انہوں نے نفرت کے بازار میں محبت کی جو دکان کھولی تھی اس میں گاہک آنے لگے ہیں، وہ کل تک صرف کانگریس کے لیڈر تھے اب لیڈر آف اپوزیشن بن گئے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 10, 2024, 1:19 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
انہوں نے نفرت کے بازار میں محبت کی جو دکان کھولی تھی اس میں گاہک آنے لگے ہیں، وہ کل تک صرف کانگریس کے لیڈر تھے اب لیڈر آف اپوزیشن بن گئے ہیں۔
اٹھارویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے اعلان کو ایک ماہ گذر چکا ہے۔نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بن گئے ہیں ۔ لیکن ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے بی جے پی الیکشن جیت کر بھی سوگ منارہی ہے اور اپوزیشن اتحاد انڈیا خصوصاً کانگریس پارٹی کے خیمے میں ہارنے کے باوجود جشن کا ماحول ہے؟ کیا وجہ یہ ہے کہ گرچہ جنتا دل یو اور تیلگو دیشم پارٹی کے سہارے نریندر مودی نے ۲۷۲؍ کا میجک ہندسہ عبور کرکے جیسے تیسے حکومت تو بنالی ہے لیکن انہیں یہ احساس ستارہا ہے کہ اخلاقی مینڈیٹ انڈیا اتحادکو ملا ہے۔ اب کی بار مودی کا میجک فیل ہوگیا اور راہل گاندھی کا جادو چل گیا۔
یہ سچ ہے کہ وہ کانگریس کو اس کا کھویا ہوا راج پاٹ واپس دلانے میں ناکام رہے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ راہل گاندھی ناکام رہنماکا وہ طوق اتارپھینکنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو پچھلے دس برسوں سے ان کے گلے میں پڑاہوا تھا۔ انہوں نے جو ہزاروں کلو میٹر کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘کی تھی وہ انہیں منزل تک تو نہیں پہنچاسکی پر اس کے قریب ضرور لے آئی۔ انہوں نے نفرت کے بازار میں محبت کی جو دکان کھولی تھی اس میں گاہک آنے لگے ہیں ۔ جس کانگریس کا نام و نشان مٹادینے کے دعوے کئے جارہے تھے اس نے اپنی سیٹیں دوگنی سیٹیں کرلی ہیں ۔ کانگریس پارٹی کے وہ ورکر جو پوری طرح demoralised ہوگئے تھے ان میں نیا جوش پیدا ہوگیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو کانگریس سے دور ہوگئے تھے ایک بار پھر پارٹی کی جانب دھیرے دھیرے واپس آرہے ہیں ۔
وائناڈ اور رائے بریلی دونوں حلقوں سے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے فتح یاب ہوکر راہل نے ’’پپو‘‘ کے اس تضحیک آمیز لقب سے بھی نجات حاصل کرلی ہے جو بی جے پی والوں نے ان کی کردار کشی کے لئے بڑی محنت سے وضع کیا تھا۔جس پارلیمنٹ سے بی جے پی حکومت نے انہیں رسوا کرکے نکالا تھا راہل اس بار اسی پارلیمنٹ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ راہل جو کل تک صرف کانگریس کے لیڈر تھے اب لیڈر آف اپوزیشن بن گئے ہیں ۔ اس نئے عہدے پر فائز ہونے کے بعد دیش واسیوں کو وہ ایک نئے اوتار میں نظر آرہے ہیں ۔
نئی لوک سبھا کے افتتاحی اجلاس میں اس بار نریندر مودی کا نہیں راہل گاندھی کا جلوہ نظر آیا۔ صدر جمہوریہ کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک پر بحث کے دوران راہل نے جو تقریر کی اس پر کئی دنوں تک چرچا ہوتارہا۔ اس ۹۰؍ منٹ طویل تقریر کو ایک سیاسی مبصر نے’’آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستانی پارلیمنٹ میں کی گئی اہم ترین تقاریر میں سے ایک‘‘قرار دیا۔ یہ راہل کے لئے بلاشبہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ راہل گاندھی جب بول رہے تھے تو محسوس ہورہا تھا کہ جمہوریت بول رہی ہے، وہی جمہوریت جس کا گلا گھونٹنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔
انہوں نے مختلف محاذوں پر حکومت کی ناکامی اور نااہلی پر نہایت جرأت مندانہ طریقے سے تنقید کی۔منی پور، اگنی ویر، کسانوں کے مسائل، بے روزگاری، معاشی عدم مساوات اور مذہبی منافرت جیسے ایشوز پر راہل نے حکمراں جماعت پر جم کر نشانہ سادھا۔ راہل جب لوک سبھا میں حکومت پر تنقید کررہے تھے تو مودی جی، امیت شاہ،راج ناتھ سنگھ اور شیو راج سنگھ چوہان جیسے بھاری بھرکم بی جے پی لیڈروں کو ان کے الزامات کا جواب دینے کے لئے ایوان میں کئی بار کھڑا ہونا پڑا۔ امیت شاہ تواسپیکر سے یہ فریاد کرتے بھی نظر آئے کہ وہ راہل گاندھی کے حملوں سے حکمراں جماعت کی حفاظت کریں ۔ راہل گاندھی نے ہندوتوا پر بھی سیدھا وار کیااور ہندو دھرم اور بی جے پی کے ہندوتوا کے درمیان جو بنیادی فرق ہے اس کی وضاحت بھی کی۔ یہاں مودی اور ان کی ٹیم کو راہل گاندھی کو گھیرنے کا موقع مل گیا۔ بی جے پی کے لیڈران راہل کے ذریعہ اٹھائے گئے سلگتے سوالات کا جواب نہیں دے پارہے تھے تو وہ ان پر ہندو دھرم کے اپمان کا الزام لگاکر انہیں ہندو مخالف ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ تقریر میں ہندو دھرم والے حصے کا لب لباب یہ تھا کہ حقیقی ہندو ہونے کا مطلب ہے امن پسند، روادار، سچا اور بے خوف ہونا۔ راہل کے مطابق حقیقی ہندو نفرت اور تشدد نہیں کرسکتا ہے جبکہ بی جے پی والے نفرت اور تشدد کا بازار گرم کرتے ہیں ۔ اس بات پر مودی کی ٹیم آپے سے باہر ہوگئی۔ لیکن راہل نے یہ کہہ کر بی جے پی کو لاجواب کردیا کہ مودی جی یا بی جے پی سارے ہندو سماج کی ٹھیکیدار نہیں ہیں ۔
مودی جی کو راہل گاندھی کی تقریر نے کس قدر پریشان کردیا اس کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ وزیر اعظم نے اپنی زندگی کی طویل ترین جوابی تقریر کرڈالی۔ انہوں نے ان ایشوز کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی جو راہل نے اٹھائے تھے۔لیکن مودی جی نے راہل گاندھی پر ذاتی حملے کرکے اپنا غصہ ضرور اتارا۔ راہل کو اب ’’پپو‘‘ کہہ کر بی جے پی خود مذاق کا نشانہ نہیں بننا چاہتی ، شاید اسی لئے مودی جی بار بار ’’بالک بدھی‘‘کہہ کر ان پر طعنہ زنی کرتے رہے۔ آپ اس نئے ٹائٹل کو’’ پپو‘‘ کا سنسکرت ترجمہ سمجھ سکتے ہیں ۔
مودی جی راہل گاندھی کا جتنا چاہے مذاق اڑالیں تاہم اب انہیں ہر دن اس ’’بالک‘‘کے سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لوک سبھا میں راہل گاندھی کی ولولہ انگیز تقریر نے ان کے ناقدین کو بھی اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا۔ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں قائد حزب اختلاف کا رتبہ ملنے کے بعد راہل پہلے والے راہل نہیں رہے۔ ان پر اب صرف کانگریس پارٹی کی نہیں بلکہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کی اجتماعی قیادت کی ذمہ داری کا بوجھ ہے۔ان کی تقریر کے متعدد حصے اسپیکر اوم برلا نے ریکارڈ سے حذف کروادیئے لیکن وہ ہندوستانیوں کے اجتماعی اذہان سے انہیں نہیں مٹاسکے۔
کل تک بی جے پی اور گودی میڈیا دن رات یہی راگ الاپا کرتے تھے کہ مودی جی اور راہل کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ آج صورتحال یکسر بدل چکی ہے: مودی جی اور راہل کا ہرروز مقابلہ ہورہا ہے۔کبھی پارلیمنٹ میں تو کبھی پارلیمنٹ کے باہر۔ لوک سبھا کے افتتاحی اجلاس کے خاتمے کے بعد راہل گاندھی ملک کے طول و عرض میں جاکر عام لوگوں سے مل رہے ہیں اور ان کا دکھ سکھ بانٹ رہے ہیں ۔ ہاتھرس میں ہوئی ٹریجڈی کے بعد راہل گاندھی نے جاکر مہلوکین کے گھروالوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ پیر کے دن جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں وہ منی پورکا دورہ کررہے ہیں ۔ مئی ۲۰۲۳ء میں نسلی تشدد کی آگ بھڑکنے کے بعد سے یہ راہل کا منی پور کا تیسرا دورہ ہے۔ مودی جی ماسکوچلے گئے لیکن منی پور نہیں جاسکے۔ کانگریس کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کاعوام سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔ راہل گاندھی وہ ٹوٹا ہوا رابطہ دوبارہ جوڑ رہے ہیں ۔