ کہا جاتا ہے، کیلئے سرکاری ملازمتوں  میں  ۳۰؍ فیصد کوٹہ مختص کردیا گیا۔ آج آزادی کو ۵۳؍سال گزرچکے ہیں  اور ’’مکتی جودھاؤں ‘‘کی ایک بڑی تعداد مر کھپ گئی ہے لیکن پہلے ان کی اولادیں  اور اب ان کی اولادوں  کی اولادیں  بھی سرکاری نوکریوں  کی یہ ملائی کھا رہے ہیں  جبکہ ان سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند بے روزگار نوجوان دھکے کھارہے ہیں  کیونکہ ان کے آباؤاجداد’’ مکتی جودھا‘‘ نہیں  تھے۔
نوجوان نسل اس کوٹہ نظام کو امتیازی اور غیر منصفانہ سمجھتی ہے کیونکہ اس سسٹم سے مستفیض ہونے والوں  کی اکثریت کا تعلق حکمراں  عوامی لیگ پارٹی سے ہے۔یہ کوٹہ سسٹم دراصل حسینہ کیلئے اپنے پارٹی ورکرز اور دیگر وفاداروں  کو پچھلے دروازے سے اہم عہدوں  پر تعینات کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔طلبہ نے کوٹہ سسٹم کے خلاف ۲۰۱۸ء میں  تحریک چلائی تھی اور حکومت نے ان کا مطالبہ مانتے ہوئے اسے ختم کردیا تھا لیکن پچھلے ماہ ہائی کورٹ نے کوٹہ سسٹم بحال کردیااور طلبہ دوبارہ سڑکوں  پر اتر آئے۔ عدلیہ خواہ ہندوستان کی ہو یا بنگلہ دیش کی اسے کوئی بھی بڑا فیصلہ سناتے وقت اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ اس فیصلے کے کیا نتائج ہونے والے ہیں  ۔
جب طلبہ نے احتجاج شروع کیاتوبنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے ان سے بات چیت کرنے کے بجائے تحریک کو طاقت کے ذریعہ کچلنے کی کوشش کی جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی۔ طلبہ نہتے تھے اور ان کا احتجاج پہلے پر امن تھا لیکن جب مظاہرین پر پولیس اور عوامی لیگ کی طلبہ کی تنظیم چھاتر لیگ کے غنڈوں  نے لاٹھیاں ، گرینیڈ اور گولیاں  برسائیں  تو انہوں  نے بھی پلٹ کر وار کیا۔ جب طلبہ کو پولیس اور حکمراں  پارٹی کے جبر کا شکار ہوتے دیکھا گیا تو ملک بھر میں  حسینہ کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور طلبہ کی تحریک سول نافرمانی اورعوامی بغاوت بن گئی۔ لوگوں  کے غم و غصے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وزیر اعظم نے مظاہرین کو’’رضاکار‘‘ کا خطاب دے دیا۔ رضاکار ان بنگالی باشندوں  کو کہا جاتا ہے جنہوں  نے ۱۹۷۱ء میں  آزادی کی تحریک کی مخالفت کی تھی اور اسے کچلنے میں  پاکستانی ملٹری کا ساتھ دیا تھا۔
ایک طرف حکومت نے سپریم کورٹ میں  ہائی کورٹ کے متنازع آرڈر کے خلاف اپیل دائر کرکے کوٹہ سسٹم کو دوبارہ ختم کرنے کی درخواست دے دی لیکن دوسری جانب حسینہ اور ان کی کابینہ کے دوسرے وزرا ایسے بیانات دینے لگے جن سے عوام میں  یہ پیغام پہنچا کہ وہ کوٹہ سسٹم کے حامی اور طلبہ کی تحریک کے مخالف ہیں ۔ اقتدار کے نشے میں  چور حسینہ نے اس مسئلہ کو صبر وتحمل اوردانشمندی سے ہینڈل کیا ہوتا تو طلبہ شانت ہوجاتے۔ لیکن وزیر اعظم کی ہٹ دھرمی اور آمرانہ رویے نے طلبہ کے ساتھ ساتھ دوسرے شہریوں  کو بھی ناراض کردیا۔ کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں  کو غدار کہنابھی حکومت کو مہنگا پڑ گیا۔ وطن عزیز کی مانند ہمسایہ ملک میں  بھی حکومت کی پالیسیوں  پر تنقید یا احتجاج کرنے والے افراد یا تنظیم کو فوراً غدار وطن قرار دے دیا جاتا ہے۔’’دیش دروہی‘‘ ہو یا ’’رضاکار‘‘ دونوں  القاب کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے: پاکستانی ایجنٹ۔
شیخ حسینہ کو جوپچھلے پندرہ برسوں  سے بنگلہ دیش پر راج کررہی ہیں  اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی عوامی مزاحمت اور سیاسی انتشار کا سامنا نہیں  کرنا پڑا تھا۔ جو ملک کبھی پسماندگی اور افلاس کی علامت سمجھا جاتا تھا اسے ان کے دور اقتدار میں  دنیا کی سب سے تیز رفتار معیشت اور نیا ایشین ٹائیگر قرار دیا جانے لگا۔ ملک نے اتنے کم وقت میں  اتنی ترقی کرلی تو لوگوں  نے وزیر اعظم کے غیر جمہوری میلان، آمرانہ رویوں ، سیاسی اور نظریاتی مخالفین کے ساتھ جابرانہ سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  کو بھی نظر انداز کردیا۔
  کئی برسوں  سے شیخ حسینہ کی حکومت پرتاناشاہی، کرپشن، اقربا پروری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  کے الزام لگ رہے ہیں ۔ان کے گلے میں  یہ طوق بھی لٹک رہا ہے کہ وہ انتخابات میں  دھاندلی اور ووٹوں  کی چوری کے ذریعہ منتخب ہوتی رہی ہیں ۔ اپوزیشن لیڈروں  کو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرنا ان کی حکومت کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے امیر شفیق الرحمٰن سمیت سیکڑوں  اپوزیشن لیڈروں  اور کارکنوں  کو کئی برسوں  تک جیلوں  میں  رکھا گیا۔اسی لئے پورے ملک میں  حسینہ حکومت کے خلاف لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا۔ کورونا کی قہر سامانیوں  اور یوکرین جنگ کی وجہ سے بنگلہ دیش کی اقتصادی حالت بگڑنے لگی۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں  اضافہ ہوا اور عوام کی زندگیاں  مصائب میں  گھر گئیں ۔کوٹہ سسٹم کے خلاف جب طلبہ سڑکوں  پر اترے توحکومت کی ناکامی اورجبر کے خلاف عوام کے دلوں  میں  دبے جذبات کو بھی ابل پڑنے کا راستہ مل گیا۔عوام جب بغاوت پر اترآئے تو حسینہ کا راج سنگھاسن لرزنے لگا۔ تب جاکر انہیں  ہوش آیا۔ حالات کی نزاکت کے مدنظر اور حسینہ حکومت کے اشارے پر سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کیس کی سماعت ۷؍ اگست کے بجائے ۲۱؍ جولائی کو ہی کرلی۔ عدالت عظمیٰ نے اتوار کو کوٹہ سسٹم کا تقریباً صفایا کردیا۔ بنگلہ دیش میں  پہلے ۵۶؍فیصد سرکاری ملازمتوں  کو مختلف طبقوں  کیلئے ریزرو رکھا گیاتھا جن میں  ۳۰؍فیصد ملازمتیں  مکتی جودھا کے اہل خاندان لئے مختص تھیں  جس کے خلاف طلبہ احتجاج کررہے تھے۔ سپریم کورٹ کے نئے فیصلے کے بعداب ریزرویشن صرف ۷؍ فیصد رہ گیا ہے بقیہ ۹۳؍ فیصد سرکاری ملازمتیں  تمام شہریوں  کو صرف ان کی تعلیمی لیاقت، اہلیت اور میرٹ پر ملا کریں  گی۔امید ہے اس فیصلے کے بعد بنگلہ دیش میں  تشدد اور عدم استحکام ختم ہوجائے گا۔ امیدیہ بھی ہے کہ اب حسینہ اپنے آمرانہ عزائم ترک کرکے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خلوص نیتی سے کام کریں  گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK