• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنبھل کے بعد اجمیر اور پھر بدایوں، ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کے رجحان کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

Updated: December 25, 2024, 4:44 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

سنبھل کے بعد اجمیر اور پھر بدایوں، ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کے رجحان کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

The sole purpose of creating controversy over Sambhal Masjid is to harass Muslims and keep them confused. Photo: INN
سنبھل مسجد پرتنازع پیدا کرنےکا واحد مقصد مسلمانوں کر ہراساں کرنا اور انہیں اُلجھائے رکھنا ہے۔ تصویر: آئی این این

عبادتگاہوں سے متعلق قانون پر عمل ضروری


 آزادی سے پہلے کی عبادتگاہوں کو جوں کا توں برقرار رکھنے کیلئے مرکزی حکومت نے ایک قانون بنایا ہے۔ اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے۔ تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تومسلم حکمرانوں نے طویل عرصے تک ملک عزیز پر حکومت کی ہے۔ مختلف سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی ضروریات کے مطابق نئی عبادت گاہوں کا قیام عمل میں آیا مگر آج صرف مسلم دُشمنی میں مساجد، خانقاہ اورمزارات کو ٹارگیٹ بنایا جارہا ہے۔ اس طرح کی حرکتیں قطعی ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔ افراد کی توانائی اگر مقدمات کی پیروی میں خرچ ہوں گے تو مُلک کی معاشی، سماجی، ثقافتی اور دیگر ترقّی متاثر ہوگی۔ ہر مسجد کے نیچے مندر کی تلاش کا رجحان مُلک عزیز کیلئے سم قاتل ثابت ہو سکتا ہےجس کے اثرات یقینی طور پرملک پر پڑیں گے۔ 
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد، پاچورہ، ضلع جلگاؤں )
حکومت خود ہی قانون مخالف ہے


 بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہی سے مسلمانوں کو ستانے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ مساجد اور درگاہوں کو ہدف بنا کر مسلمانوں کے دلوں میں خوف ڈالا جارہا ہے۔ ہندوتواوادی طاقتیں چاہتی ہیں کہ وقف بورڈ کو اپنے قبضے میں کرلیں۔ ان کا نشانہ وہ مسجدیں ہیں جو برسوں سے ویران پڑی ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں ایک قانون بنایا گیا ہے۔ یہ ایکٹ ہندوستان میں عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کے تحفظ کیلئے پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ اس کا مقصد کسی بھی عبادت گاہ پرکسی طرح کے غاصبانہ قبضے پر پابندی لگانا اور اس کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج قانون ساز اور قانون کے رکھوالے ہی قانون کی مخالفت کررہے ہیں۔ ہمیں چا ہئے کہ ہم مساجد کو زیادہ سے زیادہ آباد کریں۔ 
عاطف عدنان شیخ صادق (شاہو نگر، جلگاؤں )
 یہ مسجدوں کو ویران رکھنے کی سزا ہے


 مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کا مقصد مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے۔ ان کوششوں کے ذریعہ نہ صرف اقلیتوں کی شناخت کو مٹانا ہے بلکہ ہندوتواوادیوں کی ذہن سازی کرنا اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنا بھی ہے۔ عوام کو اسی طرح مختلف مسائل میں الجھاکر حکومت اپنا الو سیدھا کرنے کے فارمولے پر عمل کر رہی ہے۔ ہمیں سبق لینا چاہئے کہ ہم کہیں نہ کہیں قانونی کاروائیوں میں ان سے پیچھے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی بصیرت سے بھی خالی ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ ‘‘دراصل یہ مسجدوں کو ویران رکھنے کی ہماری غفلت کی سزا بھی ہے۔ کاش! ہمیں اب سے ہی قرآن و حدیث کے مطابق جینے کا شعور آجائے۔ 
ذاکر حسین مومن(رفیع الدین فقیہ گرلز ہائی اسکول، بھیونڈی)
یہ ہندوراشٹر کی جانب پیش قدمی ہے


 یہ ہندو راشٹر کی جانب بڑھتے پلان کا حصہ ہے۔ سنگھ پریوار کا خیال ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو، اس کے مقاصد کی تکمیل ہوتی رہنی چاہئے۔ کانگریس کے دور حکومت میں بابری مسجد کی شہادت اس کا واضح ثبوت ہے۔ آج گیان واپی مسجد کے بعد سنبھل کی مسجد اور پھر اجمیر شریف کے درگاہ کا نمبر آگیا۔ اس وقت حکومت کی سبھی جانچ ایجنسیاں، حتیٰ کی ذیلی عدالتیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ بابری مسجد کے وقت ہی آر ایس ایس نے کہہ دیا تھا کہ ہم تمام مساجد کو مندروں میں بدل دیں گے۔ یہ سب اسی پلان کا حصہ ہے۔ ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کا رجحان مسلمانوں کے خلاف بڑی سازش کا حصہ ہے، اسلئے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان مسلکی اختلافات کو بالائے رکھیں اور متحد ہوجائیں۔ 
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کا سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے 


فرقہ واریت آج کے دور میں ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جو نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ سیاسی مفادات کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔ ’ہر مسجد کے نیچے مندر‘ جیسے حساس موضوعات کو جان بوجھ کر عوامی جذبات کو بھڑکانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کر سکیں اور حریفوں کو نقصان پہنچا سکیں۔ اس عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندو مسلم تعلقات مزید کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ تنازع ملک کی سماجی ہم آہنگی اور ترقی پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں ان تنازعات کو ہوا دے کر عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں لوگوں کی توجہ روزگار، تعلیم، صحت اور معیشت جیسے اہم مسائل سے ہٹ جاتی ہے۔ عوام کو فرقہ وارانہ معاملات میں الجھا کر ان کی حمایت حاصل کی جاتی ہے، جس سے نہ صرف سماجی تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ترقی کی راہیں بھی مسدود ہو جاتی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اور عوامی لیڈر اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں اور فرقہ وارانہ تنازعات کو سیاست سے بالاتر ہو کر دیکھیں۔ مسائل کو آئینی اور قانونی بنیادوں پر پرامن طریقے سے حل کرنا ضروری ہے۔ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور فرقہ وارانہ تنازعات میں الجھنے کے بجائے اپنی توجہ ان مسائل پر مرکوز کرنی ہوگی جو اُن کی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، جیسے تعلیم، صحت اور روزگار۔ خاص طور پر نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ افواہوں سے بچیں اور اپنی توانائیاں مثبت کاموں میں لگائیں۔ اگر ہم سب مل کر فرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے کام کریں تو ایک پرامن، ترقی یافتہ اور خوشحال معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ 
 سید خوش ناز جعفر حسین (انجمن اسلام ہائی اسکول، سی ایس ٹی، ممبئی)
تاریخ کے کٹہرے میں احتساب بھی ہے اور انصاف بھی
 جس ملک، جس معاشرے اور جس طبقے سےعدل و انصاف مفقود ہوجائے، اس کی ترقی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ جس ملک کے آئین کو تشکیل دینے میں ۲۹۹؍ افراد کو۲؍ سال، ۱۱؍ ماہ۱۸؍ دن لگے، آج اسی آئین کی روح کو پاش پاش کرنے میں ’منصف‘کو چند منٹ لگتے ہیں۔ جمہوریت کے تیسرے ستون کی باگ ڈور سنبھالنے والے قانون کے رکھوالوں سے سوال ہے کہ کیا آپ کا ضمیر نہیں کانپتا، کسی جھوٹی دلیل کو سچ مان کر، اپنے اندر کی آواز کو دبا کر، کانسٹی ٹیوٹ اسمبلی کے۲۹۹؍ افراد کی روح کو اذیت پہنچا کر اور آئین کی بنیادی ساخت کو زخمی کر کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ۹؍ نومبر۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ نے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا تھاتو اُس وقت۱۹۹۱ء کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ کو مد نظر رکھا گیا تھا کہ بابری مسجد کے بعد ملک کی کسی بھی عبادتگاہ کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ اس قانون کے مطابق ملک کی تمام عبادتگاہیں، آزادی کے وقت سے جس حال میں ہیں، اسی حال میں رہیں گی، لیکن ملک کی نچلی عدالتوں نے عدالت عظمیٰ کی اس بات کا پاس نہیں رکھا اور چند مہینے کے بعد ہی متھرا کی شاہی عیدگاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجد پر اپنی من مانی شروع کردی، اور اب سنبھل، بدایوں، اجمیر شریف کی درگاہ پر نچلی عدالتیں اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہیں، جمہوریت کا گلا گھونٹنے کا کام کر رہی ہیں۔ 
  وطن عزیز کے منصفوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی۔ کس معاملے میں کون کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ سب تاریخ میں یاد رکھا جاتا ہے کیونکہ تاریخ کے کٹہرے میں احتساب بھی ہے اور انصاف بھی، جزا بھی ہے اور سزا بھی۔ جس ملک اور جس قوم میں انصاف کے ترازو میں ایک پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا ہے، جہاں اقلیتی طبقے پر اکثریتی طبقے کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہمیشہ اکثریتی طبقے ہی کی بات سنی جاتی ہے، ان ملکوں اور ان قوموں کی تباہی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ 
شگوفہ خان اعظمی( علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)
یہ حرکتیں جمہوری نظام پر گہرا سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہیں 
  ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کا رجحان دراصل ایک منظم سازش اور فرقہ وارانہ ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں، کو کمزور کرنا اور ملک کے سیکولر ڈھانچے کو نقصان پہنچانا ہے۔ بابری مسجد کے سانحے کے بعد گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ، سنبھل کی جامع مسجد، خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے آستانے اور اب ڈھائی دن کے جھونپڑے پر تنازع کھڑا کرنا، یہ سب اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ انتہا پسند تنظیمیں ملک کو’ہندو راشٹر‘ بنانے کے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہیں۔ ان شرانگیزیوں میں مرکزی اور صوبائی زعفرانی حکومتوں کا خاموش یا بالواسطہ تعاون بھی شامل نظر آتا ہے۔ ان معاملات میں تاریخی شواہد اور عدالتی اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اقلیتوں کے مذہبی تشخص کو مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جو ملک کے جمہوری نظام پر بھی گہرا سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہیں۔ 
  حالات کا تقاضا ہے کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے موجودہ قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے، عوام کو تاریخی حقائق اور ان سازشوں کے نتائج سے آگاہ کیا جائے اور مختلف مذاہب کے قائدین باہمی اتحاد کے ذریعے فرقہ وارانہ سیاست کا مقابلہ کریں۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کی جمہوری اور ثقافتی بقا کا بھی ہے، جسے محفوظ رکھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ 
عبید انصاری ہدوی (غوری پاڑہ، بھیونڈی)
 مذہبی اختلافات کو بڑھانے کیلئے یہ سب کیا جارہا ہے
 مساجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کا رجحان دراصل مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کرنا ہے۔ یہ طرز عمل ان عناصر کی جانب سےاختیار کیا جارہا ہے جو تاریخ کو مذہبی اختلافات کو بڑھاوا دینے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخی طور پر، ہندوستان جیسے کثیرالمذاہب سماج میں کئی مقامات پرمختلف مذاہب کے آثار پائے گئے ہیں۔ یہ امر فطری تھا کیونکہ وقت کے ساتھ عبادت گاہیں بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ تاہم، ان تاریخی تبدیلیوں کو موجودہ دور میں مذہبی یا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرکےنئے مسائل کو جنم دیا جارہا ہے۔ یہ رجحان سیاست کے میدان میں بھی استعمال ہوتا ہے جہاں کچھ طاقتیں عوام کے جذبات کو بھڑکا کر اپنی مقبولیت اور اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس طرح کے تنازعات کو ہوا دینا صرف وقتی سیاسی فائدے کیلئے کیا جاتا ہے لیکن اس کے نتائج دور رس اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس عمل سے اقلیتوں میں خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے جو کسی بھی جمہوری سماج کیلئے نقصان دہ ہے۔ 
 ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تاریخ کو ایک تعلیمی اور تحقیقی نقطہ نظر سے دیکھیں، نہ کہ ایک ہتھیار کے طور پر۔ مذہبی ہم آہنگی اور معاشرتی اتحاد کو مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ حکومت، دانشوران ملک اور عوام کو مل کر اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ تاریخی ورثے کو تنازع کا ذریعہ بنانے کے بجائے امن و امان اور تعلیم کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے۔ 
 حکیم نسیم احمد نظامی (رامپورہ، سورت، گجرات)
نفرت پیدا کرکے سیاسی فائدہ اٹھایا جارہا ہے


 یہ رجحان زیادہ تر ایک مخصوص سیاسی جماعت نے اپنےمفاد کیلئےپیدا کیا ہے تاکہ مذہبی جذبات کو ابھار کر وہ ووٹ بینک کی سیاست کرسکے اوراقتدارپراپنی گرفت کو مضبوط کرسکے۔ مذہبی طور پر وطن عزیز کے لوگ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہیں، اس کمزوری کو سیاستدانوں نے اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے اور وہ اس کا بھر پور فائدہ اٹھا ر ہے ہیں۔ بابری مسجد کے بعد گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگااور اب سنبھل کی جامع مسجد۔ یہ سارے واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ایک منظم مہم کا حصہ ہے۔ بہت ممکن ہے کہ برصغیر میں مختلف ادوار میں عبادت گاہیں تبدیل ہوئی ہوں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر مسجد کے نیچے مندر موجود ہے۔ اس کا استعمال مذہبی اور سیاسی پروپیگنڈے کیلئے کیا جا رہا ہےتاکہ عوام کے درمیان نفرت پیدا کرکے سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ایسے دعوے نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ملک کی سیکولر شناخت کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ عدلیہ کا کردار ان معاملات میں بہت اہم ہے، لیکن افسوس کی بات ہے بعض اوقات عدالتی فیصلے بھی عوامی جذبات کے دباؤ میں آتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ رجحان ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔ ایسے اقدامات نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ 
 مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کا رجحان آر ایس ایس کے پرانے ایجنڈے کا حصہ ہے، جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے شدت اختیار کر چکا ہے۔ یہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے جو بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے استعمال کی جا رہی ہے۔ اس رجحان کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام طبقات سماجی انصاف کیلئے مل جل کر کام کریں۔ 
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (صمدیہ ہائی اسکول و جو نئیر کالج بھیونڈی)
 یہ رجحان ملک کے آئین کے خلاف ہے


 مساجد کے نیچے مندروں کی تلاش کا رجحان نہایت خطرناک اور ملک کی سالمیت کیلئے بہت نقصاندہ ہے۔ ملک میں آئین کی بالادستی کے برعکس آمریت کا زور دیکھا جا رہا ہے، ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری سے توجہ ہٹانے کیلئے فسطائیت پر مبنی ایشوز کو ابھار کر عوام کی توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ افسوس کہ اکثریتی طبقے کی ایک بڑی تعداد اس کو نہیں سمجھ پارہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں اس کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔ سنبھل کی جامع مسجد میں پہلے روز سروے کے وقت مسجد کمیٹی نے مکمل تعاون کیا تھا۔ دوسری مرتبہ سروے ٹیم کے ساتھ آنے والوں نے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے اشتعال انگیز نعرے لگائے اور حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ ہمارےسامنے ہے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد زمین ملکیت معاملے میں مذہبی مقامات کے۱۹۴۷ءسے پہلے کی حالت میں برقرار رکھنے پر زور دیا تھا لیکن خود اس فیصلے کے خلاف گزشتہ سال سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد میں سروے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے نے قدیم مساجد میں مندر تلاش کرنے کا ایک دروازہ کھول دیا۔ سنبھل مسجد کے واقعہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کیلئے عدلیہ ہی ذمہ دار ہے۔ اگر مذہبی مقامات کے قانون کی پیروی کی جاتی تو آج یہ حالات پیدا نہیں ہوتے۔ قانون نے اقلیتوں کیلئے جو ضمانتیں فراہم کی ہیں، ان پر نیک نیتی سے عمل کیا جانا چاہئے۔ 
 سپریم کورٹ کو چاہئے کہ سنبھل معاملے پر از خود نوٹس لے اور عدالت کی نگرانی میں غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کراکر تشدد کے متاثرین کو انصاف دلائےاور مہلوکین کے لواحقین کومناسب معاوضہ بھی دلائے۔ 
غلام جیلانی( دارالعلوم قمر علی درویش، کیمپ، پونے)

قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔   اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔  کچھ ہفتوں سے قارئین کیلئے ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں ہر ہفتے ایک موضوع دیا جارہا ہے۔ اس موضوع پر موصول ہونے والی آپ کی تحریریں ( آپ کی  تصویر کے ساتھ) سنڈے میگزین میں شائع کی جارہی ہیں:
اس ہفتے کا عنوان
گزشتہ دنوں مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے توپتہ چلا کہ ’ایم وی اے‘ کا بہت برا حال ہے۔ کانگریس چونکہ قومی پارٹی ہے،اسلئے اس کا زیادہ مسئلہ نہیں لیکن شرد پوار اور ادھو کی سیاست پر ضرور انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔  ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ :
این سی پی (شرد پوار ) اور شیوسینا (اُدھو ٹھاکرے) کا مستقبل آپ کی نظر میں کیا ہے؟
 اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۱۵؍ دسمبر) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو۔ بقیہ آرا منگل کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK