• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا حسینہ واجد گرفتار کی جائیں گی؟

Updated: January 03, 2025, 1:45 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ایک حوالہ موجود ہے۔ بنگلہ دیش کے مطابق حسینہ کو اپنے ملک لانے کے لئے یہ معاہدہ کافی ہے مگر ماہرین کا موقف یہ ہے کہ یہ معاہدہ جرائم پیشہ اشخاص کے لئے ہے سیاسی طور پر پناہ لینے والوں کو اس معاہدہ کے تحت بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پاکستان جب وجود میں  آیا اس وقت مَیں  پیدا نہیں  ہوا تھا لیکن جب ٹوٹا اور بنگلہ دیش وجود میں  آیا تو مَیں  اخبار پڑھنے لگا تھا۔ اس وقت کی بہت سی باتیں  اور سیاستدانوں  کے بیانات میرے ذہن میں  ہیں ۔ ان یادوں  کی بنیاد پر میں  کہہ سکتا ہوں  کہ مشرقی پاکستان میں  شیخ مجیب الرحمٰن کی مقبولیت بہت زیادہ تھی لیکن بنگلہ دیش وجود میں  اور ان کے اقتدار میں  آنے کے بعد ان کی مقبولیت کم ہونے لگی۔ پاکستان کے ارباب اقتدار نے ان کے اور ان کے عوام کیساتھ جو کیا تھا وہ اچھا نہیں  تھا اسکے باوجود پاکستانیوں  کیلئے وہ پسندیدہ شخصیت نہیں  تھے۔ ہمارے ملک بھارت نے بنگلہ دیش کو وجود میں  لانے کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا تھا اس نے شیخ مجیب کو مقبول بنائے رکھنے کیلئے بھی کوششیں  کیں  لیکن خود بنگلہ دیش کے عوام کا بڑا طبقہ ان کیخلاف ہوتا گیا اور بالآخر وہ قتل کر دیئے گئے۔ بعد میں  ان کو قتل کرنیوالے بھی قتل کر دیئے گئے۔ اسکے بعد کا دور یہاں  کی دو بیگمات (حسینہ اور خالدہ) کے سیاست میں  عروج اور آپسی کشمکش کا دور ہے۔ اس کشمکش میں  ہندوستانی حکومت اور عوام کی پسندیدہ شخصیت حسینہ کی رہی، حالانکہ ہندوستانی حکومت نے بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں  ۱۹۷۲ء کے بعد کبھی دخل نہیں  دیا۔ حسینہ بنگلہ دیش میں  انتخاب پر انتخاب جیتتی رہیں ، اقتدار ان کا مقدر بنا لیکن پھر ایک دن آیا کہ ان کو نہ صرف جان بچانے کیلئے ملک سے بھاگنا پڑا بلکہ کئی قسم کے مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت اقتدار کی جائز منتقلی کے بعد اقتدار میں  نہیں  آئی ہے بلکہ پر تشدد تحریک اور خونیں  واقعات کے بعد عارضی طور پر اسلئے وجود میں  آئی ہے کہ منصفانہ انتخاب کراسکے۔ حسینہ کیخلاف جو مقدمات درج کئے گئے ہیں  ان میں  ۵؍ ارب ڈالر کی بدعنوانی کا بھی ایک معاملہ ہے جس میں  حسینہ اور ان کے خاندان یا قریب کے لوگ ملوث بتائے جاتے ہیں ۔
 بنگلہ دیش اینٹی کرپشن کمیشن کی اطلاع کے مطابق روس نے بنگلہ دیش کو جو نیوکلیئر پاور پلانٹ عطا کیا تھا اس میں  پانچ ارب ڈالر کا غبن ہوا ہے۔ جانچ شروع ہوچکی ہے اور جانچ کے دائرے میں  حسینہ کے بیٹے سجیب واجد اور بھتیجی ٹیولپ صدیق بھی ہیں ۔ یہاں  یہ وضاحت ضروری ہے کہ صدیق برطانوی حکومت میں  وزیر ہیں ۔ جنہوں  نے الزام لگایا ہے وہ ’’نیشنلسٹ ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کے صدر اور حسینہ کے سیاسی حریف بابی اعجاز ہیں ۔ بے گھروں  کیلئے سرکاری رہائش اسکیم میں  خرد برد کرنے کا بھی حسینہ اور ان کے قریبی لوگوں  پر الزام ہے مگر انہوں  نے اپنی صفائی میں  ابھی تک کوئی بیان نہیں  دیا ہے۔ انسانیت کیخلاف جرائم کے الزامات تو ان کے خلاف بہت پہلے عائد کئے جاچکے ہیں ۔ بنگلہ دیش چاہتا ہے کہ حسینہ خود ان الزامات کے بارے میں  صفائی دیں  اس لئے اس نے ہندوستانی حکومت کو نوٹ بھیج کر حسینہ کو اپنی تحویل میں  لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ عبوری حکومت کے ۱۰۰؍ دن پورے ہونے پر محمد یونس نے قوم کے نام پیغام کے دوران بھی کہا تھا کہ وہ ہندوستان سے مطالبہ کریں  گے کہ وہ حسینہ کو بنگلہ دیش کی حکومت کے حوالے کرے۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں  ایک حوالہ موجود ہے۔ بنگلہ دیش کے مطابق حسینہ کو اپنے ملک لانے کیلئے یہ معاہدہ کافی ہے مگر ماہرین کا موقف یہ ہے کہ یہ معاہدہ جرائم پیشہ اشخاص کے لئے ہے سیاسی طور پر پناہ لینے والوں  کو اس معاہدہ کے تحت بنگلہ دیش کے حوالے نہیں  کیا جاسکتا۔ ہندوستان نے اب تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ حسینہ بنگلہ دیش بھیجی جائیں  گی یا نہیں  مگر پانچ ارب رپیوں  کی بدعنوانی کو جرائم کی فہرست سے نہیں  نکالا جاسکتا۔
 دوسری طرف پاکستان اور بنگلہ دیش میں  تعلقات بڑی تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں ۔ پاکستانی فوج بنگلہ دیشی فوج کو تربیت دے رہی ہے۔ بغیر جانچ پڑتال کے پاکستان کے شہری جہاز اور طیارہ سے بنگلہ دیش آرہے ہیں ۔ محمد یونس نے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف سے ۱۹۷۱ء کے مسائل کو سلجھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ پہلے ہی خبریں  آتی رہی ہیں  کہ پاکستانی آئی ایس آئی بنگلہ دیش پہنچ کر ہندوستان میں  دہشت گردی کے واقعات کو بڑھاوا دے رہی ہے، دونوں  ملکوں  میں  جو کبھی ایک ہی ملک تھے بڑھتی قربت ہندوستان کے لئے نئی مشکلات کھڑی کرسکتی ہے اس لئے اس کو مناسب اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
 ہندوستان بار بار مطالبہ کر چکا ہے کہ بنگلہ دیش اپنے ملک کی اقلیت کی حفاظت کرے مگر بنگلہ دیش کی حکومت ایسے بیشتر واقعات کو جھٹلانے میں  لگی ہوئی ہے۔ اور اب تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا ہے کہ دونوں  ملکوں  میں  کشمکش بڑھ سکتی ہے۔ یہ ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کی ہر طرح حفاظت کرے چاہے اس شہری کا کسی بھی مذہب و فرقہ سے تعلق ہو۔ حیرت ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ایسے واقعات کا انکار کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ رہا ہے اور پاکستان ہندوستان کا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کے وجود میں  آنے کی بڑی وجہ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے حالات ہیں ۔ پاکستان اس لئے بھی وجود میں  آیا تھا کہ کانگریس قیادت (مولانا آزاد کو چھوڑ کر) نے بھی تقسیم پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ بعد میں  جب پاکستان ٹوٹا اس وقت بھی یہاں  کی حکومت نے بنگلہ دیش بننے دیا اور اس سیاسی پارٹی نے بھی خوب جشن منایا جو کچھ زیادہ ہی پاکستان پاکستان کر رہی تھی۔ ایک طرف توان مسلمانوں  کو فراموش کر دیا گیا جنہوں  نے تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی اور دوسری طرف اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں  کیا گیا۔

یہ بھی پڑھئے : بہار میں سیاسی سرگرمیاں اور افواہیں

 یہاں  نریندر بھائی مودی برسر اقتدار آئے تو ایسا لگا کہ اکھنڈ بھارت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے مگر ان کے دور حکومت میں  پاکستان اور بنگلہ دیش کا تو کچھ نہیں  بگڑاجگہ جگہ مسجدوں ، درگاہوں ، آستانوں  کے نیچے منادر کے آثار تلاش کئے جانے لگے۔ اب بنگلہ دیش کی حکومت حسینہ کو واپس بھیجنے یا اپنی تحویل میں  لینے کا مطالبہ کر رہی ہے تو اس کو یہ بھول کر کہ اس نے حسینہ کو سیاسی پناہ دی ہے اور اس سے پہلے تسلیمہ نسرین کو پناہ دی تھی یہ سوچنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے کہ حسینہ کو بنگلہ دیش سے بھگایا نہیں  گیا ہے، وہ خود بھاگی ہیں  اور ان پر انسانیت کے خلاف جرائم اور بدعنوانی کے معاملات میں  ملوث ہونے کے الزامات ہیں ۔ ان کو بچانا بنگلہ دیش کے عوام کا عتاب مول لینا ہے۔ یہ عتاب اکھنڈ بھارت کے خواب کو پورا کرنے میں  مخل ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK