یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا مگر اس حقیقت سے منہ بھی نہیں چرایا جاسکتا کہ عالمی سطح کے بیشتر جدولوں پر ہم پچھڑ گئے ہیں، پہلے جہاں تھے وہ بھی کوئی اچھا مقام نہیں تھا مگر اب تو اور بھی پیچھے ہوگئے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 1:43 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا مگر اس حقیقت سے منہ بھی نہیں چرایا جاسکتا کہ عالمی سطح کے بیشتر جدولوں پر ہم پچھڑ گئے ہیں، پہلے جہاں تھے وہ بھی کوئی اچھا مقام نہیں تھا مگر اب تو اور بھی پیچھے ہوگئے ہیں۔
۲۰۱۸ء میں میری کتاب ’’مودی کے دور اقتدار کی قیمت ‘‘ (قیمت، خمیازہ کے معنی میں ) شائع ہوئی تھی۔ اس کے ایک باب میں میری کوشش تھی کہ عالمی جدولوں میں ہندوستان کا کیا مقام ہے اُس پر تفصیل سے گفتگو کروں ۔ عالمی جدولوں میں ہم کہاں ہیں اس کا مطالعہ مَیں کتاب کی تصنیف کے بہت پہلے سے کررہا تھا۔ کتاب میں میری کوشش تھی کہ اپنے قارئین کو بتاؤں کہ ۲۰۱۴ء کے بعد ان جدولوں میں ہندوستان کی درجہ بندی بہتر ہوئی ، ہندوستان پیچھے ہوا یا جہاں تھا وہیں ہے۔ آج کے کالم کا موضوع بھی یہی ہے جس میں کوشش ہوگی کہ مَیں اپنے قارئین کو صورت حال سے آگاہ کروں ۔ یہ جائزہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس مطالعہ کا آغاز ۲۰۱۴ء سے ہو تھا ا اور اب ہم ۲۰۲۴ء کے اختتام کے قریب ہیں ۔
اقوام متحدہ کے جدول برائے انسانی ترقیات میں بچے کی ولادت کے وقت زندہ رہنے کے امکانات، اس کی تعلیم اور خاندانی آمدنی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان بنیادوں پر انسانی ترقیات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ہم اس جدول میں ۱۳۰؍ ویں مقام پر تھے۔ اب ۱۳۴؍ ویں مقام پر ہیں یعنی دس سال میں ہمیں چار درجے پچھڑنا پڑا۔ اسی طرح، ’’دی اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹس ڈیموکریسی اِنڈیکس‘‘ کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کس ملک میں شہری آزادی، تکثیریت، سیاسی کلچر، عوامی شرکت اور انتخابی عمل کیسا ہے۔ اسی بنیاد پر ملکوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ۲۰۱۴ء میں اِس جدول میں ہمارا مقام ۲۷؍ واں تھا جبکہ تازہ ترین جدول میں ہم ۴۷؍ ویں مقام پر پہنچ گئے یعنی ۲۰؍ منزلیں نیچے کی طرف۔ یہ ادارہ ہندوستان کو ’’ناقص جمہوریت‘‘ کے زمرہ میں رکھتا ہے۔ ایک اور ادارہ ہے ’’سِویکس‘‘ جو عوامی اجتماعات کی آزادی، مل بیٹھنے کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کو جانچتا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں اس ادارے نے ہمارے ملک کو ایسا ملک قرار دیا تھا جہاں آزادی کو کافی روک ٹوک کا سامنا ہے۔ اس جدول میں ہندوستان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہاں شہری آزادی کی صورت حال تشویشناک ہے۔ ایک اور ادارہ ہے لووی انسٹی ٹیوٹ جو کسی ملک کی قومی طاقت کو جانچتا اور آنکتا ہے۔ اس کیلئے جو معیارات مقرر کئے گئے ہیں وہ معیشت، سفارت، فوجی طاقت، کشادہ ذہنی اور لچک، تجارت، مستقبل کے رجحانات اور ثقافتی اثرات ہیں ۔ مرکزی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس ادارے کے ماہرین سے سڈنی میں ماہِ نومبر میں ملاقات کی تھی۔ لووی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ہندوستان نے ۲۰۲۰ء میں ۴۰؍ پوائنٹ نیچے گر کر ’’بڑی طاقت‘‘ کا اپنا منصب گنوا دیا۔ ۲۰۲۱ء اور ۲۰۲۲ء میں اس میں مزید گراوٹ آئی۔ ۲۰۲۴ء میں بھی اسے ۴۰؍ پوائنٹ سے کم ہی ملے ہیں ۔
فریڈم ہاؤس یہ جانچتا ہے کہ کسی ملک کی حکمرانی کیسی ہے، سیاسی تکثیریت اور انتخابات کا کیا حال ہے، حکومت کی کارکردگی کیسی ہے، شہری آزادی اور حقوق کی کیا حالت ہے اور عوام کو اُن کے حقوق حاصل ہیں یا نہیں ، حاصل ہیں تو کس حد تک اور نہیں تو کس حد تک۔ یہ ۱۰۰؍ ملکوں کی جدول تیار کرتا ہے ۔ ۲۰۱۷ء میں ہمیں ۱۰۰؍ میں سے ۷۷؍ واں مقام حاصل ہوا تھا۔ اب ہمیں ۶۶؍ واں مقام حاصل ہے۔ پہلے ہمیں ’’آزاد‘‘ قرار دیا گیا تھا، اب ’’جزوی طور پر آزاد‘‘ کہا گیا ہے۔اس کیلئے بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کا ’’رول آف لاء انڈیکس‘‘ کسی ملک کو وہاں کی جرم و انصاف کی صورت حال، بنیادی حقوق، سرکاری اختیارات کا استعمال، بدعنوانی کی کیفیت، حکومت کا شفاف طریقہ کاراور حفاظتی انتظامات جیسے معیارات پر پرکھا جاتا ہے۔ اس جدول میں ۲۰۱۴ء میں ہندوستان ۶۶؍ ویں مقام پر تھا، ۲۰۲۲ء میں ۷۷؍ ویں مقام پر آیا اور ۲۰۲۴ء میں ۷۹؍ ویں مقام تک پچھڑ گیا۔ اس جدول میں ہندوستان کو کم نشانات جن شعبوں میں ملے وہ ہیں شہریوں کے بنیادی حقوق اور جرم و انصاف کے معاملات۔
اقوام متحدہ کے ’’ورلڈ ہیپی نیس‘‘ جدول میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس ملک کا فی کس جی ڈی پی کتنا ہے، عوام کو کتنا سماجی تعاون حاصل ہے، اُن کی صحت اور زندہ رہنے کی صلاحیت کتنی ہے، اپنی زندگی اپنے طور پر گزارنے کی کتنی آزادی ہے اور کرپشن کی صورت حال کیا ہے وغیرہ۔ اس جدول میں ہندوستان ۲۰۱۴ء میں ۱۱۱؍ ویں مقام پر تھا جبکہ اب ۱۲۶؍ پر آگیا ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ملک میں زندگی کی تشکیل کے سفر میں حالات خراب ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی چند وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔
فریسر انسٹی ٹیوٹ کے گلوبل اکنامک فریڈم انڈیکس میں حکومت کا حجم، عدالتی نظام، عالمی سطح پر تجارت کے مواقع کی آزادی، مزدوروں کی حالت اور بزنس کی صورت حال کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس میں ہندوستان کی درجہ بندی بہتر ہوئی ہے۔ ۲۰۱۴ء میں اس جدول میں ہمارا مقام ۱۱۲؍ واں تھا۔ اب ۸۴؍ واں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: جنگل ہٹا کے دیکھ ذرا میرے ہم نشیں
ادارہ ’’رپورٹرس ودھاؤٹ بارڈر‘‘ اپنی فعالیت کے سبب کافی مشہور ہے جو ذرائع ابلاغ کی آزادی، تکثیریت اور شفافیت وغیرہ کا جائزہ لیتا ہے۔ اس جدول میں ہندوستان ۲۰۱۴ء میں ۱۴۰؍ ویں مقام پر تھا مگر اب ۱۵۹؍ پر آیا ہے۔ ایسا ہی ایک ادارہ ورلڈ بینک کا ہے جو خواتین، تجارت، قانون کی بنیاد پر کسی ملک کی صورت حال کا جائزہ یتا ہے۔ اس کے معیارات میں دفاتر میں کام کرنے والوں کی صورت حال، چھوٹے پیمانے پر تجارت شروع کرنے کے امکانات، عوام کے مال و متاع اور پنشن وغیرہ کے معاملات شامل ہیں ۔ اس جدول میں ہندوستان ۲۰۱۴ء میں ۱۱۱؍ ویں مقام پر تھا، اب ۱۱۳؍ ویں مقام پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بھی مشہور ادارہ ہے جو کسی ملک میں بدعنوانی کی صورت حال کو آنکتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ہندوستان ۸۵؍ ویں پائیدان پر تھا، اب ۹۳؍ ویں مقام پر ہے۔
ایسے اور بھی کئی جدول ہیں جن میں ہماری کیفیت قابل تعریف کہنا تو دور کی بات، قابل ذکر بھی نہیں ہے۔ اس ضمن میں مجھے ایک ہی بات کہنی ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ برسوں سے ان جدولوں کا جائزہ لے رہے ہیں گواہی دیں گے کہ خاص طور پر حکمرانی (گورننس) کے معاملے میں ہماری حالت بہتر نہیں ہے ۔