• Thu, 05 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیا امریکہ چین کی معاشی پیش رفت کو روک پائے گا؟

Updated: December 01, 2024, 1:55 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ٹرمپ نے چین کے معاشی اثرورسوخ بالخصوص امریکی بازاروں تک اس کی رسائی کو روکنے کا منصوبہ بنالیا ہے مگر کیا یہ اتنا آسان ہے؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

امریکی صدارتی انتخابات میں  فتح کے بعد نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے تجارتی حریف چین سے تعلقات پر توجہ مرکوز کردی ہے ۸؍ سال پہلے ٹرمپ نے چین کی شناخت امریکہ کیلئے خطرہ کے طور پر کی تھی۔ اُنہوں  نے اس کے معاشی ارتقاء کوروکنے کی منصوبہ بندی بھی کی تھی۔ اُن کی کوشش تھی کہ امریکی بازاروں  تک چین کی رسائی کم کی جائے۔ اس کیلئے اُنہوں  نے ٹیرف بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ یہ حربہ کسی حد تک تو کارگر ثابت ہوا اس لئے بھی کہ ٹیرف کی نئی شرح کو بعد کے صدر بائیڈن نے بھی جاری رکھا۔ 
 اس سال میکسیکو، امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار (پارٹنر) بنا جس نے کم و بیش ایک دہائی تک حاوی رہنے والے چین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس میں  شک نہیں  کہ میکسیکو کی مصنوعات میں  بہت کچھ ایسا تھا جو چین ہی سے درآمد شدہ تھا اس لئے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ چین کا کتنا نقصان ہوا، ہوا بھی یا نہیں ۔ بائیڈن نے ایک قدم آگے بڑھ کر جدید ترین شعبہ جات مثلاً مائیکرو چپ اور مشینوں  کے شعبوں  تک چین کی رسائی کو روکا جس کا بظاہر مقصد چین کی فوجی طاقت کو کسی نہ کسی سطح پر محدود کرنا تھا لیکن اصل اور بنیادی مقصد معاشی ہی تھا۔ اس کے جواب میں  چین نے ان شعبوں  میں  اپنی صلاحیتوں  کو آزمانے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ یہ باور کرا سکے کہ وہ امریکہ میں  رسائی کے سبب ہی کچھ کرسکتا ہے ایسا نہیں  ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اُس صلاحیت کو حاصل کرنے میں  محض چند سال ہی پیچھے ہے۔ یاد رہنا چاہئے کہ چین، برقی موٹر گاڑیوں  اور صاف ستھری توانائی (کلین اینرجی) بشمول شمسی توانائی کے پینل تیار کرنے میں  بڑی مہارت رکھتا ہےاور بازار میں  اس کا دبدبہ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں  اس کی تیار کردہ  مصنوعات کی قیمت کم اور معیار بہتر ہے۔ اس کا اعتراف ٹیسلا کے مالک ایلون مسک بھی کرچکے ہیں  کہ چین میں  اُن کے پلانٹ میں  جو کاریں  تیار کی جاتی ہیں  ویسی کسی بھی دیگر ملک کے پلانٹ میں  تیار نہیں  ہوتی ہیں ۔ یہ تو ٹیسلا کی بات ہوئی مگر جو کاریں  چینی کمپنیاں  بناتی ہیں  اُن کا معیار بھی بہت تیزی سے بلند ہوا ہے۔ ان کاروں  کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی قیمت بھی کم ہے۔
 امریکہ اگر کہیں  پھنس گیا ہے تو وہ گیس کار اور ٹرک ہیں  جن کی مانگ کم ہورہی ہے جس کا کئی وجوہات میں  سے ایک یہ ہے کہ پٹرول سے چلتی ہیں ۔ ایسے میں  امریکی کمپنیوں  مثلاً فوڈ اور جنرل موٹرس کے پاس یہی چارہ ہے کہ نہ صرف مقابلے کیلئے خود کو تیار کریں  بلکہ ٹیرف وغیرہ بڑھانے جیسے حربے استعمال کرکے چین کے اثرورسوخ کو کم کریں  اور امریکہ میں  اس کی حوصلہ شکنی کریں ۔ یہی کیا جارہا ہے۔
 مگر، یہ سمجھنا کہ ایسے حربے زیادہ عرصہ تک کارآمد ثابت ہوں  گے، خود کو دھوکہ دینے جیسا ہے۔ایسا کہنے کے دو اسباب ہیں ۔ اول یہ کہ کاریں  خریدنے والوں  کا رجحان کیا ہے اور وہ کیوں  نسبتاً سستی کاریں  نہ خریدیں  جن کا معیار بھی اچھا ہے۔ دوئم یہ کہ برقی کاروں  کی کھپت بڑھنا بالکل طے ہے اور جب یہی مستقبل ہو تو کون اُن کاروں  کو خریدے گا جو پٹرول پر چلتی ہیں ؟
 چین امریکی معیشت کے دوتہائی تک تو پہنچ گیا ہے یعنی اس کی معیشت بھی کافی توانا ہوچکی ہے۔ چین یورپی یونین کی مجموعی معیشت کو بھی چیلنج کرنے کی راہ پر ہے۔آئندہ ۱۰؍ سال میں  چین، امریکی معیشت کے برابر آنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ اس کی تیاری بھی وہی دکھائی دیتی ہے۔ماضی میں  سوویت یونین کی مجموعی معیشت امریکی معیشت کے ایک چوتھائی کے برابر تھی۔ مگر وہ بقت بالکل ہی مختلف تھا۔ چین جس حالت میں  اَب ہے، اُس وقت نہیں  تھا۔ اب یہ ملک دُنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرر ہے اور دُنیا کی مجموعی پیداوار (مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ) کا ایک تہائی حصہ صرف اس کے نام ہے۔ حالانکہ چین میں  اُجرت اور تنخواہوں  کی شرح ماضی جیسی نہیں  ہیں ، ان میں  خاصا اضافہ ہوا ہے اس کے باوجود اس کی تجارتی صلاحیتیں  اور تجارتی سرگرمیوں  کی رفتار کم نہیں  ہوئی ہے۔ 
 کووڈ کے دور میں  چین کی معاشی سرگرمیاں  کم ہوگئی تھیں  اور اُس دور کے اثرات اب بھی باقی ہیں  مگر سست رفتار چینی معیشت بھی بہت سی تیز رفتار معیشتوں  سے زیادہ بھاری بھرکم ہے۔ اس کی شرح نمو، امریکہ کی شرح نمو سے زیادہ ہے۔ واشنگٹن کیلئے چین سے مقابلہ آسان نہیں  ہے۔ ان حالات میں  ہر خاص و عام کے ذہن میں  یہی سوال اُبھرتا ہے کہ امریکہ چین کو کیسے روک پائے گا؟ اکثر یہ نکتہ بھی ذہن میں  اُبھرتا ہے کہ اگر چین معیشت کے حجم کے اعتبار سے امریکہ کے برابر آگیا تو کیا ہوگا؟ ہم ان دونوں  سوالوں  کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرینگے۔ 

یہ بھی پڑھئے : جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

 سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیفوں  میں  اب اتنی قوت نہیں  ہے کہ اُس طرح غالب رہ سکیں  جس طرح سابقہ چند دہائیوں  کے دوران رہے ہیں ۔ چین خود کو ’’مداخلت مخالف‘‘ قرار دیتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کردکھائے گا لیکن آپ اس کا ماضی دیکھیں  تو یہی نتیجہ اخذ کرینگے کہ وہ کبھی غالب طاقت کے طور پر خود کو منواتادکھائی نہیں  دیا ہے۔
 بدقسمتی سے، ہم ہندوستانیوں  کیلئے، یہ بات غور طلب ہے کہ اتنا بڑا ملک ہونے کے باوجود عالمی تجارتی منظرنامہ پر ہمارا کردار مختصر ہی ہے۔ ہم وہ نہیں  کرسکے جو چین نے کردکھایا۔ ہم تماشائی بنے رہے۔ ۱۹۹۰ء میں  چین میں  اور ہم میں  کوئی فرق نہیں  تھا۔ اُس کا بھی جی ڈی پی کم و بیش اُتنا ہی تھا جتنا کہ ہمارا ہے بلکہ بغور دیکھیں  تو ہمارا جی ڈی پی نسبتاً زیادہ ہے۔ لبرلائزیشن کے پرچم تلے ڈھائی دہائیاں  اور مودی صاحب کے اقتدار میں  ایک دہائی گزارنے کے باوجود ہم معاشی افق پر ستارہ بن کر نہیں  اُبھرے۔ 
 اس کا اہم سبب یہ ہے کہ ہم نے کبھی چین کی برابری کی کوشش ہی نہیں  کی۔ اتنی بڑی افرادی قوت بالخصوص نوجوانوں  کی بڑی آبادی کے باوجود ہم پیچھے ہی ہیں ۔ یہ وہی ملک ہے جس کی نوجوان آبادی کو دیکھ کر عالمی طاقتیں  رشک کررہی تھیں ۔ آج بھی ہم کچھ سیکھنے کو تیار نہیں  بلکہ کھود کھود کر تنازعات نکال رہے ہیں  اور جعلی مسائل پر توانائی خرچ کرکے حقیقی مسائل کا حل ڈھونڈنے میں  ناکام ہیں ۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK