ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں رہنے والے ہر اس بیرونی شخص کو امریکہ سے نکالیں گے جس کے پاس امریکہ میں رہنے کے دستاویزی ثبوت نہیں ہیں ، ان میں میکسیکو کے لوگ بہت زیادہ ہیں، لیکن اس کے بعد دوسرا نمبرہندوستانیوں کا ہے جن کی تعداد ساڑھے اٹھاون لاکھ بتائی جاتی ہے۔
اگر دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انیس سو پینتالیس سے لے کرآج تک یعنی تقریباً اسّی سال دنیاوی معاملات پر امریکی غلبہ جاری رہا ہے۔ امریکہ کو یہ معلوم ہوا کہ صرف اسلحوں سے وہ دنیا کو فتح نہیں کرسکتا۔یہ بھی یاد رہے کہ دوسری عالم گیر جنگ کا خاتمہ بھی اسی وقت ہوا تھا جب امریکہ نے ناگاساکی اور ہیروشیما کو اپنے ایٹم بم سے تباہ کرکے دنیا کو ایک قیامت صغریٰ کا منظر دکھایا تھا لیکن اس کے بعد سے لے کر اب تک دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوتی رہیں ان میں یا تو امریکہ خود حصہ لیتا رہا یا درپردہ کام کرتا رہا ، اس کا سلسلہ کوریا، ویت نام سے لے کر پھر عراق اور افغانستان تک جا پہنچا۔ اس بار ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سب سے پہلی نظر تویوکرین کی جنگ پر تھی۔ لیکن اب یہ بھی معلوم ہوا کہ روسی صدر پوتن اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ براہ راست بات کررہے ہیں اوریہ خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ کا خاتمہ صرف وقت کی بات ہے۔ یعنی یوکرین کی جنگ کے علاوہ باقی معاملات بھی ٹرمپ کی توجہ کا مرکز بنے۔ اس میں سب سے اہم غزہ میں جنگ بندی کا اعلان ہے۔ غزہ میں جنگ بندی انیس جنوری سے شروع ہوگئی تھی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہر روز حماس کی قید سے اسرائیلی فوجی رہا ہورہے ہیں اور ہر روز اسرائیل کی طرف سے فلسطینی رہا ہورہے ہیں ، یہ سلسلہ انیس جنوری سے اب تک ایک دن کے لئے بھی بند نہیں ہوا۔ لیکن ٹرمپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب وہ دنیا کے کسی بھی ملک کو کوئی امداد نہیں دیں گے ،حالانکہ انہو ں نے مصر اور اسرائیل کو چھوڑ رکھا ہے۔ انہیں یہ مدد ملتی ہی رہے گی۔اتفاق سے غزہ میں جنگ بندی نے نیتان بنجامن یاہو کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے کابینہ کے سامنے اپنے دستخط شدہ معاہدے کو سامنے رکھا۔ کابینہ کے بتیس ممبران میں سے چوبیس نے اس کا ساتھ دیا صرف آٹھ ممبران نے اس کی مخالفت کی او رکہا کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی ناکامی ہے ۔جن لوگوں نے اسرائیل کی کابینہ کو چھوڑا وہ فلسطین کے حق میں نہیں تھے، وہ بھی دائیں بازو کے لیڈر تھے اور بنجامن یاہو کو مدد دے رہے تھے ، اس لئے دو وزیروں کا سرکار سے ہٹنا بنجامن یاہو کے لئے کوئی حیرت انگیز بات نہیں تھی لیکن اسی وقت ان دو وزیروں کے علاوہ یہ خبر آئی کہ اسرائیلی فوجو ں کے چیف آف آرمی اسٹاف جان ہویلی نے بھی استعفیٰ دے دیا اور انہوں نے استعفیٰ یہ کہہ کر دیا کہ گزشتہ اکتوبر میں جب حماس نے اسرائیل کے د و شہروں پر حملہ کیا اور اسرائیل کے تمام دفاعی مراکز تباہ کردیئے تو اس شکست کا الزام اسرائیلی کمانڈر انچیف اپنے سر لیتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ یہ میری غلطی تھی کہ میں ان شہروں کو نہیں بچا سکا۔ ظاہر ہے بنجامن یاہو کو اس سے بہت سخت جھٹکا لگا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسرائیل میں بچے کا جنم ہوتے ہی اٹھارہ سال تک اسے مستقبل جنگی تربیت دی جاتی ہے، کمانڈر انچیف کے استعفے نے اسے بری طرح متاثر کیا، وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کو اب یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل میں جو فوجی میدان جنگ میں ہیں وہ سب باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں ، یعنی ان میں دھرتی کی الفت کا جذبہ نہیں ہے ، وہ محض تنخواہوں کے لئے کام کررہے ہیں ، غزہ کی جنگ میں ہم نے یہ حال اپنی آنکھو ں سے دیکھ لیا، ساتھ ہی اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ المیہ ہے کہ وہ گزشتہ پندرہ سال سے اسرائیلیوں پر یہی کہہ کر حکومت کرر ہے تھے کہ وہ غزہ میں حماس مجاہدین کو ختم کرکے ہی دم لیں گے۔ اس سلسلے میں بہت کچھ ہوا۔ اسرائیل نے اپنی تکنیکی مہارت کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی شہید کردیئے۔ ان کے مکانات مسمار اور تباہ کردیئے لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ عیاں ہے کہ اس نام نہاد ہزیمت کے بعد بھی حماس نے جنگ نہیں ہاری، یہ بات بنجامن یاہو کو بھی معلوم ہے او رامریکی صدر ٹرمپ کو بھی اور اسی لئے انہو ں نے غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اوپر اینٹی وار ہونے کا جو لیبل چپکا لیا ہے وہ اب اس سے دور نہیں ہوپارہے ہیں ۔ اب یہ یورپ ہی نہیں ساری دنیا کو معلوم ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے اگلے چار سال کم سے کم دنیا میں کوئی بڑی جنگ نہیں ہوگی، یہ ایک شکر کی بات ہے لیکن اس سے یہ مت سمجھئے گا کہ ٹرمپ اسرائیل کو کسی لائق سمجھتے ہیں یا وہ فلسطین کے خلاف اور اسرائیل کے ساتھ ہیں ۔ ٹرمپ کو معلوم ہے کہ امریکہ میں تجارت کے ہر شعبے پر یہودی لابیوں کا ہاتھ ہے اور اگر انہوں نے اسرائیل سے بہت زیادہ اختلاف کیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی امریکہ سے اپنا خزانہ ہٹاکر یورپ کے دوسرے شہرو ں میں لے جائیں جو کہ ٹرمپ کے لئے ایک بڑا نقصان ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے : کیا تھا متحدہ ملک کیلئے مولانا آزاد کا منصوبہ ؟
اب یہ بھی سمجھ لیجئے کہ ٹرمپ نے صرف بنجامن یاہو کو ہی جھٹکا نہیں دیا بلکہ ایک جھٹکا سعودی عرب کے فرماں روا محمد بن سلمان کو بھی دیا۔ امریکہ میں صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے محمد بن سلمان سے رابطہ کیا او رکہا کہ آپ نے امریکہ میں چھ بلین کا جو معاہدہ کیا ہے وہ کم نہیں ہوگا بلکہ یہ معاہدہ چھ بلین کے بجائے ایک ہزار بلین یعنی ایک ٹریلین تک پہنچے گا، محمد بن سلمان یہ کیسے پورا کریں گے او رکہاں سے پورا کریں گے یہ بھی وقت کی بات ہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں رہنے والے ہر اس بیرونی شخص کو امریکہ سے نکالیں گے جس کے پاس امریکہ میں رہنے کے دستاویزی ثبوت نہیں ہیں ، ان میں میکسیکو کے لوگ بہت زیادہ ہیں ، لیکن اس کے بعد دوسرا نمبرہندوستانیوں کا ہے جن کی تعداد ساڑھے اٹھاون لاکھ بتائی جاتی ہے۔
ہندوستان میں اگر کوئی مضبوط اور باشعور پرائم منسٹر ہوتا تو وہ یہ سمجھ لیتا کہ ٹرمپ سے ان کا مذاقی رشتہ تو ختم ہوہی چکا ہے لیکن اس رشتے کے ختم ہونے کے بعد یہ صورت حال سامنے آئے گی یہ سوچا بھی نہیں ہوگا۔ ہندوستانی وزیر اعظم کو چاہئے تھا کہ وہ کسی نہ کسی طور پر ٹرمپ یا ان کے ساتھیوں سے رابطہ کرتے اور یہ کہتے کہ میکسیکو تو ان کا پڑوسی ہے اور یہ ہندوستانی تو صرف روٹی روزی کے لئے گئے تھے ، آپ نے اگر ساڑھے اٹھاون لاکھ ہندوستانیوں کو ہندوستان بھیجا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اتنے لاکھ بے روزگار ہندوستانیوں کو ہندوستان بھیج رہے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ٹرمپ اور ان کی پارٹی کو اس پر ترس آتا اور وہ کچھ ایسا کرتے کہ مسئلہ ہی کچھ دنوں کے لئے ٹل جائے۔ مودی خود کو بھگوان سمجھتے ہوں اور ان کے حمایتی بھی یہ سمجھتے ہوں لیکن ان کی یہ اوقات ہی نہیں کہ وہ ٹرمپ سے ایسا کہہ سکیں ، ہمارا یہ خیال ہے کہ اگر مودی نہیں تو ہندوستان کے اپوزیشن لیڈروں کو امریکہ جانا چاہئے اور ٹرمپ کو اس معاملے پر سوچنے پر مجبور کرنا چاہئے۔