• Mon, 21 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنڈے اسپیشل :ریلوے کے ٹکٹوں کی کالابازاری عام ہے، حکومت کو اس پرقابو پانے کیلئے راستہ نکالنا چاہئے

Updated: October 20, 2024, 4:35 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

In today`s history getting a reservation ticket for long distance trains from the ticket window is a gamble. Photo: INN
آج کی تاریخ میں ٹکٹ ونڈو سے طویل مسافتی ٹرینوں کیلئے ریزرویشن ٹکٹ حاصل کرنا جوئے شیرلانے کے مصداق ہے۔ تصویر : آئی این این

دعوے بہت کئے جاتے ہیں مگر عام مسافر کنفرم ٹکٹ سے محروم ہوتے ہیں 


سب سے زیادہ مسافریوپی اوربہار کے ہیں لیکن ان کیلئے اتنی ٹرینیں نہیں ہیں جتنی دہلی، گوا، گجرات اور راجستھان کیلئے ہیں۔ یوپی اور بہار کے مسافروں کے پاس کوئی اور متبادل بھی نہیں ہے، اسلئے وہ مجبوراً ٹکٹ سےکئی گنا زیادہ رقم دے کر بھی بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ اِس وقت اے سی تھری ٹائر اور سلیپر کی حالت دیکھ لیجئے.... سلیپر چالو ہوگیا ہے اور اےسی تھری ٹائر، سلیپر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ 
 ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ اگر عام مسافر ٹکٹ نہیں حاصل کر پا رہا ہے توپھر دلال کس طرح اور زائد رقم لے کر کہاں سے کنفرم ٹکٹ دلا رہے ہیں ؟ مطلب کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ اس میں ریلوے انتظامیہ کی ملی بھگت سے بھی انکار نہیں کیاجا سکتا۔ اگر واقعی سارے ٹکٹ بُک ہوچکے ہوں اور گاڑی فل ہو گئی ہو تو پھر دلالوں کو بھی کنفرم ٹکٹ نہیں ملنا چاہئے۔ مگر ایسانہیں ہے۔ 
  گزشتہ سال دسمبر میں کرسمس کے وقت میں پونے اسٹیشن پر لوکمانیہ تلک سے کشن گنج جانے کیلئے ریگولر بکنگ پرچار ماہ قبل ٹکٹ بک کرنے کیلئے گیا تھا۔ میں چوتھے نمبر پر ٹکٹ کیلئے کھڑا ہوگیا، جوں ہی میرا نمبر آیا ٹکٹ ماسٹر نے کہا کہ’’ سر! ری گریٹ ہو گیا۔ ‘‘لیکن مجھے حیرانی اُس وقت ہوئی جب ۲؍ ہزار روپے اضافی رقم پر اسی تاریخ کا کنفرم ٹکٹ ایک ایجنٹ دینے کا وعدہ کرنے لگا۔ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایجنٹ اور ٹکٹ ماسٹروں کے مابین کیسی ڈیل ہوتی ہوگی۔ یہ تو میرا ذاتی مشاہدہ ہے، نہ جانے کتنے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہوگا؟ریلوے انتظامیہ کو اس پر غور کرنا چاہئے تاکہ عام مسافر آسانی کے ساتھ کنفرم ٹکٹ حاصل کر سکیں۔ 
غلام جیلانی( دارالعلوم قمر علی درویش کیمپ پونے)
دلال موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں 


 ریل ٹکٹوں کی کالابازاری کا مسئلہ ہندوستان میں ایک عرصے سے موجود ہے۔ کالابازاری اس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں ٹکٹوں کو غیر قانونی طریقے سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ عوام کو اکثر اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر تہواروں، چھٹیوں یا کسی خاص موقعے پر جب ریل میں سفر کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ عوام کو بروقت اور سستی ٹکٹیں نہیں مل پاتیں اور کالابازاری کرنے والے دلال موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ٹکٹوں کو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ 
  اس عمل کی وجہ سے نہ صرف عام لوگ متاثر ہوتے ہیں بلکہ حکومت کی ساکھ اور ریلوے کی کارکردگی پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی ایک بار اس قسم کی صورت حال پیش آچکی ہے۔ چند سال پہلے عید کے موقع پر مجھے سورت سے گورکھپور مہاراج گنج سفر کرنا تھا لیکن تمام ٹکٹیں فروخت ہو چکی تھیں۔ بہت کوشش کے بعد بھی مجھے سرکاری ذرائع سے ٹکٹ نہیں ملا۔ اس کے بعد ایک شخص نے مجھ سے رابطہ کیا اور میری مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس نے ٹکٹ کی قیمت دُگنی سے بھی زیادہ وصول کی۔ اس تجربے کے بعد ہی مجھے احساس ہوا کہ کالا بازاری کا مسئلہ کس حد تک عوام کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت اور ریلوے حکام کو چاہئے کہ وہ ٹکٹوں کی فروخت کے عمل کو شفاف اور موثر بنائیں۔ آن لائن ٹکٹنگ سسٹم کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ عوام کو آسانی سے ٹکٹ مل سکے اور کالابازاری کی حوصلہ شکنی ہو۔ ساتھ ہی، ٹکٹوں کی غیر قانونی فروخت میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی بھی کی جائے تاکہ اس غیر قانونی عمل کا خاتمہ ممکن ہو۔ 
 حکیم نسیم احمد نظامی (رامپورہ، سورت، گجرات)
ریلوے کے ٹکٹ، ہوائی جہاز کے ٹکٹ کے برابر ہوجاتے ہیں 


 ریلوے کے ذریعہ اپنے وطن جانے والے مسافر ۶؍ ماہ پہلے ہی سے پلا ننگ کرتے ہیں تا کہ انہیں سفر میں کسی طرح کی پریشانی نہ اٹھانی پڑے مگرٹکٹ کی کالابازاری کرنےوالے ا یجنٹوں کی وجہ سے سفر مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ حکومت اور ریلوے انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ مسافروں کی ان پریشانیوں کو دور کریں۔ صورتحال یہ ہے کہ بلیک سے خریدے گئےریلوے کے ٹکٹ ہوائی جہاز کے برابر ہوجاتے ہیں۔ 
شیخ عبدا لموحد عبدالرؤف(مہاپولی، بھیونڈی)
 ملک میں ذرائع نقل و حمل کا نظام نا کافی اور غیرمنظم ہے


 اس وقت ہمارا ملک سب سے زیادہ آبادی والاملک ہے جس میں متوسط طبقہ اور کم آمدنی‌‌ پر گزر بسر کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہمارے یہاں آبادی کے‌لحاظ سے ذرائع نقل و حمل کا نظام نا کافی اور غیرمنظم ہے۔ اس کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ یا کم‌آمدنی‌‌ والا ہوتا ہے۔ اس میں ٹکٹوں کی کالا بازاری کا بڑا دخل ہے۔ جس روٹ کے مسافر زیادہ ہیں اس پر ٹرینیں خاطر خواہ نہیں چلائی جاتی ہیں۔ جنرل کوٹے کی ٹکٹوں کی تعداد بہت کم ہے، حکومت انھیں محفوط کرکے تتکال کی صورت مہنگے داموں میں بیچتی ہے۔ اسی طرح ایجنٹ ریلوے اہلکاروں سے ساز باز کرکے ٹکٹ خرید کر مہنگے داموں میں بیچتے ہیں جس سے عام آدمی کو ٹکٹ ملنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو ہر طبقے کی آمدنی اور روٹ پر مطلوبہ تعداد کو سامنے رکھ کر لا ئحہ عمل بنانا چاہئے۔ 
  ریلوے کے سامنے ایک مسئلہ یہ ہے کہ چھٹیوں کے دنوں میں ایک ہی وقت میں بڑی تعداد میں لوگ سفر کرتے ہیں، ایسی صورت میں ذرائع کم پڑ جاتے ہیں۔ بہر حال یہ ایک چکر ہے جس سے نکلنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ان سب مسائل سے نجات پانے کیلئے میں روٹ بدل کر دو مرحلوں میں سفر کرتا ہوں۔ 
سعید الرحمان محمد رفیق(گرین پارک، شیل، تھانے)
 کالابازاری اتنی ہے کہ اب تتکال سے بھی ٹکٹ لینا دشوار ہے


 ’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘اِس نعرے نے مُلک کو رشوت اور کالا بازاری کے دلدل میں جتنی تیزی سے دھکیلا ہے، اُس کی نظیر پہلے کبھی نہیں ملتی۔ کوئی بھی قانونی کام ہو، وہ رشوت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتا۔ رشوت اور کالا بازاری کے بغیر آپ ٹکٹ حاصل نہیں کرسکتے۔ سرمائی تعطیلات میں ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے تین ماہ پہلے بھی کوشش کریں تو بھی ’ویٹنگ‘ ملتا ہے، مجبوراً سفر کرنے والوں کو دگنی قیمت میں تتکال کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اب تو تتکال سے بھی ٹکٹ لینا بہت دشوار ہو چکا ہے۔ ایسے میں سفر کرنے والے مجبوری میں ٹکٹ کے دلالوں کا سہارا لیتے ہیں۔ سرکار سے اپیل ہے کہ وہ ٹکٹوں کی اِس کالا بازاری پر قابو پائے اور عوام کو راحت کا سامان مہیا کرائے۔ 
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
اس میں عوام کا بھی نقصان ہے اور سرکار کا بھی نقصان ہے


 ریلوے میں ٹکٹوں کی کالا بازاری سے عوام کا بھی نقصان ہوتا ہے اور سرکار کا بھی۔ مثال کے طور پر کالا بازاری کرنے والے ٹکٹوں کو بڑھی ہوئی قیمتوں پر بیچتے ہیں، اس طرح وہ مجبور مسافروں کو لُوٹتے ہیں۔ کالا بازاری چونکہ غیر قانونی ہے، اسلئے اس کی وجہ سے منظم جرائم کو فروغ ملتا ہے۔ کالا بازاری کرنے والے ٹکٹوں کا ذخیرہ کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے پہلے سے کوشش کرنےوالے مسافروں کو ٹکٹ نہیں مل پاتے۔ ریلوے کو ریونیو کا بھی نقصان ہوتا ہے کیونکہ کالا بازاری کرنے والے سرکاری نظام سے باہر رہ کر کام کرتے ہیں ... اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام کا حکومت پر اعتماد ختم یا کم ہوجاتا ہے۔ 
  اسلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹکٹوں کی اس کالابازاری کی جانب توجہ دے اورعوام کو ٹھوس راحت پہنچانے اور ان کے سفر کو آسان کرنے کا انتظام کرے۔ 
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل (باندرہ)
یوپی اور بہار کے روٹ پر ٹرینیں بڑھانا وقت کا تقاضا ہے


 عام طور پرہمارے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ کچھ دیئے لئے بغیر کوئی کام نہیں بنتا۔ اس کی وجہ سے جب چاہئے جہاں چاہئے لین دین (رشوت) کاحربہ استعمال کرکے کام کرائے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی منصوبہ بندی اور اصول کے تحت کام کرناچاہئے اُس کو بھی ’لئے دیئے بغیر‘ کوئی بھی کا م نہ ہونے کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ ریل کے ٹکٹوں کی خریداری کا بھی یہی معاملہ ہے۔ پانچ چھ ماہ قبل بُک کئے ہوئے ٹکٹ بھی کنفرم ہونے سے رہ جاتے ہیں اور دلال یا ایجنٹ کی مدد سے فوری طور پر کنفرم ٹکٹ مل جاتے ہیں جس کیلئے قیمت کئی گنا ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایسا اسلئے ہوتا ہے کیونکہ ریل انتظامیہ بھی اس میں ملوث ہوتا ہے۔ 
  اگر دلالوں اور ایجنٹوں سے اس بارے میں کچھ کہا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی روپے کمانے ہوتے ہیں۔ دیوالی اور گرمی کی چھٹیاں ہماری کمائی کے سیزن ہیں۔ ہم سیزن میں نہیں کما ئیں گے تو کب کما ئیں گے؟ایجنٹ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی مسافر سے اگر ہم ایک ٹکٹ پردو ڈھائی ہزار یا تین ہزارروپے زائدلیتے ہیں تو اس میں سے ہمیں بمشکل ۵۰۰؍ یا ۷۰۰؍ ملتے ہیں بقیہ رقم ریلوے، بکنگ کرنے والے اورآر پی ایف والوں میں تقسیم کرنی ہوتی ہے۔ اگر حکومت کو عام آدمیوں کو پریشانیوں سے بچانا ہے تو اسے چاہئے کہ مسافروں کے حساب سے ریل گاڑیاں بڑھائے اور چلائے۔ اسی طرح دیوالی یا گرمیوں میں اسپیشل ٹرینیں چلانے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کا مسئلہ یوپی اور بہار کے مسافروں کیلئے زیادہ ہے، اسلئے اس روٹ پرزیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
ش۔ شکیل (اورنگ آباد، مہاراشٹر)
 اس کاکوئی مستقل حل نکالا جانا چاہئے


 ٹکٹوں کی کالا بازاری عام ہے، یہ درست ہے۔ برسوں سے یہ کاروبار چل رہا ہے۔ اگر سرکار ان دلالوں پر پابندی لگانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ نئے راستے نکال لیتے ہیں۔ بالکل وہی بات ہے کہ تو ڈال ڈال تو میں پات پات۔ ان ٹکٹ دلالوں کا بینک بیلنس بڑھتا جاتا ہے اور عام مسافروں کی جیبیں ہلکی ہوتی جاتی ہیں۔ دوران ملازمت ہم نے قریبی ریزرویشن ٹکٹ ونڈو پر بارہا دیکھا ہے کہ عام مسافر ایڈوانس ٹکٹ لینے کیلئے لائن لگاتے ہیں لیکن ان سے پہلے وہاں دلال موجود ہوتے ہیں۔ عام مسافروں میں سے ایک دو کو ہی ٹکٹ مل پاتا ہے کہ اعلان کردیا جاتا ہے کہ ٹکٹ ختم ہوگئے۔ اسی دوران دلال اور ایجنٹ دوسرے ذرائع سے ٹکٹ حاصل کرکے اسے بھاری قیمت پر فروخت کرتے ہیں اور مسافروں کو لوٹنے کا کام کرتے ہیں۔ 
 کسی ضرورت کے تحت طویل مسافت کرنے والے مسافران دلالوں سے دگنے چوگنے داموں میں ٹکٹ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ’کوٹے‘ سے ٹکٹوں کے حصول میں کچھ آسانیاں ہوتی ہیں لیک ان ’کوٹوں ‘ کے بارے میں بھی دلال ہی زیادہ جانتے ہیں۔ اس طرح کی ساری بکنگ کلرک، آر پی ایف اور ریلوے کے دیگر افسران کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ آن لائن بھی ٹکٹ بک کرنے کی سہولت ہے لیکن وہاں بھی کچھ اسی طرح کا کھیل چلتا ہے۔ جیسے ہی ٹکٹ بک کرنے کی ونڈو کھلتی ہے، دوچار منٹ ہی میں ٹکٹ فل ہو جانے کا میسیج آجاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب تک عام لوگ اپنا کمپیوٹر یا موبائل آن لائن ٹکٹ ونڈو سے کنیکٹ کرپاتے ہیں، تب تک دلال ساری ٹکٹیں بک کرلیتے ہیں۔ اس ’نظام‘ میں بھی بڑے پیمانے پر ملی بھگت ہوتی ہے۔ 
 آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ اس کالا بازاری سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے کوئی مستقل حل نکالا جانا چاہئے تاکہ مسافروں کو آسانی ہو۔ 
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
طویل مسافتی ٹرینوں کیلئے ٹکٹوں کے حصول میں آسانی ہونی چاہئے


 سفر کرنے اور وہ بھی لمبے فاصلے ( طویل مسافت ) کیلئے ریلوے سب سے اچھا اور بہترین ذریعہ ہے۔ باوجود اس کے ہمارا ریلوے اپنے ناقص نظام کی وجہ سے اکثر سرخیوں میں رہا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں درجنوں ٹرین حادثے ہوئے ہیں جس میں سیکڑوں انسانی جانوں کا اتلاف ہوا ہے۔ ٹرین کا سفر اور اس کیلئے ٹکٹوں کی حصولیابی خصوصی طور سے گرمی اور دیوالی کی چھٹیوں میں کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان ایام میں اس کی کالا بازاری عروج پر ہوتی ہے۔ سماج کے غریب اور درمیانہ طبقے کے افراد مہینوں انتظار کے بعد بھی ٹکٹ حاصل نہیں کرپاتے جبکہ روپے پیسے والے کم وقت میں ایجنٹ اور دلالوں کے ذریعے بھاری رقم دے کر ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ دارالحکومت دہلی سمیت ملک بھر میں لاکھوں دلال اور ایجنٹ ایک مخصوص سافٹ ویئر کی مدد سے تھوڑی دیر میں ہزاروں اور لاکھوں کما لیتے ہیں۔ ان میں فریب دہی بھی عام ہے۔ حال ہی بلاس پور، مروا، کوربا، چانبا اور ملک کے دیگر علاقوں سے ۱۳؍ دلالوں اور ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن کے پاس سے۲۷۹؍ ٹکٹ اور تقریباً۳؍ لاکھ روپے ضبط کئے گئے تھے۔ ٹکٹوں کی یہ کالابازاری ریلوے اسٹاف سے ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے۔ ایسے میں ’’ریلوے ایک قومی اثاثہ ہے لہٰذا بغیر ٹکٹ سفر نہ کریں ‘‘جیسا ریلوے کا پیغام بے معنی ہوجاتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ٹکٹوں کے حصول میںآسانی پیدا کرے۔ 
انصاری محمد صادق( کلیان)

 قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔   اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔  کچھ ہفتوں سے قارئین کیلئے ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں ہر ہفتے ایک موضوع دیا جارہا ہے۔ اس موضوع پر موصول ہونے والی آپ کی تحریریں ( آپ کی  تصویر کے ساتھ) سنڈے میگزین میں شائع کی جارہی ہیں:
اس ہفتے کا عنوان
 سرسیداحمدخان کو دنیا سے رخصت ہوئے ۱۲۶؍ سال ہوگئے۔ تعلیم کے محاذ پراُن کی خدمات کی ایک دنیا قائل ہے۔ ابھی حال ہی میں ان کے یوم ولادت کے موقع پر ہم نے انہیں ایک بار پھر یاد کیا ... ایسے میں سوال یہ ہے کہ: 
سرسیداحمد خان کی فکر کو سمجھنے میں ہم کتنا کامیاب ہوئے؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں انشاء اللہ اتوار (۲۷؍اکتوبر) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK