’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: March 09, 2025, 3:17 PM IST | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
اقلیتوں کو پسماندہ رکھنے کی سازش
گزشتہ دنوں کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے مرکزی حکومت پر یہ الزام لگایا کہ وہ دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو دی جانے والی اسکالرشپ کے بجٹ میں ہر سال تخفیف کر رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمان جاوید علی خان نے بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ایسے اعداد و شمار پیش کئے جس سے معلوم ہوا کہ بجٹ میں مختص فنڈ سے بھی بہت کم ان طبقات کے طلبہ پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان دبے کچلے طبقات کو تعلیمی اعتبار سے پسماندہ رکھنے کی منظم سازش موجودہ حکومت کی طرف سے مسلسل ہو رہی ہے۔ ہمارے کئی احباب کی جانب سے اپنے میڈیکل طلبہ کی اسکالرشپ روک دکئے جانے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ یہ مودی سرکار کے نعرے’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کو منہ چڑاتا ہے۔
افتخار احمد اعظمی( سابق مدیر ,ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
ہمیں خود اتحاد کی اہمیت کو سمجھناہوگا
پسماندہ اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنےوالے طلبہ کو جو اسکالر شپ حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے، وہ ان کا آئینی حق ہے۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ حکومت کے فرائض میں شامل ہےلیکن گزشتہ۱۰؍ برسوں میں پسماندہ طبقات اور اقلیتوں نے تعصب کی جو مار جھیلی ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ یہ حکومت بدعنوانی، انسانی حقوق کی پامالی اور انتہا پسندی کے تمام ریکارڈ اپنے نام رکھنا چاہتی ہے، اس کیلئے پسماندہ طبقات اورمسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان حالات میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے جو الزام عائد کئے ہیں، وہ پوری طرح درست ہیں۔ حکومت نے ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتی طبقے کے وظائف پر قبضہ کرلیا ہے۔ چونکہ اس سرکار کے نفرت کا محور یہی دو طبقات ہیں اسلئے اب ہمیں اتحاد کی اہمیت کو سمجھناہوگا اورجمہوری طریقے سے ایک بڑی لڑائی لڑنی ہوگی۔
رضوان قاضی( کوسہ، ممبرا)
اقلیتوں کیلئے حکومت کی نیت صاف نہیں
یہ بات پوری طرح سے درست ہے کہ موجودہ حکومت اقلیتوں کی اسکالر شپ میں ہر سال اوسطا ۲۵؍ فیصدکی تخفیف کرتی جارہی جس کی وجہ سے ہر سال ایک سنگین مسئلہ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص اقلیتی طبقات کے ساتھ حکومت اور اقلیتی وزارت کا رویہ افسوس ناک ہے۔ اسکالر شپ میں تخفیف کی وجہ سےکمزور طبقات کے طلبہ کو مواقع نہیں مل پارہے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوپارہی ہے۔ اقلیتی طبقات کیلئے پری میٹرک اسکالر شپ۹۴؍ فیصد، پوسٹ میٹرک اسکالر شپ۸۳؍ فیصد اورا س کے علاوہ اقلیتی طلبہ کیلئے میرٹ کم مینس اسکالر شپ میں ۵۱؍ فیصد کی گراوٹ اقلیتوں کے تئیں حکومت کی نیت کاواضح اظہارہے۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک کے تمام طبقات کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرے۔
ایم پرویز عالم نور محمد( رفیع گنج، بہار)
اس کامقصد مسلمانوں کو تعلیم سے روکنا ہے
ہم تو نہیں لیکن ہمارے جاننے والے پسماندہ طبقات کے کئی ایسے طلبہ ہیں، جواسکالر شپ میں تخفیف کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس حوالے سےملک کے دانشوران پہلے ہی سے کہتے آ رہے ہیں کہ ان فرقہ پرست طاقتوں کا مقصد مسلمانوں کو بھگانا یا انہیں قتل کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد مسلمانوں کو اس ملک میں دبا کر اور دوم درجے کا شہری بنا کر رکھنا ہے۔ دیکھا جائے تواس پر عمل شروع ہو چکاہے۔ عبادتگاہوں اور درسگاہوں کو مسمار کرنے یا چھیڑ چھاڑ کرنے کے پیچھے بھی یہ مقصد ہو سکتا ہے کہ عبادت گاہوں سے مسلمانوں کو ایمانی طاقت اور مدارس و عصری درسگاہوں سے علمی طاقت ملتی ہے۔ ایسے میں قوم کے سرکردہ رہنماؤں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ ضروری ہوگاکہ قوم کے دولت مندحضرات اپنے خزانے کی تھیلی کا منہ کھول دیں ۔
مرتضیٰ خان (نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
اسکالر شپ میں تخفیف کے بجائے اضافے کی ضرورت ہے
حکومتی اعد اد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومت نے نہ صر ف مستحقین کے تمام وظیفوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی ہے بلکہ فنڈ خرچ کرنے میں بھی سال بہ سال اوسطاً ۲۵؍فیصد تک کی کمی کرد ی ہے۔ حالانکہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک میں پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی اسکالرشپ میں تخفیف کے بجائے اضافہ کرے تاکہ حکومت کی اِس امداد سے طلبہ تعلیم کے اخراجات کو برداشت کر سکیں۔ گزشتہ سال سے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم نہیں ہو رہے ہیں۔ وزیر مالیات نے پارلیمنٹ میں جو بجٹ پیش کیا ہے۔ اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیت اور پسماندہ طبقات کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کیلئے بجٹ میں اضافہ ہونے کے بجائے کافی تخفیف کی گئی ہے۔ اقلیتوں کیلئےپری میٹرک اسکالرشپ میں ۹۴؍فیصد تک گراوٹ آگئی ہے۔ اُسی طرح اقلیتوں کیلئے پوسٹ میٹرک ا سکالرشپ میں گزشتہ ۴؍سال میں ۸۳؍ فیصد گراوٹ آئی ہے۔ میرا نا قص مشو ر ہ حکو مت کو یہ ہے کہ ا گر و ہ پسما ند ہ طبقا ت ا و ر اقلیتو ں کو تعلیم کے مید ا ن میں آگے بڑ ھا نا چا ہتی ہے تو اُ ن کی ا سکا لر شپ میں بجا ئے تخفیف کے اضا فہ کرے۔ الغر ض! پسما ند ہ طبقا ت ا و ر اقلیتو ں کا تعلیمی مید ا ن میں آ گے بڑ ھنا ملک کیلئے مفید ثا بت ہو گا۔
پر نسپل ڈ ا کٹر محمد سہیل لو کھنڈ وا لا(سا بق رکن اسمبلی ممبئی)
پسماندہ طبقات اور اقلیتیں مزید پسماندگی کا شکار ہو سکتی ہیں
پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی اسکالرشپ میں ہر سال تخفیف ہو رہی ہے، یہ بات بالکل درست ہے۔ میں ذاتی طور پر تو اس سے متاثر نہیں ہوئی ہوں لیکن جو طلبہ میرے پاس زیر تعلیم تھے اور ہیں، ان میں سے ایک بڑی تعداداس سے متاثر ہوئی ہے۔ ا سکالرشپ کی کمی تعلیمی مواقع کو محدود کر تی ہے جس کی وجہ سے بہت سے طلبہ کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے پاتے جس سے ان کے کریئر کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ بغیر اعلیٰ تعلیم یا مہارت کے اچھی نوکریاں حاصل کرنا ان کیلئے مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے غربت کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ میں نے ایسے کئی بچوں کو دیکھا ہے جنہیں اپنی قابلیت کے مطابق مواقع نہیں ملتے تو ان میں خود اعتمادی کی کمی اور مایوسی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بات ان کی مجموعی ذہنی صحت پر بھی اثر انداز کر تی ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے پسماندہ طبقات اور اقلیتیں مزید پسماندگی کا شکار ہو سکتی ہیں جس سے سماج میں فرق اور زیادہ گہرا ہو سکتا ہے۔
مومن ناظمہ محمد حسن (لیکچرر ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے)
کمزور طبقات کے طلبہ کوحوصلہ شکنی کا سامنا کرنا ہوگا
پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی اسکالر شپ میں ہر سال تخفیف تشویش کا باعث ہے۔ دراصل یہ ملک کے مستحقین کی ترقی کی راہ میں ایک بڑا روڑا ہے۔ کمزور طبقات کے طلبہ کومواقع کی کمی کے ساتھ حوصلہ شکنی کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ اقلیتوں کے وظائف کے کروڑوں روپے کے بجٹ کوسلسلہ وار کمی کر کے اسے نہایت محدود کردیا گیا ہے۔ اسلئے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ اس میں سے کتنی رقم وظائف کے طور پر تقسیم ہوگی۔ اس سے نہ صرف اقلیتوں کے تئیں حکومت کا رویہ بلکہ ملک میں بے روزگاری کو قابومیں کرنے کے دعوے بھی کھوکھلے نظر آ رہےہیں۔
ذاکر حسین غلام محمدمومن (رفیع الدین فقیہ گرلز ہائی اسکول، بھیونڈی)
لاڈلی بہن اسکیم چل سکتی ہے تو اسکالرشپ کیوں نہیں ؟
پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی اسکالر شپ میں ہرسال تخفیف ہورہی ہے۔ جواقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اقلیت اور پسماندہ طبقات بھی اسی ملک کے شہری ہے۔ ان کی زندگی میں سدھار لانا حکومت کا فرض ہے۔ لا ڑ کی بہن اسکیم حکومت چلا سکتی ہیں تو پھر ان طبقات کیلئے جاری اسکالر شپ میں ہر سال تخفیف کرنا اور دھیرے دھیرے اسکالر شپ بند کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف(مہا پولی، بھیونڈی)
منھ بھرائی کا الزام لگا کر منھ بھرائی کا ہی کھیل جارہا ہے
نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت نے دھیرے دھیرے وہ تمام اسکیمیں بند کردی ہے جو صرف مسلمانوں، اقلیتوں یا کمزور طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے وقف تھیں۔ مثلاً مولانا آزاد فیلو شپ، جو سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد پندرہ نکاتی پروگرام کے تحت ملک کے اقلیتی طلبہ کے اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنے میں معاون تھی، اسے یک لخت ختم کر دیا گیا۔ جس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں کمی آئی ہے۔ پو سٹ میٹرک، پری میٹرک وظائف کو بند کر گیا ہے، اسی طرح حج سبسیڈی کو بند کردیا گیا۔ اسے بند کرتے وقت حکومت نے یہ کھوکھلا دعویٰ کیا تھا کہ تعلیم کے میدان میں یہ پیسہ خرچ کیا جائے گا، الٹا تعلیمی اسکیموں کو کم کر دیا گیا۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ ہر طبقہ کی ان کی ضروریات کے مطابق مدد کرتی، تاکہ ملک ہر زاوئیے سے ترقی کرتا۔ لیکن افسوس ہے کہ منھ بھرائی کا الزام لگا کر منھ بھرائی کیلئے ہی یہ سب کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
سعیدالرحمان محمد رفیق (گرین پارک روڈ شیل تھانے)
اسکالر شپ: مدد نہیں، ذہین طلبہ کاانعام ہے
گزشتہ دنوں کانگریس سربراہ ملکارجن کھرگے نے اسکالرشپ کے حوالے سے مودی حکومت پر جو الزام عائد کیا، وہ صد فیصد درست ہے۔ ان کی اس بات سےتعلیم اور طلبہ کے اسکالرشپ کیلئے کام کرنے والے افراد و ادارے مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے میں اسکالرشپ کی رقم میں کمی کی گئی ہے توکچھ اسکالرشپ بند کردی گئی ہے اور کچھ میں تاخیر کی جارہی ہے جس سے طلبہ کی خاصی تعداد متاثر ہورہی ہے۔ وزیر اعظم کے ۱۵؍ نکاتی پروگرام کے تحت جاری پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکیموں کا حال تو بہت برا ہے۔ اسمرتی ایرانی نےاپنے دور وزارت میں پہلی تا آٹھویں جماعت کو دی جانے والی پری میٹرک اسکالر شپ کو یکسر یہ کہہ کر بند کردیا تھا کہ آٹھویں جماعت تک تو تعلیم مفت ہے۔ انہیں شاید پتہ نہیں کہ تعلیم کے نام پر خرچ صرف ٹیوشن فیس ہی نہیں ہے بلکہ بہت سارے دیگر اخراجات بھی ہیں۔ حکومت نے ’لڑکی پڑھاؤ‘ کا نعرہ تو دیا لیکن گیارہویں و بارہویں جماعت کی طالبات کیلئے دی جانے والی ’بیگم حضرت محل اسکالرشپ‘ کو مکمل بند کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طالبات کی ایک بڑی تعداد اس سے متاثر ہوئی۔ تقریباً ۶؍ ہزار روپے سالانہ کی امداد ایک بڑی رقم تھی جسے بند کرکے مستحق طالبات کو محروم کردیا گیا۔ اعلیٰ تحقیق میں مولانا آزاد فیلو شپ کو بند کردیا گیا۔ میرٹ کم مینس اسکالرشپ کی ادائیگی میں تاخیر بھی مستحق طلبہ کو ان کے تعلیمی وظائف سے محروم کرنا ہی ہے۔ حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ملک کی ترقی میں ہر طبقے کا تعاون ضروری ہے اور جب تمام افراد کو یکساں مواقع دستیاب ہوں گے تو ہی ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا۔ پسماندہ اور اقلیتی طلبہ کی تعلیمی ترقی کیلئے تعلیمی وظائف حکومت پر بوجھ یا طلبہ کی مدد نہیں بلکہ ذہین، مستحق طلبہ کو دیا جانے والا انعام ہے۔
مومن فہیم احمد عبدالباری(کریئر کاونسلر اینڈ لیکچرر صمدیہ جونیئر کالج، بھیونڈی)
اسکالرشپ میں تخفیف، ایک سنگین مسئلہ
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، اسلئے ہر طالبعلم کو مساوی مواقع ملنے چاہئیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کیلئے مخصوص اسکالرشپ میں ہر سال کمی ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں طلبہ مالی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسکالرشپ کا بنیادی مقصد کمزور طبقات کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ بھی آگے چل کر سماج کی ترقی میں برابر کا حصہ لے سکیں لیکن حالیہ برسوں میں کئی اسکالرشپ یا تو بند کر دی گئی ہیں یا پھراسے محدود کردیا گیا ہے۔
ہمیں ذاتی طور پر تو کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن چونکہ ہم کئی اداروں کے زیر اہتمام اسکالرشپ فارم بھرنے کا کام کرتے رہتے ہیں، اسلئے اس کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس کی وجہ سےہزاروں طلبہ کی تعلیم خطرے میں پڑ گئی ہے یا پھروالدین پر مالی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
اس کے سبب تعلیم کو ادھوری چھوڑدینے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پسماندہ طبقات کا ترقی کا خواب دھندلا ہو رہا ہے۔ ایسے میں یہ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت تعلیمی بجٹ میں کمی کے بجائے، اضافے پر توجہ دے۔ پسماندہ طبقات اور اقلیتی طلبہ کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ اسکالرشپ کو بحال کیا جائے اور مزید مواقع فراہم کئے جائیں۔ اس کیلئے طلبہ اور والدین کو متحد ہو کر آواز اٹھانی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی سول سوسائٹی سے وابستہ افراد اور تعلیمی اداروں کو حکومت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ اسکالرشپ کو فوری طور پر بحال کرے۔ نجی اداروں اور مخیر حضرات کو بھی آگے آ کر مستحق طلبہ کی مدد کرنی چاہئے۔ تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور کسی بھی حکومت یا معاشرے کو ایسا نظام قائم کرنا چاہئے جو ہر طبقے کو یکساں مواقع فراہم کرے۔ اگر آج ہم نے اس مسئلے کو نظرانداز کیا، تو کل ایک پوری نسل تعلیمی محرومی کا شکار ہو سکتی ہے۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول، بھیونڈی)
ایسا ہی رہا تو بہت سارے طلبہ تعلیم سے محروم رہ جائیں گے
جن دنوں میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، اُن دنوں ہمیں پوری اسکالر شپ ملتی رہی تھی۔ اُس وقت کی مرکزی حکومت نے ہر سال اسکالرشپ کی رقم ادا کی جس کی وجہ سے میں اپنی تعلیم مکمل کر سکا۔ حالانکہ اُس وقت بھی یہی حکومت تھی لیکن تب تک اس نے اسکالرشپ میں تخفیف کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ا لبتہ اسکالرشپ کی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کا سلسلہ ضرور ہوگیا تھا۔ اُس کے بعد اسکالر شپ کے حوالے سے ایک ضابطہ بنایا گیا کہ ایک طالب علم صرف ایک ہی اسکالرشپ سے استفادہ کر سکتا ہے پھر چاہے وہ مرکزی اسکالرشپ ہو یا پھر ریاستی۔ اس کے بعد سے ہر سال ملک کے تعلیم کا بجٹ کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے اسکالرشپ کی رقم، خاص طور سے جو پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے لئے ہیں، اس میں تخفیف کی جا رہی ہے۔ ابھی بھی ایسے کئی طالب علم پسماندہ طبقات اور اقلیتوں میں موجود ہیں جو صرف اور صرف اسلئے اپنی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں کیونکہ انہیں اسکالرشپ ملتی ہے۔ اگر اس رقم میں اسی طرح تخفیف ہوتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم ایسے طلبہ کو کھو دیں گے۔ موجودہ حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی طالب علم اپنی تعلیم سے صرف اس بنا پر محروم نہ رہنے پائے کہ اس کی مالی حالت اسے فیس ادا کرنے کی متحمل نہیں بناتی۔
جواد عبدالرحیم قاضی(ساگویں، رتناگیری)
اس ہفتے کا عنوان
رمضان کا بابرکت مہینہ جاری ہے۔ اس ماہ میں مسلمان بہت ساری عبادتوں کے ساتھ ہی زکوٰۃ کی ادائیگی کا بھی خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں اس بار سوال طے کیا گیا ہے۔
زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کیلئے انفرادی سطح پر کس طرح کی کوششیں ہوسکتی ہیں ؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۱۶؍ مارچ) اور اس کے بعد کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔ جن قلمکاروں کی تصاویر نہیں چھپ رہی ہیں، ان سے التماس ہے کہ وہ دوسری اور اچھی کوالیٹی کی تصویربھیجیں۔