Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

قاری نامہ: بچپن کی عید، کچھ یادیں، کچھ باتیں

Updated: March 30, 2025, 2:40 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

Eid is for children. They wear new clothes and shoes and go around the neighborhood collecting Eid gifts. Photo: INN.
عید تو بچوں ہی کی ہوتی ہے۔ نئے کپڑے اور جوتے پہن کر محلے بھر میں دندناتے پھرتے ہیں اور عیدی جمع کرتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

عید پر ہندو مسلم اتحاد قابل دید تھا


بچپن میں گاؤں میں عید منائی ہے۔ عیدگاہ غیرمسلم آبادی میں تھی، غیر مسلم برادران وطن چوراہے پر وضو اور پینے کے پانی کا نظم کرتے تھے۔ عیدگاہ کے اطراف بہت سی دکانیں لگتی تھیں۔ ہم عیدی کے پیسے انہی دکانوں پر خرچ کرتے تھے۔ نماز کے بعد گاؤں کی سرکردہ شخصیات مثلاً سرپنچ اور پولیس پاٹل کے گھر پر مسلم ذمہ داران کا استقبال ہوتا۔ سبھی ایک دوسرے سے گلے ملتے اور پان وغیرہ کھاتے تھے۔ گھرآ کر شیرخرما پہلے پڑوسیوں کو دیتے جن میں ہندو مسلمان سب شامل تھے۔ عید کے دن فلم دیکھنے جانا بہت بڑی تفریح سمجھی جاتی تھی جس ساتھی کے پاس زیادہ عیدی جمع ہوتی وہ بالکنی کا ٹکٹ لیتا اور دوستوں پراپنی ’’امیری‘‘ کا رعب جماتا۔ کسی سال دوستوں کےساتھ کھیتوں میں پارٹی کا اہتمام کیا جاتا۔ پارٹی کا خرچ کم کرنے کیلئے گھر سے سالن روٹی لے جاتے تھے۔ عیدالفطر کے کپڑے دھو کر رکھ دیئے جاتے تھے تاکہ انہیں عیدالاضحی میں بھی پہنا جاسکے۔ 
اسماعیل سلیمان، کرہاڈ، جلگاؤں 
پہاڑی علاقے کی عید گاہ


عید کا چاند نظر آتے ہی ہر طرف خوشیوں کا ماحول ہوتا تھا۔ رات دیر تک تیاری جاری رہتی اور صبح فجر سے پہلے اٹھ کر عید گاہ جانے کی جلدی رہتی تھی۔ سبھی بہن بھائی ساتھ جاتے اور کھانے کی چیزیں لےکر ایک طرف بیٹھ جاتے اور پھر ان سے لطف اندوز ہوتے۔ نمازی، نماز کیلئے صفوں میں بیٹھتے۔ چونکہ عید گاہ گاؤں کے باہر پہاڑی علاقے میں تھی اسلئے اطراف کا جائزہ لینے میں بڑا لطف آتا تھا۔ پھر نماز کے بعد گھروں کی طرف روانگی شروع ہوتی۔ راستے میں آنے والے ہر شخص سے مصافحہ کرنا یاد آتا ہے۔ پھر رشتہ داروں اور عزیزوں سے ملاقات کیلئے جاتے، یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہتا۔ 
محمد اقبال، جلگاؤں 
۲۹؍ ویں روزے پر عید کے چاند کی خواہش
۲۹؍ ویں روزے کو بڑی خواہش ہوتی کہ چاند نظر آجائے۔ نماز کے بعد میلہ جانے، کھلونے اور طرح طرح کی چیزیں خریدنے کی بے انتہا خوشی ہوتی تھی۔ پھر دوستوں کے ساتھ کھیلنا کودنا، گلے ملنا اورعید کی مبارکباد دینا، ایک خوشنما یاد بن کر رہ گئی ہے۔ 
مولانا نظیف عالم صدیقی قاسمی، بیلاپور، نوی ممبئی
نئے کپڑوں اور جوتوں کی خوشی


عید الفطر پر والدین اور رشتہ داروں سے عیدی ملنے کی خوشی زندگی بھر یاد رہے گی۔ تمام رشتہ داروں کے گھر جانا، عید کی مبارکباد پیش کرکے شیر خرما پینا اور نئے کپڑوں اور جوتوں پر فخر محسوس کرنا اب بھی یاد آتا ہے۔ 
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف، مہا پولی، بھیونڈی
عیدی ڈبے میں جمع کرنا
عید کے دِن نئے کپڑے پہننے کیلئے بے چین رہتے تھے۔ جس عمارت میں ہم رہتے تھے اُس کے تیسرے منزلے پر ایک آغاخانی فیملی رہتی تھی۔ اُن کی دونوں بیٹیوں حسینہ اور امینہ مجھے اور میرے بھائی کو بیٹوں کی طرح رکھتی تھیں۔ اُن کی والدہ کو ہم چاچی ماں کہتے تھے۔ دونوں غیر شادی شدہ تھیں اور ہم بھائیوں سے بہت محبت کرتی تھیں لہٰذا نماز عید الفطر کے بعد اپنے نئے کپڑے اُن دونوں بہنوں کے پاس لے جاتے۔ امینہ مجھے اور حسینہ میرے بھائی محمود کو نئے کپڑے پہناتی۔ پھر ہم عیدی جمع کرنے کیلئے رشتہ داروں کے ہاں جاتے تھے۔ اُس زمانے میں ہم دونوں بھائیوں کو بطور عیدی ایک روپیہ کا سکہ دیا جاتا تھا۔ دوپہر تک ہم عیدی جمع کرتے۔ اور پھر انہیں غلک میں ڈال دیتے تھے۔ ان پیسوں کا استعمال بوقت ضرورت ہوتا تھا۔ 
پرنسپل( ڈاکٹر) محمد سہیل لوکھنڈوالا، ممبئی
دادا جان کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جانا


بچپن میں عید کی خریداری کے وقت بازاروں میں بھیڑ نہیں ہوتی تھی۔ ہم عمر ساتھیوں کو شوق سے کپڑے دکھانا، مہندی کیلئے بچیوں کا باجی کے آگے پیچھے دوڑنا، گھر کی خواتین کا سوئیاں بنانا اور ہمارا سوئیوں کی رکھوالی کرنا جیسی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اب کہاں۔ عید گاہ کی طرف دادا جان کی انگلی پکڑ کر پیدل جانا اور نماز بعد سبھی کو مبارکباد پیش کرنا کبھی نہیں بھول سکتا۔ آس پڑوس میں مختلف پکوانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں پھیلی ہوتی تھیں۔ 
محمد ضیاء معاون معلم الحراء اردو اسکول، بھساول
والدین کا ہماری سہیلیوں کو بھی عیدی دینا 


ماں باپ بھائی بہنوں کے ساتھ عید کا لطف دوبالا ہوجاتا تھا۔ ہر ایک کو عید کی تیاری میں مصروف دیکھا ہے۔ سحری کے ساتھ ہی خریداری، کپڑے سلنا، پریس کرنا پھر افطاری کی تیاری۔ عید پر والد ین ہمارے ساتھ ہماری سہیلیوں کو بھی عیدی اور دعائیں دیتے۔ اب عید اپنے بچوں کے ساتھ گھر ہی پر گزرتی ہے اور پورا دن اپنے رشتہ داروں سے ملنے میں نکل جاتا ہے۔ عید کب ختم ہو جاتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ لیکن رشتہ داروں سے ملنے جلنے میں جو لطف ہے، وہ کسی اور چیز میں کہاں۔ 
شاہدہ وارثیہ، وسئی ویسٹ 
سب سے زیادہ عیدی ملنے کی خوشی


بچپن کی عید کا موازنہ کسی بھی قسم کی خوشی سے نہیں کیا جاسکتا۔ رمضان کے آخری دس دن تو اسی ادھیڑ بن میں گزرجاتے تھے کہ عید کیسے منائیں گے۔ محلے کے ہر گھر کی بس یہی کہانی ہوتی، سبھی عید اور عید کی تیاریوں کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے۔ نئے کپڑوں اور نئے جوتوں کی کہانیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ پھر عید کی نماز کے بعد ہر دوست ایسے وارد ہوتا جسے سپر اسٹار ہو۔ سبھی ایک دوسرے کی خوب تعریف کرتے۔ بڑوں پر روزوں کا رعب ڈال کر عیدی کے نام پر پیسے اینٹھے جاتے، اس میں بھی یہی ہوڑ لگی رہتی کہ سب سے زیادہ عیدی کسے ملی۔ محلے کے ہر گھر سے اشتہا انگیز پکوانوں کی خوشبو آتی تھی۔ انسان اپنی حیثیت کے مطابق اپنی عید کا اہتمام کرتا۔ عید کی رات ہی میں باسی عید کی پلاننگ کر لی جاتی تھی۔ سبھی ایک دوسرے سے گلہ شکوہ مٹاکر ملتے تھے۔ 
محمد سلمان شیخ، تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی
منشی پریم چند کی کہانی ’’عیدگاہ‘‘ کی یاد


اصل دھماچوکڑی تو عید کے چاند کی خبر عام ہوتے ہی شروع ہوتی تھی۔ عیدی کا شدت سے انتظار رہتا۔ جب عیدی مل جاتی تو دوستوں کے ساتھ رقم گنی جاتی کہ کس کے پاس زیادہ عیدی ہے۔ پھر مختلف چیزیں خریدی جاتیں۔ تیسرے دن میں جب گھر والوں کے ساتھ گھومنے جاتے تو وہ رقم خرچ کرتے۔ آج بچپن میں پڑھی گئی منشی پریم چند کی کہانی ’’عیدگاہ‘‘ بھی یاد آتی ہے۔ علاوہ ازیں، اخبارات میں پڑھے گئے دردمندانہ حقیقی واقعات بھی یاد آتے ہیں۔ بڑھاپے میں بچپن بہت یاد آتا ہے۔ 
مرتضیٰ خان، نیا نگر، میرا روڈ
بھونپو لے کر تانگہ پر چاند نظر آجانے کا اعلان


جیسے ہی عید کا چاند بادلوں سے نظر آتا، بچے ’’ چاند ہوگیا‘‘ کی صدا لگاتے ہوئے محلے بھر میں دوڑ لگاتے۔ اس کے فوراً بعد ہم دوستوں کے ساتھ بھونپو لے کر نماز عیدالفطر کا وقت کا اعلان کرنے تانگہ پر نکل پڑتے۔ نماز فجر کے بعد نئے کپڑے پہن کر والد اور بھائیوں کے ساتھ نماز عید کیلئے مسجد کا رخ کرتے۔ گھر پر والدہ شیر خرما، سوئیاں اور دیگر لوازمات تیار رکھتیں۔ اسی دوران سحری جگانے والے اپنی آمد کی اطلاع دیتے اور فطرہ و خیرات لے کر دعائیں دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ ہم گھر کے ہر فرد سے عیدی لیتے۔ بار بار عیدی کی رقم گنتے اور دوسرے بچوں کی رقم سے موازنہ کرتے۔ عزیز و اقارب اور دوستوں کو عید کارڈ بھیجتے۔ عید کارڈ ملنے پر بہت خوشی ہوتی تھی۔ باسی عید پر ہم کئی دوست، نظیر احمد شرف الدین کی ایمبسڈر میں ممبئی کی سیر کو نکل جاتے فی کس خرچ دس روپے آتا تھا۔ اب ہزاروں روپے خرچ کرکے بھی وہ خوشی نہیں ملتی۔ 
ملک مومن، ممبئی
سال میں ایک مرتبہ نئے کپڑے


 بچپن کی عید میں بھی آج کی طرح نئے کپڑے، عیدی، نئےپکوان، سیر وتفریح سب کچھ ہوتا تھا مگر امّی سے روزانہ پوچھنا کہ اب عید میں کتنے دن رہ گئے، کتنے روزے باقی رہ گئے، وہ نہیں رہ گیا ہے۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کیلئے عید کارڈ دیتے تھے جس کی خریداری کا آغاز پہلے روزے ہی سے ہوجاتا تھا۔ سال بھر میں صرف ایک مرتبہ ہی نئے کپڑے پہننے کا موقع ملتا تھا۔ اس لئے بھی عید کا بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔ عید کی نماز کیلئے خاندان کے بڑے اکٹھا ہوکر عیدگاہ جاتے، ان کے ساتھ بچے بھی بغلوں میں چادریں، جائے نماز اور کپڑے کے تھیلے دبائے چل پڑتے تھے۔ اس وقت کم سن بچوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ جب بڑے نماز پڑھیں تو وہ کپڑے کی تھیلوں میں گھر والوں کے جوتے چپل جمع کرکے ان کی نگرانی کریں۔ پانچ دس روپے ہی عیدی ملتی تھی۔ اور ہم عید کا انتظار کرتے تھے کہ پسند کی آئسکریم کھاسکیں یا کولڈرنک پی سکیں۔ 
ایم پرویز عالم نور محمد، رفیع گنج، بہار
قبرستان جاکر دعائے مغفرت
گاؤں کی عید کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ ہر کوئی نئے کپڑوں میں نظر آتا۔ سرمہ، عطر لگا کر سبھی مسجد کا رخ کرتے تھے۔ نماز بعد ایک دوسرے سے گلے ملتے اور مبارکباد دیتے۔ قبرستان جاکر مغفرت کی دعا کرتے تھے۔ دس روپے عیدی بڑی خوشی دیتی تھی۔ 
اقبال احمد خان دیشمکھ، کھٹیل، مہاڈ
محلے کو قمقموں سے سجانا


چاند رات پر محلے کو سجاتے اور پورا علاقہ روشنیوں میں ڈوب جاتا۔ عید پر صبح جلدی اٹھ کر نئے کپڑے پہن کر ہم ابو کے ساتھ عید گاہ جاتے اور سبھی سے ملاقات کرتے۔ لوٹ کر امی اور سبھی رشتہ داروں کو مبارکباد پیش کرتے۔ بچپن میں عیدی زیادہ ملتی تھی۔ عیدی جمع کر کے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کیلئے میلے وغیرہ کا رخ کرتے تھے۔ 
عاطف عدنان شیخ صادق، شاہو نگر، جلگاؤں 
اس ہفتے کا عنوان
تفریحات کا شعبہ تیزی سے مستحکم ہورہا ہے۔ پہلے تفریح کے محدود ذرائع تھے مگر اب ہر دوسری چیز پر تفریح کا سامان موجود ہے۔ اسی پس منظر میں اس بار عنوان ہے : 
تفریحات کا بدلتا منظر نامہ
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۶؍ اپریل) اور اس کے بعد کے شمارے میں شائع کی جائینگی۔ 
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK