• Wed, 29 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیا تھا متحدہ ملک کیلئے مولانا آزاد کا منصوبہ ؟

Updated: January 27, 2025, 1:49 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہ ایسا منصوبہ تھا جسے منظور کروانے کیلئے مولانا نے بڑی جدوجہد کی تھی۔ اسے گاندھی جی کی بھی حمایت حاصل تھی اس کے باوجود مایوسی ہاتھ لگی۔ اس کیلئے، بقول مضمون نگار، مولانا آزاد نے نہرو کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آج  جبکہ ہم یوم جمہوریہ منا رہے ہیں ، ایک ایسے آئین کے بارے میں  جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے جسے ہندوستان نے مسترد کردیا تھا۔ قارئین جانتے ہوں  گے کہ ۱۹۴۶ء میں  مولانا ابو الکلام آزاد نے کانگریس کے صدر کی حیثیت سے کہا تھا کہ غیر منقسم ہندوستان کا آئین، اس کی فطری ضرورتوں  کے مطابق، وفاقی یعنی فیڈرل ہونا چاہئے۔ اس کی وضاحت میں  مولانا نے فرمایا تھا کہ یہ آئین ایسا ہو جو ملک کے تمام صوبوں  کو جتنے بھی شعبوں  میں  مکمل اختیار اور آزادی دے سکتا ہو، دے۔ یہ بات انہوں  نے قومی اتحاد کے باب میں  کہی تھی، ان کا خیال تھا کہ اس سے ایک بنیادی مسئلہ حل ہوسکےگا جو آزادی کا نہیں  بلکہ تصفیہ کا ہے۔ انہوں  نے یہ بھی کہا تھا کہ ملک کے مسلمان یہ سوچ کر مخمصے میں  ہیں  کہ آزاد ہندوستان کیسا ہوگا اور اس میں  اُن کیلئے کتنی جگہ ہوگی۔ 
 وفاقیت یعنی فیڈرل ازم کا معنی تھا کہ تمام صوبوں  کو، جو پرووِنس کہلاتے تھے، مکمل اختیارات حاصل ہوں  چنانچہ جو صوبائی حکومت (مرکزی) ہوگی وہ دفاع، اُمورِ خارجہ اور مواصلات کی ذمہ دار ہو۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہو اُس کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی رہے جو بہت سے معاملات میں  وفاقی یعنی مرکزی حکومت کے اتفاق رائے سے اپنی خدمات انجام دیتی رہے گی۔مولانا آزاد کا خیال تھا کہ ایسا ملک جو کئی اکائیوں  سے مل کر بنا ہو اور ہر اکائی کی اپنی خصوصیتیں  ہوں ، وہ وفاقی صورت ہی میں  فطری معلوم ہوگا۔ انہوں  نے اپنے اس خیال پر کانگریس کے رفقائے کار سے تبادلۂ خیال نہیں  کیا تھا کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ صدر کی حیثیت سے اُنہیں  مکمل اختیار حاصل ہے۔ اپنے اسی خیال کے تحت انہوں  نے ۶؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو، جو کہ سنیچر کا دن تھا، کیبنٹ مشن سے ملاقات کی اور پھر کانگریس ورکنگ کمیٹی کو اس خیال سے آگاہ کیا۔ اس ضمن میں  انہوں  نے لکھا ہے کہ وہ اپنے اس خیال اور منصوبہ کی معقولیت سے رفقائے کار کو قائل کرچکے تھے بالخصوص گاندھی جی کو جنہوں  نے اُن کے بقول اس خیال اور منصوبے سے ’’مکمل اتفاق‘‘ کا اظہار کیا تھا۔
 ا لبتہ سردار پٹیل نے سوال کیا تھا کہ مالیات اور کرنسی جیسے اُمور کا کیا ہوگا۔ اس کے جواب میں  مولانا آزاد کی جانب سے گاندھی جی نے جواب دیا اور کہا تھا کہ یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں  کہ صوبے ایسے اُمور میں  کسی متحدہ پالیسی کی تمنا نہیں  کرینگے۔ مولانا نے اپنی کتاب میں  یہ نہیں  لکھا کہ اس خیال اور منصوبے پر پنڈت نہرو کی کیا رائے تھی۔  
 پارٹی کے رفقائے کار کی حمایت حاصل کرنے کے بعد مولانا آزاد نے تین دن بعد (۱۵؍ اپریل کو) ایک بیان جاری کیا جس کے بیشتر حصے میں  اُن کی کوشش تھی کہ وہ مطالبۂ پاکستان کی مذمت کریں  جس میں  اُنہیں  کئی نقائص نظر آرہے تھے۔ اُنہیں  یہ اشارے مل رہے تھے کہ کانگریس اُن کے منصوبے کو شرف قبولیت بخشے گی ۔آخر میں ، وہ کہتے ہیں  کہ وہ کانگریس کو اس کے فارمولے پر ہموار کرنے میں  کامیاب ہو گئے جو `نظریۂ پاکستان میں  جو بھی میرٹ ہے اسے محفوظ رکھتا ہے جبکہ اس کے تمام نقائص اور خرابیوں  سے بچاتا ہے۔ جہاں  تک اُن صوبوں  کا تعلق ہے جہاں  کی غالب آبادی مسلمانوں  کی تھی مگر مرکز میں  اکثریتی فرقے کے لوگوں  کا غلبہ ہے وہاں  کیلئے بھی انہوں  نے صوبائی خود مختاری کی اسکیم پیش کی تھی جس میں  دو طرح کے مضامین تھے، ایک لازماً مرکز سے متعلق اور دوسرا اختیاری جسے صوبائی حکومت مرکز کو دے سکتی ہے۔ مسلم اکثریتی صوبوں  کو خود مختاری تو حاصل رہے گی مگر اُن مسائل و معاملات پر اثرورسوخ بھی حاصل رہے گا جن کا تعلق بحیثیت مجموعی پورے ہندوستان سے ہوگا۔ مولانا آزاد کا یہ خیال کافی پختہ تھا کہ چاہے یک قومی نظریہ ہو یا دو قومی حل ناکام ہوگا۔ آخر الذکر اس لئے ناکامی سے دوچار ہوگا کہ اگر ملک تقسیم ہوا تو یہاں  رہنے والے مسلمان اپنی بڑی آبادی کے باوجود کوئی بات کہہ اور منوا نہیں  سکیں  گے۔اُس دور کے بارے میں  مولانا نے لکھا ہے کہ ان کے خیال کے مطابق ’’دو فرقوں  میں  فی الوقت جو تلخی اور تفرقہ پایا جاتا ہے وہ ہندوستانی زندگی کا عبوری مرحلہ ہے۔‘‘
 ایک ماہ بعد ۱۶؍ مئی کو انگریزوں  نے جو کیبنٹ مشن پلان جاری کیا وہ مولانا آزاد کے منصوبے سے بہت مختلف نہیں  تھا مگر اس میں  صوبائی خود مختاری کے بجائے خطہ جاتی خود مختاری کا پلان پیش کیا گیا تھا چنانچہ اسکیم یہ تھی کہ ہندوستان کو تین حصوں  میں  تقسیم کیا جائے (جیسا کہ موجودہ صورت حال ہے: پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش) جس کی بنیاد مقامی اکثریت ہو اور جنہیں  مرکز کی سرپرستی میں  صوبائی خود مختاری حاصل رہے۔ جو ریاستیں  نوابوں  اور مہاراجوں  کے ماتحت ہیں  (پرنسلی اسٹیٹ) اُنہیں  بھی خود مختاری حاصل رہے گی سوائے اُن اختیارات کے جو وہ مرکز کے سپرد کرچکے ہیں ۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’سوال ہی سوال ہیں، جواب کس سے پوچھئے؟ ‘‘

 آزاد کہتے ہیں  کہ اُنہیں  ایسا لگتا تھا کہ کانگریس اس تجویز کو قبول کرلے گی۔ اُن کے مطابق جناح ابتداء میں  اس برطانوی منصوبہ کے مخالف تھے مگر وہ تشکیل پاکستان کے معاملے میں  کافی دور جاچکے تھے (یعنی اب قدم پیچھے لینا ممکن نہیں  تھا) تاہم آزاد کا خیال ہے کہ وہ پیش کردہ شرائط سے بہتر شرائط پر بات چیت نہیں  کر سکے تھے اور ان کے مشورے پر مسلم لیگ کونسل نے کیبنٹ مشن پلان کے حق میں  ووٹ دے دیا۔ 
 ۱۶؍ جون کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے بھی اس پلان کی حمایت کردی۔ بقول آزاد: ’’کیبنٹ مشن پلان پر کانگریس اور مسلم لیگ دونوں  کی رضامندی تحریک آزادی کی تاریخ میں  ایک پُروقار موقع تھا  جس کا معنی تھا کہ آزادیٔ ہند کا مشکل سوال مذاکرات اور اتفاق رائے کے ذریعہ حل کرلیا گیا ہے اور یہ سخت مرحلہ تشدد اور تلخی کے بغیر سر ہوا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر تھا کہ جو فرقہ وارانہ مشکلات تھیں  وہ بھی اب پس پشت رہ گئی تھیں ۔ پورے ملک میں  اس کے استقبال کے جذبہ سے جوش و خروش تھا۔ ہم بھی مسرور و شادماں  تھے مگر ہم نہیں  جانتے تھے کہ ہماری یہ شادمانی قبل از وقت ہے اور ایک تلخ مایوسی ہمارا انتظار کررہی ہے۔مولانا کہتے ہیں  کہ اُنہیں  نہرو سے اُمید تھی پٹیل سے نہیں  اور یہ غلطی تھی کیونکہ پٹیل سے اُمید کی جاتی اور اُنہیں  ذمہ داری دی جاتی تو وہ اُن (آزاد) کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے، نہرو نے جناح کو موقع دے دیا کہ اس پلان کو سبوتاژ کردیں ۔n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK