• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیا شام میں ’’نئی صبح‘‘ طلوع ہوگی؟

Updated: December 20, 2024, 1:45 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

شام کے عوام جس طرح اسد حکومت کے خاتمے کا جشن منا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ شدید تکلیف میں تھے۔ لیکن کیا واقعی ان کی تکالیف کا خاتمہ ہوگیا؟ یہ بہت اہم سوال ہے اور اس سوال کا جواب بس اتنا ہے کہ تکالیف کے خاتمے کے لئے انہیں اپنے ملک کی تعمیر نو اور دفاع خود کرنا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بادشاہت یا شخصی حکمرانی انسانی مزاج یا طبیعت سے میل نہیں  کھاتی۔ ہم بھی بادشاہت کیخلاف ہیں ۔ حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ سے محبت کرتے ہیں  تو ان کے نبی ہونے کے سبب۔ اس کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ جمہوری قبا پہن کر بھی بہتوں  نے بادشاہوں  سے زیادہ قہر ڈھائے ہیں ۔ اسی لئے شاہ ایران کی اقتدار سے محرومی کا جشن منایا گیا تو عیدی امین کے معزول ہونے پر بھی لوگ خوش ہوئے۔ صدام حسین کے پھانسی چڑھائے جانے کا ایک بہت بڑے حلقے میں  غم منایا گیا تو اس لئے کہ ان کا رابطہ عوام سے تھا، انہوں  نے عوامی فلاح کے کافی کام کئے تھے اور جس انداز میں  پھانسی چڑھے تھے وہ انداز بھی بہت جرأت مندانہ تھا۔ بشارالاسد کا معاملہ اسکے برعکس تھا۔ وہ اور ان کے والد حافظ الاسد تقریباً ۵۴؍ سال برسراقتدار رہ چکے تھے مگر اس طرح بھاگے کہ ان کے ملک والے بھی مغالطے میں  رہے کہ وہ کہیں  روپوش ہیں  یا مارے گئے ہیں ۔ بعد میں  معلوم ہوا کہ ماسکو میں  پناہ گزیں  ہیں ۔ لیکن ایک بات اچھی ہوئی کہ ان کے وزیراعظم نے بروقت اعلان کر دیا کہ وہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں  کو منتقل کریں  گے ورنہ عوام میں  اتنا غم و غصہ تھا کہ بہت خون خرابہ ہوتا البتہ حافظ الاسد کی قبر کا آگ لگایا جانا تکلیف دہ واقعہ ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ بشارالاسد اگر عوامی مزاحمت کو روکنا چاہتے تو کیا روک سکتے تھے؟ شاید نہیں ۔ ان کی فوجیں  لڑنے کیلئے تیار تھیں  نہ ان کے حلیف ممالک ساتھ دینے پر۔ انہوں  نے عراق و ایران کے بجائے ماسکو میں  پناہ لے کر بھی واضح کر دیا کہ خود ان کے ملک میں  نہیں ، ان کے دوست ممالک ایران و عراق میں  بھی ان کیلئے دنیا تنگ ہوچکی تھی۔ بھاگ جانے کے سوا ان کے سامنے کوئی راہ نہیں  تھی۔
 بشارالاسد کے فرار کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شام کو کیسے محفوظ رکھا جائے اور اس کی تعمیر نو کی جائے۔ شامی فوجیں  اسلحہ رکھ چکی ہیں ۔ ملک میں  کئی ایسی مذہبی اقلیتیں  ہیں  جو اسرائیل سے مدد بھی حاصل کر رہی ہیں  اور اس کو مدد بھی پہنچا رہی ہیں ۔ کردوں  میں  الگ ملک کے حصول کی تمنا پھر جاگ گئی ہے جس سے ایران، ترکی اور شام بھی پریشان ہیں  کیونکہ کرد ان ملکوں  میں  بھی رہتے ہیں ۔ وسیع تر اسرائیل کے منصوبے پر اسرائیل کی حکومت ایک عرصے سے کام کر رہی ہے۔ بشارالاسد کے فرار کے بعد وہ حملہ آور بھی ہے۔ شام پر اس کا ہمیشہ کے لئے قابض ہونا تو مشکل ہے یہاں  دفاعی نظام اور فوجی ساز و سامان تباہ کرنے کے بعد وہ فوجی نوعیت کے اہم ٹھکانوں  پر قبضہ برقرار رکھ سکتا ہے تاکہ شام کے علاوہ عراق، ایران، ترکی اور دوسرے ملکوں  پر نظر رکھ سکے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیں  تو یہ ممالک بھی خطرے میں  ہیں ۔ ترکی نے امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر بشارالاسد کو نقصان پہنچایا اور ایران و روس کے لئے مشکلیں  کھڑی کیں ؟ اس پر الگ الگ نقاط نظر ہوسکتے ہیں  مگر شام کے عوام جس طرح اسد حکومت کے خاتمے کا جشن منا رہے ہیں  اس سے لگتا ہے کہ وہ شدید تکلیف میں  تھے۔ لیکن کیا واقعی ان کی تکالیف کا خاتمہ ہوگیا؟ یہ بہت اہم سوال ہے اور اس سوال کا جواب بس اتنا ہے کہ تکالیف کے خاتمے کے لئے انہیں  اپنے ملک کی تعمیر نو اور دفاع خود کرنا ہے۔ دوسروں  کی مدد کی آس پر جینے اور لڑنے والوں  کا وہی حشر ہوتا ہے جو بشارالاسد کا ہوا ہے۔ ان کو فرار ہونے پر مجبور کرنے والی طاقتیں  اب آپس میں  لڑ رہی ہیں ۔ یہ طرز عمل تو انہیں  محفوظ نہیں  رکھ سکتا۔ اسرائیل یقیناً اس صورتحال کا فائدہ اٹھائے گا اور اس نے گولان پہاڑیوں  پر اپنا قبضہ بڑھا کر فائدہ اٹھایا بھی ہے مگر دوسرے بھی جو کر رہے ہیں  وہ عام لوگوں  کی توقع کے برعکس ہے مثلاً:
lشام کے نئے حکمراں  گروہ کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہے مگر اس کے رابطے میں  بھی ہے۔
lبشارالاسد حکومت میں  شامل حکام کے اہل خانہ لبنان کے سیاست دانوں  اور حکومت کے ذمہ داروں  کے رابطے میں  ہیں  اور کافی لوگ لبنان پہنچ کر حزب اللہ کے زیر اثر علاقوں  کی عمارتوں  میں  رہائش بھی اختیار کر چکے ہیں ۔
lلبنان میں  نگراں  حکومت کے سربراہ نجیب میقاتی نے کہا ہے کہ شامی مہاجرین لبنان کی آبادی کا ایک تہائی حصہ بن چکے ہیں ۔ انہوں  نے شامی مہاجرین سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ وہ واپس چلے جائیں ۔
lغزہ کو تباہ کرنے کے بعد بھی اسرائیل مطمئن نہیں  ہے اور اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے مگر خود اس کے ملک میں  بھی عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں  ہیں ۔ ۱۴؍ دسمبر کو بھی یہاں  سیکڑوں  لوگوں  نے مظاہرہ کیا کہ اسرائیلی قیدیوں  کو حماس سے آزاد کرایا جائے۔
lشام کے نئے حکمرانوں  نے اسرائیلی حملوں  کو روکنے میں  اپنی بے بسی کا اظہار کرنے کے باوجود اسرائیلی فوجیوں  پر حملے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ علاقے کی کسی دوسری طاقت نے اسرائیل کیخلاف کوئی محاذ نہیں  کھولا ہے۔ حماس اور حزب اللہ بھی خاموش ہیں ۔ حماس و حزب اللہ کو اسلحہ دیئے جانے کی راہ بند ہوچکی ہے۔ ایران بے بس ہونے کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ روس اپنے فوجیوں  اور طیاروں  کو واپس بلا رہا ہے۔

یہ بھی پرھئے : خواتین کیلئے مفت سرکاری اسکیموں کی سیاست

 آج کی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل دمشق کے قریب ہے۔ تباہ کن حملے کر رہا ہے۔ ایٹم بم بھی برسائے ہیں ۔ بشارالاسد کا چھوڑا ہوا فوجی ذخیرہ تباہ کر رہا ہے مگر دوسری طرف ابو محمد الجولانی کو بشارالاسد کا چھوڑا ہوا جو اسلحہ ملا ہے وہ تو ملا ہی ہے، ترکی سے نیا اسلحہ بھی مل رہا ہے، اس کے پاس ۸۰؍ ہزار فوجی لڑاکا بھی ہیں  اور پھر اسرائیل اپنی سرحد میں  نہیں  شام کی سرحد میں  ہے جس کو پسند نہیں  کیا گیا ہے اور اب تو الجولانی نے باقاعدہ اسرائیلی فوجیوں  کو نشانہ بنانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ امریکہ امن کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی ہر جنگ امن کے نام پر ہوتی ہے اور اسرائیل کی ہم نوائی بھی وہ اسی بہانے کرتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ کل کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر یہ ’’کچھ بھی‘‘ کا اندازہ کرنا آسان نہیں  ہے۔ اس مشکل کو مزید مشکل بنا دیا ہے متحارب گروہوں  کے مفادات نے۔ پڑوسی ممالک کے ہی نہیں  شام میں  متحارب گروہوں  کے مفادات بھی الگ الگ ہیں ۔ بشارالاسد کے مظالم کی نشانیاں  مسلسل سامنے آرہی ہیں ۔ دمشق کے قریب کم از کم ایک لاکھ افراد کی قبریں  برآمد ہوئی ہے۔ یعنی فلسطین کے نام پر جو جنگ لڑی جا رہی ہے اس میں  سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں ۔ اسرائیل میں  بھی مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور اس سے لڑنے والے بھی۔ الجولانی کے لڑاکوں  نے بشارالاسد کو تو بھاگنے پر مجبور کر دیا اب انہیں  اسرائیل اور اسرائیل کے ہم نواؤں  سے لوہا لینا ہے۔ اس کے بغیر یہ امید نہیں  کی جاسکتی کہ شام میں  نئی صبح طلوع ہوگی۔ مگر نئی صبح کی امید بہرحال پیدا ہوگئی۔ بشارالاسد کی اقتدار سے محرومی کا یہی سب سے اچھا پہلو ہے۔

syria Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK