• Wed, 19 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سنڈے اسپیشل: مہاراشٹر انتخابی نتائج کے پس منظر میں راج ٹھاکرے کے بیان کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

Updated: February 15, 2025, 7:24 PM IST | Mumabi

راج ٹھاکرے کا بیان صرف ایک شکست خوردہ سیاستدان کی مایوسی نہیں بلکہ جمہوریت کے موجودہ چہرے پر ایک تنقیدی نگاہ بھی ہے۔

Raj Thackeray rightly said that "let alone the losers in the Maharashtra election, even the winners did not believe that we had won." Photo: INN
را ج ٹھاکرے نے یہ بات بالکل درست کہی کہ ’’مہاراشٹر الیکشن میںہارنے والوں کو تو چھوڑیئے جیتنے والوںکو بھی یقین نہیں تھا کہ ہم جیت گئے۔‘‘ تصویر: آئی این این

 یہ جمہوری چہرے پر ایک تنقیدی نگاہ ہے


راج ٹھاکرے کا بیان صرف ایک شکست خوردہ سیاستدان کی مایوسی نہیں بلکہ جمہوریت کے موجودہ چہرے پر ایک تنقیدی نگاہ بھی ہے۔ یہ ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ جمہوریت صرف ووٹنگ تک محدود نہیں بلکہ انتخابی عمل کی شفافیت، عوامی اعتماد اور سیاسی اخلاقیات پر بھی قائم ہے۔ ایسے بیانات ہمیں جمہوری نظام کی کمزوریوں کو سمجھنے اور اسے مضبوط بنانے پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔اگرچہ وہ اپنے بیان میں عوامی جذبات کی عکاسی کر رہے ہیں، لیکن اس میں ان کی اپنی سیاسی حکمت عملی بھی پوشیدہ ہے۔ ہار کے بعد عوامی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے انتخابی عمل پر سوال اٹھانا ایک  سیاسی حربہ ہے۔ یہ بیان دراصل  اپنے کارکنان کو متحرک رکھنے اور اپنی ساکھ کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے۔
آصف جلیل احمد (چونابھٹی، مالیگاؤں)

 

یہ بھی پڑھئے: سنڈے اسپیشل: اس بار عام بجٹ سے آپ کو کس طرح کی امیدیں ہیں؟

حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ .....


حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہونے کے بعد ووٹرس یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اُن کا ووٹ کہاں گیا؟ ایسے میں راج ٹھاکرے  کے بیان میں حیرت اور تعجب کی کوئی بات نہیں  ہے۔ دراصل اسمبلی الیکشن میں اُن کی پارٹی کا جو   ایم ایل اے تھا، وہ بھی ہار گیا اور اُن کا بیٹا  بھی اپنے حلقے میں کوئی اثر نہیںچھوڑ سکا۔ یہ  وہ درد ہے جو کہیں نہ کہیں اُن کے سیاسی دِل کے خانے میں جمع تھا، باہر آ گیا۔ ویسے اُن کا تعجب ہونا اپنے اندر سچائی کو سموئے  ہوئے ہے، لیکن اتنے دِنوں بعد جاکر اس کا اظہار کہیں نہ کہیں ان کی دوسری جماعت کے ذریعے نظرانداز ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ مہاراشٹر میں اپنی کمزور پڑتی سیاست کو مضبوط کرنے کی فکر میں وہ دوبارہ مصروف ہونے اور اپنا سیاسی وجود بچانے کی ایک کوشش  ہے۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ،بھیونڈی)

یہ کارپوریشن الیکشن کی تیاری ہے


شیو سینا کی جانشینی کے طورپر بال ٹھاکرے کی موجودگی ہی میں راج ٹھاکرے کا نام لیا جاتا تھا،لیکن ادھو ٹھاکرے کو وارث بنا دیا گیا۔ اسی کے چلتے راج نے الگ پارٹی بنالی،لیکن راج نیتی کی دنیا میں وہ کوئی کمال نہیں دکھا سکے۔پھر ان کی پارٹی نے کسی کو ساتھ نہیں لیا اوراگر کبھی لیا بھی تو، ساتھ والی پارٹی ہار گئی۔ ایسے میں ان کا’فرسٹریشن‘سمجھا جاسکتا ہے۔اگر یہ ایسا بیان دے رہے ہیں تو  اس کا مطلب واضح ہے۔ وہ میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں کسی  پارٹی بالخصوص اپوزیشن کی جماعتوں میں سے کسی کا ساتھ چاہتے ہیں تاکہ ان کی پارٹی کی نیا پار لگ سکے۔ اسی لئے  اپوزیشن کے الزامات کو تقویت فراہم کررہے ہیں۔ اس کے باوجودبھلے ہی اس کے پیچھے ان کا کوئی مطلب ہو لیکن بات تو صحیح ہی کہہ رہے ہیں۔
مرتضیٰ خان (نیا نگر،میرا روڈ،تھانے)

صرف راج نہیں، دوسرے بھی حیران ہیں


مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابی نتائج سے صرف راج ٹھاکرے ہی نہیں بلکہ دوسرے سیاسی مبصرین و ماہرین بھی حیران ہیں۔ اسمبلی الیکشن سے چند ماہ قبل پارلیمانی انتخابات میں مہا وکاس اگھاڑی نے شاندار مظاہرہ کیا تھا، مگر اسمبلی الیکشن کے نتائج پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا بلکہ ’ایم وی اے‘ چاروں شانے چت ہو گیا۔ ایسا ’ چمتکار‘ کیسے ہو گیا؟ راج ٹھاکرے کا بیان بالکل صحیح ہے کہ مہا یوتی کے جیتنے والے بیشتر ممبران کو خود ہی اپنی جیت کا یقین نہیں تھا حتی کہ آر ایس ایس کے عہدیداروں کو بھی ایسی امید نہیں تھی۔ دراصل راج ٹھاکرے کا ہدفِ تنقید انتخابی عمل کے دوران الیکشن کمیشن کی ایک اتحاد کی حمایت میں کھلی جانب داری  پر ہے جسے بعض سیاسی مبصرین زیرِ بحث لا چکے ہیں۔
افتخار احمد اعظمی (سابق مدیر ` ضیاء،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)

راج  ٹھاکرے نے اشارہ دیا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے


مہاراشٹرملک کی ایک بڑی اوراہم ریاست ہے۔یہ ملک کی معاشی راجدھانی بھی ہے۔ مہایوتی اورمہاوکاس اگھاڑی کے درمیان ہوئے مہاراشٹرکے اسمبلی انتخابات کے نتائج سبھی کوحیرت میں ڈالنےوالے اورغیر متوقع تھے۔تیرکمان اورگھڑی کے انتخابی نشانات باغی لیڈران کوملنے کی وجہ سے بھی مہايوتی کے اُمیدواروں كوفائدہ ہوا۔روایتی ووٹرجو دیہات اوردوردرازکے علاقوں میں آباد ہیں، وہ  تذبذب کا شکار ہوئے۔آخر کارمہاوکاس اگھاڈی کے امیدوارہارگئے۔لوک سبھا کےالیکشن میں بہترین کارکردگی کے باوجود شرد پوار،اُدھوٹھاکرے اورکانگریس پارٹی کو انتہائی کم سیٹوںپر جیت حاصل ہوئی۔صرف چارماہ کی قلیل مدت میں ووٹرز کے دلوں میں اچانک حکمراں اتحاد کے تئیں محبّت کیسے پیدا ہوگئی ؟جس سے مہاوکاس اگھاڑی کے بڑے بڑے امیدوار شکست کھا گئے۔نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور شیو سینا میں پھوٹ ڈال کر اراکین اسمبلی کی بغاوت سے عوام میں کافی ناراضگی تھی۔اب کی بار غداروں کو ’معافی نہیں‘ کا عوامی رجحان تھامگر اس کا اثر بھی الیکشن کے نتائج پر نہیں نظر آیا۔مراٹھا ریزرویشن تحریک بھی اپنا اثر نہیں دکھا سکی۔ کسانوں کی ناراضگی بھی الیکشن کے نتائج کو متاثر نہیں کر سکی۔  انہی حقائق کی بنیاد پر راج ٹھاکرے  نے اشارہ دیا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کچھ حد تک لاڈلی بہن اسکیم،بس کرایوں میں سہولت، نوجوانوں کو کھیل سے متعلق اسکیم اور مذہبی تقریبات کیلئے دی  جانے والی امدادی رقم نے بھی انتخابات کے نتائج پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
اسماعیل سلیمان (کرہاڈخرد ،پاچورہ ،جلگاؤں)

راج ٹھاکرے کے بیان کا ایک وسیع تر پس منظر ہے


راج ٹھاکرے کا یہ بیان دراصل ملک کے انتخابی عمل اور اس کے نتائج پر عوامی بے اعتمادی اور حیرانی کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ہم  اسمبلی انتخابات کے حالیہ نتائج کو دیکھیں تو کئی نشستوں پر انتہائی قریبی مقابلے دیکھنے میں آئے اور بعض حلقوں میں غیر متوقع نتائج سامنے آئے۔راج  اپنی بے باک سیاست اور سخت مؤقف کیلئے مشہور ہیں۔ ان کا یہ بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کے الفاظ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔یہ بیان اپوزیشن جماعتوں کے ان اعتراضات کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے جو  ’ای وی ایم‘یا دیگر انتخابی طریقہ کار پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ دوسری طرف اگر انتخابی نتائج میں بڑی سیاسی جماعتوں کے اندرونی جوڑ توڑ کا کوئی کردار ہے، تو راج ٹھاکرے کا یہ تبصرہ اس جانب بھی اشارہ کر سکتا ہے۔ بہر حال، انتخابی نتائج پر عوام کا اعتماد برقرار رکھنا جمہوریت کیلئے ضروری ہے۔ اگر واقعی شبہات ہیں تو ان کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے اور اگر صرف حیرانی کی بات ہے تو یہ سیاست میں بدلتے ہوئے رحجانات اور ووٹرز کے رویے کی نشاندہی کرتی ہے۔
راج ٹھاکرے کے اس بیان کو ایک وسیع تر سیاسی پس منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹر کی سیاست ہمیشہ سے پیچیدہ اور غیر متوقع رہی ہے، جہاں مختلف سیاسی جماعتیں وقتی مفادات کے تحت اتحاد اور اختلاف کرتی رہی ہیں۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال نظر آئی، جہاں کئی روایتی سیاسی اندازے غلط ثابت ہوئے، اور کئی مضبوط امیدوار حیران کن طور پر ہار گئے۔ ان کا یہ کہنا کہ’’خود جیتنے والے بھی حیران ہیں‘‘ دراصل انتخابی عمل کی غیر متوقع نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ حیرانی کسی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے یا واقعی کوئی ایسا عنصر شامل ہے جس نے نتائج کو غیر متوقع بنا دیا۔ ان کے اس بیان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی )

انتخابی عمل میں کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے

راج ٹھاکرے نے مہاراشٹر میں ابھی ہوئے اسمبلی انتخابات میں ہار جیت پر اپنی رائے دی ہےجو بالکل  درست معلوم ہوتی ہے ۔ واقعی صورتحال ایسی ہی ہے کہ کئی جیتنے والا خود حیران ہیں کہ وہ کیسے جیت گئے؟ انہوں نےکانگریس کے بالا صاحب تھورات کی مثال بھی پیش کی جو ۷؍ مرتبہ اسمبلی الیکشن میں۷۰؍ سے ۸۰؍ ہزار ووٹوں کے فرق سے جیت چکے ہیں لیکن اس مرتبہ ۲۰؍ ہزار کے فرق سے الیکشن ہارگئے۔اسی طرح راجو پاٹل کے سمبلی انتخاب میں ایک گاؤں ہے جہاں۴۰۰؍ ہیں۔  ان میں سے ایک وووٹ بھی انہیں نہیں ملا، جبکہ اس سے قبل انہیں سارے ووٹ ملتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ گڑ بڑ ہوئی ہے ۔ راج ٹھاکرے یہی کہنا چاہتے ہیں ۔
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف (مہا پولی، بھیونڈی)
راج ٹھاکرے سنجیدہ لیڈر نہیں ہیں

مہاراشٹر کی سیاست میں راج ٹھاکرے ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جو صاف ستھری سیاست کرنے میں نہیں بلکہ شر اور فتنہ پیدا کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ وہ اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز بیان بازیوںمیں مہارت رکھتے ہیں لیکن وہ کبھی گرفت میں نہیں آتے جبکہ ہماری جانب سے کسی نے ذرا سخت لہجے میں بھی بات کرلی تو اسے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام :وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔ ان کو برساتی مینڈک کی طرح الیکشن سے کچھ روز پہلے قصداً میدان میں لایا جاتا ہیں اورانتشار برپا کرنے والی سیاست کا کھیل رچایا جاتا ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ راج ٹھاکرے سنجیدہ لیڈر نہیں ہیں، اسلئے ان کے اس بیان کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔
شاہجہاں محمد وسیم شیخ (طالب علم: گلستان اعلیٰ حضرت ) جگہ کا نام نہیں لکھا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK