امریکی عوام نے جس نئے صدر کا انتخاب کیا ہے انہوں نے ابھی عہدہ نہیں سنبھالا ہے۔ اُن کے تخت نشین ہونے کے بعد حالات کیا رُخ اختیار کرینگے یہ دیکھنے جیسا ہوگا۔
EPAPER
Updated: December 22, 2024, 3:32 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
امریکی عوام نے جس نئے صدر کا انتخاب کیا ہے انہوں نے ابھی عہدہ نہیں سنبھالا ہے۔ اُن کے تخت نشین ہونے کے بعد حالات کیا رُخ اختیار کرینگے یہ دیکھنے جیسا ہوگا۔
نیا سال ۲۰۲۵ء شروع ہونے کو ہے۔ اس سال میں کیا ہے، اُمید ہے یا اندیشہ؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم چیزوں کو کس طرح دیکھتے ہیں ۔ میری رائے یہ ہے کہ ۲۰۲۵ء کی زنبیل میں چاہے جو ہو، یہ ایک اہم سال ہوگا جو بہت سی باتوں کا فیصلہ کرے گا:
منظرنامہ صاف تب ہونے لگے گا جب ڈونالڈ ٹرمپ آئندہ ماہ امریکہ کے صدر کی حیثیت سے باقاعدہ اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔ امریکی سیاست نے کیا رُخ بدلا اور کتنے نشیب و فراز سے گزری اس کا اثر گزشتہ ۱۰۰؍ سال تک عالمی اُمور پر پڑا جبکہ ان ۱۰۰؍ برسوں میں کوئی صدر ایسا نہیں ہوا جیسے کہ ٹرمپ ہیں ۔ بہت سے صدور جو انتخابی مہم کے دوران تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ بھی جیسا چل رہا ہے ویسا جاری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ کئی ایسے صدور جن کے افکار و نظریات سے ترقی اور تبدیلی کا اشارہ ملتا تھا مثلاً بارک اوبامہ، اُنہوں نے بھی حالات کو بدلنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ بہ الفاظ دیگر انہوں نے جنگ روکنے کی کوشش نہیں کی اور مشرق وسطیٰ کو بہتری کی راہ پر گامزن نہیں کیا۔ ویسے گزشتہ چار دہائیوں کے حالات بھی ایسے نہیں تھے کہ ری پبلکن پارٹی کی پالیسیوں کو ڈیموکریٹس کی پالیسیوں سے بدلا جائے۔ تبدیلی نہ کرنے کے اکثر صدور کے اس موقف کو حالیہ مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جب جو بائیڈن نے صدارت سنبھالی اور چار سال اس عہدہ پر رہے تو اُنہوں نے اپنے پیش رو ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسی برائے چین کو نہیں بدلا اور ٹیریف کا جو نرخ ٹرمپ نے طے کیا تھا، وہی بائیڈن نے جاری رکھا۔
لیکن، ٹرمپ ویسے صدر نہیں ہوسکتے کیونکہ اُنہوں نے عوام کے اُن طبقات سے خاص طور پر اپیل کی تھی جو انتشار چاہتے ہیں اور جو کچھ بھی ہورہا تھا اُس کو بدلنا چاہتے ہیں ۔ وہ (ٹرمپ) اس لئے بھی مختلف ہیں کہ انہوں نے یکے بعد دیگرے چار چار سال کی میعاد مکمل نہیں کی بلکہ گئے، اُن کے بعد کوئی دوسرا صدر ہوا اور اب پھر آگئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے عہدہ پر برقرار رہتے ہوئے نئی میعاد کی شروعات کرنے والے صدور کی طرح نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ’’جیسا ہے ویسا ہی جاری رہے گا‘‘ کے خلاف ووٹ مانگا اور تبدیلی کا وعدہ کیا۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ اُن کے دور میں تبدیلی ہوتی رہے گی جسے آپ اُٹھا پٹک کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔
یہ ایک ایسی پارٹی کی قیادت کررہے ہیں جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ قدامت پرستی کی نمائندہ ہے مگر ٹرمپ فطری طور پر قدامت پسند نہیں ہیں ۔ وہ اُٹھا پٹک والے ہیں ۔ انہی بنیادوں پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ ۲۰۲۵ء ہمیں بہت کچھ دکھائے گا اور امریکی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی جن کے اثرات عالمی اُمور پر مرتب ہوں گے۔ سب سے پہلے چین کے ساتھ اُس کے تعلقات اس قابل ہوں گے کہ اُن کا مشاہدہ کیا جائے۔ ٹرمپ نے پہلی بار انتخابی مہم ۹؍ سال پہلے کی تھی جس میں انہوں نے چین کا تذکرہ ۲۳؍ مرتبہ کیا تھا۔ ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۰ء تک کی اُن کی صدارت میں ٹیریف جو تھا وہی اب بھی جاری ہے مگر ٹرمپ کی پہلی تقریر سے لے کر اب تک کے عرصے میں چین نے ۵۰؍ فیصد نمو درج کرائی۔ امریکہ اس شرح نمو کو نہیں روک سکا۔ یہی نہیں ، چین اب پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اور معاشی نیز فوجی سطح پر امریکہ کو اپنے عزائم سے دور رکھنے یا پیچھے دھکیلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ سے دو باتوں کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ یا تو وہ چین کے معاملات میں کوئی خاص فیصلہ نہیں کرینگے یا چین سے براہ راست بھڑنے کی کوشش کرینگے۔ جہاں تک بھڑنے کا سوال ہے، اس کے امکانات کم ہیں ۔ جیسا کہ کہا گیااس کا اثر عالمی حالات پر پڑے گا اور ہم بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
اکثر لوگ ہندوستان کی ’’چین پر ایک‘‘ (چائنا پلس وَن) پالیسی کی بات کرتے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ جو کمپنیاں چین کو چھوڑ کر کہیں اور جارہی ہیں ان کا فائدہ ہندوستان کو ملے مگر گزشتہ ربع صدی کا مشاہدہ یہ ہے کہ ہندوستان کو اُسی وقت فائدہ ہوتا ہے جب عالمی تجارت کھلتی ہے۔ جب اس تجارت کے دروازے بند ہوتے ہیں تو ہمارا وہ فائدہ رک جاتا ہے۔ اسی طرح جب عالمی تجارت فروغ پاتی ہے تو ہماری برآمدات بڑھتی ہیں جب اس کے برعکس ہوتا ہے تو ہماری برآمدات ٹھہر جاتی ہیں ۔
ہندوستان میں چاہے جو حکومت اقتدار میں ہو، مذکورہ رجحان نہیں بدلتا اور ایسا لگتا ہے کہ بدل بھی نہیں سکتا لہٰذا اگر امریکہ اور چین میں تجارتی حریفائی بڑھتی ہے تو اس کا ہمیں فائدہ ہونے کا امکان نہیں ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس کا نقصان سب کو ہوگا۔
ایک اہم موضوع ماحولیاتی تبدیلی کا ہے۔ اس سے بھی تمام ہی ملکوں کو نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں پیرس معاہدہ سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔ وہ گرین انرجی اُمور میں بھی بائیڈن کی راہ پر نہیں چلیں گے جس کا نتیجہ ہوگا کہ فورڈ اور جنرل موٹرس جیسی کمپنیاں فاسل فیول کے ٹرک تیار کرتے رہیں گے جن کا استعمال صرف امریکی کرتے ہیں جبکہ چین الیکٹرک کاروں کی اپنی پیداوار کو بڑھائے گا اور ان کاروں کی سپلائی پوری دُنیا میں ہوگی۔
فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ٹرمپ، غزہ میں جاری قتل عام کو روکنے کی کوشش کریں گے؟یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یوکرین روس جنگ بندی سے اُن کی دلچسپی ہوگی۔ اُن کا سابقہ طرز عمل یہ تھا کہ امریکہ کو کسی بھی جنگ سے دور رہنا چاہئے مگر اس بار اُنہوں نے جو ٹیم تشکیل دی ہے اس سے یہ اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ مداخلت کے بغیر رہ سکے گی۔ ٹرمپ عرب امریکی رائے دہندگان کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جو بائیڈن کی پالیسی سے ناراض تھے۔ سب جانتے ہیں کہ چاہے کوئی بھی صدر ہو، امریکہ اسرائیل نوازی کی پالیسی پر قائم رہتا ہے اس لئے یہ اُمید کرنا بے جا ہے کہ وہ اسرائیل کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا۔اس کے باوجود کسی اور مفاد کی خاطر اگر وہ غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کو رُکوا دیتے ہیں تو یہ بڑا کام ہوگا۔
ناٹو پر ٹرمپ کا کیا موقف ہوگا یہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے ٹرمپ ناٹو کو ناپسند کرتے ہیں ۔ ان کی نگاہ میں ناٹو پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور اس سے کوئی بڑا جغرافیائی فائدہ نہیں ۔